اسی عشرہ میں شب قدر ہے اسلئے ضروری ہے کہ مسلمان اس کی راتوں بالخصوص طاق راتوں میں عبادت کا اہتمام کریں
EPAPER
Updated: April 10, 2023, 1:42 PM IST | Maulana Muhammadullah Khalili Qasmi | Mumbai
اسی عشرہ میں شب قدر ہے اسلئے ضروری ہے کہ مسلمان اس کی راتوں بالخصوص طاق راتوں میں عبادت کا اہتمام کریں
یوں تو رمضان کا پورا مہینہ دیگر مہینوں میں ممتاز اور خصوصی مقام کا حامل ہے، لیکن رمضان شریف کے آخری دس دنوں (آخری عشرہ) کے فضائل اور بھی زیادہ ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت و طاعت، شب بیداری اور ذکر و فکر میں اور زیادہ منہمک ہوجاتے تھے۔
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ میں اتنا مجاہدہ کیا کرتے تھے جتنا دوسرے دنوں میں نہیں کیا کرتے تھے ۔(صحیح مسلم) سنن ابن ماجہ ، صحیح ابن خزیمہ اور مسند احمد میں بھی اسی مفہوم کی احادیث مروی ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات دیگر ایام کے مقابلہ میں بڑھ جاتے تھے۔
دیگر احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کی تفصیلات ملتی ہیں۔ جیسا کہ اس حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آخری عشرہ شروع ہوجاتا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر بیدار رہتے اور اپنی کمرکس لیتے اور اپنے گھروالوں کو بھی جگاتے تھے۔ (صحیح بخاری ،صحیح مسلم) شعب الایمان بیہقی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ مہینہ ختم ہونے سے پہلے بستر پر نہیں آتے تھے۔
راتوں کو اٹھ کر عبادت کرنے کا معمول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تو ہمیشہ ہی تھا، لیکن رمضان میں آپ کمر کس کر عبادت کے لیے تیار ہوجاتے اور پوری پوری رات عبادت میں گزارتے۔ یہ مضمون حضرت عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کی ایک دوسری روایت سے اور زیادہ واضح ہوتا ہے، وہ بیان فرماتی ہیں: مجھے یاد نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے علاوہ کبھی بھی ایک ہی رات میں پورا قرآن مجید پڑھا ہو یا پھر صبح تک عبادت ہی کرتے رہے ہوں ، یا رمضان المبارک کے علاوہ کسی اور ماہ میں مکمل مہینہ کے روزے رکھے ہوں۔ (سنن نسائی)
دوسرا خصوصی معمول جس کا ذکرحدیث میں ہے وہ ہے اپنے اہل خانہ کو رات میں عبادت کیلئے جگانا۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھروالوں کو سارا سال ہی جگایا کرتے تھے ، لہٰذا رمضان المبارک میں خصوصیت کے ساتھ جگانے کے ذکر کا صاف مطلب یہی ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھروالوں کو باقی سارے سال کی بہ نسبت جگانے کا زیادہ اہتمام فرماتے تھے ۔
اعتکاف: مسجد میں بہ نیت ِعبادت قیام
رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی ایک اہم خصوصیت اعتکاف ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک معمول تھا کہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ کی روایت میں ہے کہ حضور ﷺ ہر سال رمضان شریف میں دس دنوں کا اعتکاف فرماتے تھے، اور جس سال آپ ؐ نے دنیا سے پردہ فرمایا اس سال آپؐ نے بیس دنوں کا اعتکاف فرمایا۔ (بخاری)
آخری عشرہ کا اعتکاف (یعنی مسجد میں عبادت کی نیت سے قیام)سنت علی الکفایہ ہے۔ اعتکاف مسجد کا حق ہے اور پورے محلہ والوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ان کا کوئی فرد مسجد میں ان دنوں اعتکاف کرے۔ اعتکاف کرنے والے کیلئے مسنون ہے کہ وہ طاعات میں مشغول رہے اور کسی شدید طبعی یا شرعی ضرورت کے بغیر مسجد سے باہر نہ نکلے۔ اعتکاف کی حقیقت خالق ارض و سماء اور مالک الملک کے دربار عالی میں پڑجانے کا نام ہے۔ اعتکاف، عاجزی و مسکنت اور تضرع و عبادت اللہ کی رضا و خوشنوی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔ اعتکاف در اصل انسان کی اپنی عاجزی کا اظہار اور اللہ کی کبریائی اور اس کے سامنے خود سپردگی کا اعلان ہے۔
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم ؐآخری عشرہ کا اعتکاف خاص طور پر لیلة القدر کی تلاش اور اس کی برکات پانے کیلئے فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے کہ نبیؐ اکرم آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ رمضان کے آخری دس دنوں میں لیلة القدر کو تلاش کرو۔(صحیح بخاری )۔ حضرت ا بوسعید خدری ؓ کی روایت میں تفصیل ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے پہلے عشرہ کا اعتکاف کیا اور ہم نے بھی اعتکاف کیا۔ حضرت جبریلؑ آپ کے پاس آئے اور کہا کہ آپؐ کو جس کی تلاش ہے وہ آگے ہے۔ چنانچہ آپؐ نے دوسرے عشرہ کا بھی اعتکاف کیا اورہم نے بھی کیا۔ پھر حضرت جبریلؑ نے آپؐ کو بتایا کہ مطلوبہ رات ابھی آگے ہے۔ چنانچہ آپؐ بیسویں رمضان کی صبح کو خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا: جو میرے ساتھ اعتکاف کررہا تھا اسے چاہئے کہ وہ آخری عشرے کا اعتکاف بھی کرے۔ مجھے شب قدر دکھائی گئی جسے بعد میں بھلادیا گیا۔یاد رکھو لیلة القدر رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں ہے۔ (صحیح بخاری )
(مضمون کا دوسرا حصہ کل ملاحظہ کیجئے)