سپریم کورٹ کے سخت حکم کے بعد ۱۴ ؍مارچ کی رات الیکشن کمیشن نے جو ڈیٹا اپنی ویب سائٹ پر اَپ لوڈ کیا تھا، اس میں ایک بے ایمانی اسی وقت پکڑی گئی۔
EPAPER
Updated: March 17, 2024, 11:19 AM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai
سپریم کورٹ کے سخت حکم کے بعد ۱۴ ؍مارچ کی رات الیکشن کمیشن نے جو ڈیٹا اپنی ویب سائٹ پر اَپ لوڈ کیا تھا، اس میں ایک بے ایمانی اسی وقت پکڑی گئی۔
سپریم کورٹ کے سخت حکم کے بعد ۱۴ ؍مارچ کی رات الیکشن کمیشن نے جو ڈیٹا اپنی ویب سائٹ پر اَپ لوڈ کیا تھا، اس میں ایک بے ایمانی اسی وقت پکڑی گئی۔ اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے الیکشن کمیشن کو انتخابی بونڈس کی تفصیلات تو فراہم کردی مگر انتہائی چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یونیک نمبر نہیں دیا جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ کتنے کروڑ کا بونڈ کس پارٹی نے بھنایا اوراسے کس کمپنی نے دیا۔ جمعہ کو سپریم کورٹ نے اس کانٹے کو بھی دور کرتے ہوئے ایس بی آئی کو یونیک نمبر جاری کرنے کا حکم دیا۔اب ثابت ہوجائے گا کہ کس پارٹی کو کتنا پیسہ ملا؟یہ بہت بڑا فیصلہ ہے۔
لوک ستہ(۱۲ ؍مارچ)
اخبار نے اداریہ لکھا ہے کہ’’اگر آپ طلبہ کو سکھانا چاہتے ہیں کہ ایک جملہ میں انگریزی محاورہ’ ٹو کلیور بائے ہاف‘(too clever by half )کیسے استعمال کیا جائے تو ہندوستان کے تمام اسکولوں کے اساتذہ کو پیر کو سپریم کورٹ میں اسٹیٹ بینک آف انڈیا کے ساتھ کیا ہوا، اس کا حوالہ دینا چاہئے۔سپریم کورٹ نے ۱۵؍ فروری کو اپنے تاریخی فیصلہ میں الیکٹورل بونڈ کی غیر شفافیت کو ختم کرتے ہوئے الیکشن کمیشن اور ایس بی آئی کو عطیہ دہندگان کی تفصیلات فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔جب سے مودی سرکار نے انتخابی شفافیت کے نام پر الیکٹورل بونڈ متعارف کروایا ہے تبھی سے اس اخبار نےالیکٹورل بونڈ کی غیر شفافیت پر کئی سوال کھڑے کئے ہیں۔دراصل ریزرو بینک آف انڈیا نے بھی الیکٹورل بونڈ پر سوال اٹھائے تھے تاہم بعد میں اس پر خاموشی اختیارکرلی تھی۔ آر بی آئی کی طرح الیکشن کمیشن بھی الیکٹورل بونڈ کے موجودہ نظام سے مطمئن نہیں تھا، لیکن جیسے ہی سرکار نے آنکھیں دکھائیں الیکشن کمیشن نے اپنی تلوار میان میں رکھ لی۔ماضی کے واقعات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایس بی آئی کو سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس کی تعمیل کرنی چاہئے تھی لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ الیکٹورل بونڈ کی تفصیلات ظاہر کرنے کی ڈیڈ لائن سے دو روز قبل ایس بی آئی اچانک بیدار ہوا اور اس نے بونڈ کی تفصیلات ظاہر کرنے کیلئے ۳۰؍ جون تک توسیع کا مطالبہ کردیا۔یہ اعلیٰ سطح کی دروغ گوئی تھی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انتخابات قریب ہیں اور موجودہ لوک سبھا کی میعاد جون کے دوسرے ہفتے میں ختم ہورہی ہے۔تب تک ایک نئی حکومت برسر اقتدار ہوگی اور الیکٹورل بونڈ کی تفصیلات کو روکنے کیلئے آرڈیننس یا دیگر ذرائع دستیاب ہوں گے۔ اسٹیٹ بینک کے اعلیٰ افسران نے یقیناً یہ سوچا ہوگا کہ اگر الیکٹورل بونڈ کی تفصیلات جاری کی گئیں تو حکمراں جماعت کیلئے دشواریاں پیدا ہو سکتی ہیں لیکن ملک کے سب سے بڑے بینک کیلئے ایسا کرنا اپنی عزت کو داؤ پر لگانے جیسا عمل ہے۔اسٹیٹ بینک نے اپنے موقف کو پیش کرنے کیلئے بہت مہنگے قانونی مشیر ہریش سالوے کی خدمات حاصل کیں، لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ اتنا واضح تھا کہ اسٹیٹ بینک کو سالوے جیسے سالیسٹر پر خرچ کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: پروفیسر سائی بابا کی دوسری بار رِہائی
پربھات(۱۲ ؍مارچ )
اخبار اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ ’’سپریم کورٹ نے ایک بار پھر جمہوریت کی روح کو بر قرار رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔سپریم کورٹ نے الیکٹورل بونڈ کی تفصیلات جمع کرانے کیلئے ایس بی آئی کی طرف سے مانگی گئی توسیع کو مسترد کردیا ہے۔سپریم کورٹ نے معلومات کے اشتراک میں تاخیر کیلئے ایس بی آئی کے تمام دلائل مسترد کر دیئے۔عدالت نے بینک کو وارننگ بھی دی ہے کہ اگر مقررہ وقت پر معلومات فراہم نہیں کی گئی تو بینک انتظامیہ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے گی۔اس فیصلے سے اربوں روپے کے سیاسی فنڈ کو بے نقاب کرنے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔اس تاریخی فیصلے سے الیکٹورل بونڈ کے ذریعہ حاصل شدہ فنڈ کو چھپانے کے تمام راستے بند کردیئے گئے ہیں۔ یہ عدالت کی جانب سے براہ راست مرکزی حکومت کو دیا گیا بڑا جھٹکا ہے۔جب حکومت کے وکیل ہریش سالوے نے کہا کہ معلومات جمع کرنے میں وقت لگے گا تب چیف جسٹس چندر چُڈ نے ایس بی آئی کا ایک حلف نامہ دکھا کر ہریش سالوے کی بولتی بند کردی۔ ایس بی آئی نے حلف نامے کے ذریعہ سپریم کورٹ کو آگاہ کیا تھا کہ ہم نے ممبئی برانچ میں سیل بند لفافے میں انتخابی بونڈ کے ذریعہ کس سیاسی جماعت کو کتنی رقم ملی ہے، اس کی پوری تفصیل جمع کر رکھی ہے۔مرکزی حکومت خود اس معاملے کو کم از کم لوک سبھا انتخابات تک دبانا چاہتی تھی، اسلئے بونڈس سے متعلق تفصیلات جمع کرنے کیلئے ۳۰؍ جون کی تاریخ طلب کی گئی تھی۔مجموعی طور پر الیکٹورل بونڈ کا معاملہ مودی سرکار کیلئے شرمندگی کا باعث بننے والا ہے۔‘‘
ایک مت(۱۳ ؍مارچ)
اخبار نے لکھا ہے کہ’’ بدعنوانی اور کالے دھن کی آڑ میں متعارف کروائی گئی الیکٹورل بونڈ اسکیم مودی سرکار کیلئے فائدہ مند ثابت ہوئی ہے لیکن اس اسکیم کی راز داری کی شق کی وجہ سے ملک کے عام شہریوں کے معلومات کےحق کو سلب کیا گیا ہے۔۱۵؍ فروری کو سپریم کورٹ نے انتخابی بونڈ کو غیر آئینی قرار دیا تھا نیز خریداروں سے متعلق اور ان کی جانب سے خریدے گئےالیکٹورل بونڈ کی تفصیل ۶؍مارچ تک الیکشن کمیشن میں جمع کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔کورٹ نے واضح کیا تھا کہ کمیشن یہ تمام معلومات۱۳؍ مارچ تک اپنی ویب سائٹ پر شائع کرے۔ سپریم کورٹ کے اس موقف کے پیش نظر ایس بی آئی کو عدالت کے حکم پر سنجیدگی سے عمل کرنے کو ترجیح دینی چاہئے تھی اور غیر جانب داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا۔تاہم آج کل تمام سرکاری ایجنسیوں نے اپنی غیرت کو مودی سرکار کے سامنے گروی رکھ دیا ہے۔ عدالت کی جانب سے دیئے گئے مقررہ وقت کے اندر اسٹیٹ بینک کو تمام معلومات بغیر کسی تاخیر کے الیکشن کمیشن کے سپرد کردینی چاہئے تھی، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ اس وقت لوک سبھا انتخابات کی ہلچل تیز ہوچکی ہے، ایسے میں الیکٹورل بونڈ کی تفصیلات عام کرنا اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے جیسا ہے۔اسلئے اسٹیٹ بینک کے’ آقا‘ نے بینک کو حکم دیا تھا کہ بونڈ کی تفصیل کی فراہمی میں ممکن حد تک تاخیر کی جائے۔‘‘