Inquilab Logo

ایسے تھے رام لعل

Updated: October 31, 2021, 3:31 PM IST | Ehsan-ul-Haq

جو اردو زبان کی ترقی کیلئے ہمیشہ فکر مند اور کوشاں رہے ۔ ۱۹۷۳ءاور پھر ۱۹۸۱ء میں دو بار نان مسلم اُردو رائٹرس کانفرنس منعقد کی ، یہ ثابت کرنے کیلئے کہ اُردو کسی خاص فرقہ اور مذہب کی زبان نہیں بلکہ عام زبان ہے ۔

Ram Laal.Picture:INN
رام لعل۔ تصویر: آئی این این

آزادی سے قبل۳؍ مارچ۱۹۲۳ء کو پنجاب کے شہر میانوالی میں پیدا ہنے والا ا وہ شخص ۷؍ اگست  ۱۹۴۷ء کو بیوی شکنتلا اور آٹھ ماہ کی بیٹی شیل کے ساتھ ایک انجانی راہ کیلئے روانہ ہو گیا۔ ہندوستان کی آزادی کے ساتھ قیام پاکستان کی تاریخ طے ہو گئی۔ صورتحال بہت نازک تھی۔ ہر طرف قتل و غارت گری اور افراتفری کا ماحول تھا۔جان کی سلامتی کے پیش نظر اس شخص نے کچھ ضروری سامان اور کاغذات جمع کئے، گھرمیں تالا لگا دیا۔ چابی اپنے مسلمان پڑوسی کے حوالے کی ، پوری امید کے ساتھ کہ فسادات جلد ختم ہو جائیں گے ، امن بحال ہو جائے گا اور وہ زندگی گزارنے کے لئے اپنے آبائی شہر ، پیارے شہر لاہور واپس آ جائے گا۔ اس پڑوسی نے اسے ریلوے اسٹیشن تک پہنچانے میں بھی مدد کی۔ان دنوں لاہور سے جالندھر اور جالندھر سے لاہور جانے والی اکثر ٹرینیں لہو لہان ہو کر پہنچتی تھیں۔ اتفاقاً اتنے سنگین ماحول میں یہ خاندان بغیر کسی کھرونچ کے جالندھر پہنچ گیا۔ اسے نوواں شہر دو آبہ کے ایک پناہ گزیں کیمپ میں جگہ ملی۔ کچھ دنوں میں یہ واضح ہو گیا کہ تقسیم مکمل ہو چکی ہے اور اب سرحدوں کے پار اپنے گھروں کو لوٹنا ممکن نہیں ہو گا۔ خبریہ بھی ملی کہ جیسے سرحد کے اِدھرخاص خاص محلوں ، علاقوں اور شہروں میں مسلمانوں کے گھروں کو لوٹ لیا گیا ہے، جلا دیا گیا ہے ، سرحد کے اُس پار ہندوئوں کے گھروں کے ساتھ بھی ٹھیک ایسا ہی سلوک کیا گیاہے ۔ یعنی اب کچھ بھی تو نہیں بچا ہے ۔ جو بچ گئے وہ خدا کا شکر ادا کریں ۔ اب میرے پِتا جی(را م لعل) کو نئے شہر میں زند ہ رہنے کی زبر دست جدو جہد شروع کرنی پڑی۔ خبر ملی کہ لالا جی (میرے دادا) اور تمام رشتہ دار میانوالی سے جالندھر روانہ ہو گئے ہیں ، لیکن یہاں جالندھر میں ان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔پِتا جی بہت پریشان ہوئے کہ آیا وہ سب بچ گئے ہیں یا نہیں۔ اس طرح کی الجھن اور بےچینی کے باوجود وہ اپنی بیوی اور بیٹی کو پناہ گزیں کیمپ میں چھوڑ کر بنارس چلے آئے۔ دراصل ایسا کرنا ان کی مجبوری تھی۔ کیونکہ خبر ملی تھی کہ ریلوے میں مہاجرین کی خصوصی بھرتی کی جا رہی ہے۔ پِتا جی لاہور کے مغل پورہ ریلوے ورکشاپ میں ملازم تھے، اس کا ثبوت وہ ریلوے پاس تھا جو انہوں نے لاہور چھوڑنے والے دن لاہور سے جالندھر تک کیلئے جاری کروایا تھا۔لہٰذا نوکری مل گئی ۔ پِتا جی (رام لعل جی )بتاتے تھے کہ وہ فوراً بیوی اور بیٹی کو بنارس لے آئے ۔ کچھ عرصہ بعد انہیں اپنے والدین،  بھائی بہن اور تمام رشتہ داروں کی سلامتی کی  خبر ملی ۔ والد صاحب محض ہائی اسکول پاس تھے ، جو اس زمانے کے لحاظ سے کافی تھا  لیکن ان کے رگ و ریشے میں اُردو ادب اسکول کے زمانے سے ہی لہو بن کے موجزن  تھا ۔ اس وقت کے متعدد رسالوں میں ان کے افسانے چھپ چکے تھے ۔ افسانہ نگاری کے فن کو تراشنے کیلئے ان کو علم و اددب اور گنگا جمنی تہذیب کا مرکز لکھنؤ زیادہ پسند آیا ۔ 
ملک کو آزاد ہوئے پانچ سال گزر چکے تھے لیکن تقسیم کے ستائے مہاجرین کو کرائے پر مکان دینے سے لکھنؤ والوںمیں ہچکچاہٹ تھی۔چنانچہ کچھ وقت عیش باغ کے ایک ٹوٹے پھوٹے مکان میں بمشکل گزرا ۔ لکھنؤ میں پِتاجی کی پوسٹنگ چارباغ ریلوے اسٹیشن کے پارسل آفس میں تھی۔ ایک روز مناسب رہائش نہ ملنے سے پریشان وہ ایک نمبر پلیٹ فارم پر بڑی بے چینی سے ٹہل رہے تھے ۔ تبھی ریلوے مجسٹریٹ خواجہ قمرالدین اُدھر سے گزرے۔ پِتاجی کو اس طرح ٹہلتے ہوئے دیکھا تو خودکشی کا شک ہوا ۔ لیکن جب حقیقت معلوم ہوئی تو وہ مطمئن ہو گئے ۔بولے نخاس میں رہنا ہے ؟ کئی مکان خالی ہیں۔ مسلم آبای ہے ۔ تقسیم کی وجہ سے دل میں گھرکرگئی نفرت اگر پریشان نہ کرے تو آجائو ۔ مذکورہ واقعہ جب بھی پِتا جی (رام لعل جی)ہم بچوں کے درمیان بیان کرتے تھے تو ان کی پیشانی پر فکر کی لکیریں صاف ظاہر ہوتی تھیں ۔ تقسیم کے دنوں میں ہونے والی قتل و غارت گری لوٹ مار …ایک وحشیانہ دور تھا ۔ یہ سرحد کے دونوں طرف ہوا تھا ، کسی ایک فرقہ کا قصور نہیں تھا۔ وقت کی دھول کی موٹی پرت میں ماضی اب دفن ہوچکا ہے ۔ ویسے بھی اُن کے دل میں کسی فرقہ خاص کیلئے نفرت کبھی تھی ہی نہیں ۔ انہیں شکایت   تھی تو حیوان بن بیٹھنے والے لوگوں سے ۔ چنانچہ وہ نخاس میں رہنےکیلئے فوراً تیار ہو گئے ۔ نخاس میں نامی پرنٹنگ پریس کے پاس واقع اُس مکان میں کئی سال گزارے جو شاید کرسچین کالج میں انگریزی کے استاد جمیل صاحب کا تھا ۔ یہاں پِتاجی کی ادبی سرگرمیاں عروج پر تھیں یا یوں کہیں کہ خالص لکھنوی تہذیب نے ان کے فن کو جلا بخشی ۔ نخاس میں کئی سال امن و سکون سے گزارنے کے بعد ہم عالم باغ کی چندر نگر مارکیٹ آ گئے ۔ یہاں سے ریلوے اسٹیشن نزدیک تھا۔ شفٹ ڈیوٹی میں انہیں سہولت ہوتی تھی ۔ ہمارے گھر کے تعلقات آج بھی نخاس کی ان گلیوں میں رہنے والوں سے ہیں۔ عید ، ہولی اور دیوالی پر ملنے اور مبارکباد  دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ وقت گزرتا رہا اورایک بارپھر ہم آشیانہ بدل کر ۱۹۶۱ء میں چار باغ ریلوے اسٹیشن کے ٹھیک سامنے ملٹی اسٹوری بلڈنگ میں شفٹ ہو گئے ، جہاں سے زندگی کی لائف لائن یعنی ریل گاڑی بس چند قدموں کی دوری پر تھی ۔آخر میں پِتا جی شمالی ریلوے کے بنارس میں واقع سی سی ایس آفس سے کلیم انسپکٹر کی پوسٹ سے سبکدوش ہوئے اور پھر سرکاری گھر چھوڑ کر ۱۹۸۲ء میں اندرانگر(لکھنؤ) میں اپنے ذاتی مکان میں منتقل ہو گئے اور ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۹۶ء کو انتقال ہونے تک وہیں رہے ۔یہ بتاتا چلوں کہ چار باغ ریلوے اسٹیشن کے سامنے واقع جس ملٹی اسٹوری بلڈنگ میں تقریباً ۲۱؍سال گزارے تھے وہ بلڈنگ اب وہاں نہیں ہے ۔  اب وہاں میٹرو اسٹیشن ہے ۔ 
پِتاجی  زبان اُردو کی ترقی کیلئے ہمیشہ فکر مند اور کوشاں رہے ۔ ۱۹۷۳ء اور پھر ۱۹۸۱ء میں دو بار نان مسلم اُردو رائٹرس کانفرنس منعقد کی ، یہ ثابت کرنے کیلئے کہ اُردو کسی خاص فرقہ اور مذہب کی زبان نہیں بلکہ  سب کی زبان ہے ۔ ۱۹۷۳ء کی کانفرنس میں ریاست کے وزیر اعلیٰ ہیم وتی نندن بہوگنا اور ۱۹۸۲ء میں وزیر اعلیٰ وشوناتھ پرتاپ سنگھ اور بہار کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر جگناتھ مشرا مہمان خصوصی تھے۔ انہوں نے اُردو کو ریاست کی دوسری سرکاری زبان کا درجہ دینے پر غور کرنے کا وعدہ کیا ۔ وہ ہمیشہ اُردو کی ترقی کیلئے پیش پیش رہے۔ متعدد جلسے کئے ، مہم چلائی اور گرفتاری بھی دی ۔ اُردو کی بےلوث خدمات کیلئے انہیں انعامات سے بھی نوازا گیا اور   وظیفے بھی ملے ۔ اُردو اکادمی کے نائب صدر اور اترپردیش فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی کے چیئرمین  رہے ۔ ان سب میں اُردو کہانیوں کا مجموعہ ’پکھیرو‘کیلئے ۱۹۹۳ء میں ساہتیہ اکادمی انعام خاص رہا ۔ قلم کی بدولت انہوں نے کئی بار یورپ ، اسکنڈینیوین اور پاکستان کا سفر کیا۔ سفرنامے لکھے جس میں پاکستان کا سفر نامہ ’زرد پتوں کی بہار‘ کافی مقبول ہوا ۔  
پِتا جی جہاں بھی رہے اُردو ادب کی خوشبو ان کے ساتھ ساتھ چلی ۔ انہیں نہ صرف ادب سے بلکہ ادیبوں سے بھی بے پناہ محبت رہی ۔ اُردو کے ساتھ ان کا ہندی سے بھی گہرا رشتہ رہا ۔ یہی وجہ ہے کہ ہندی کے ادیب بھی غریب خانے کی رونق بڑھاتے تھے ۔ آئے دن ادبی نشستیں ہوتی تھیں جن میں ہندی اُردو کہانی اور ان کے آپسی رشتوں کے ساتھ مل کر چلنے پر  مباحثے ہوتے تھے ۔ 
پِتا جی کے زمانے میں ہمارے گھر آنے والے ادیبوں ، شاعروں کی اور صحافیوں کی فہرست طویل ہے ۔ کچھ نام یاد آتے ہیں۔ فراق گورکھپوری، امرت لال ناگر ، یش پال ، خواجہ احمد عباس، رضیہ سجاد ظہیر ، سجاد ظہیر، ساحر لدھیانوی، اندیور ، کرشن چندر، راجندر  سنگھ بیدی،  جگن ناتھ آزاد، اُپیندر ناتھ اشک، علی عباس حسینی، احمد فراز، شہریار، شمس الرحمٰن فاروقی ، کے پی سکسینہ، ڈاکٹر بشیشور پردیپ ، پروفیسر گوپی چند نارنگ ، سلام صدیقی، عابد سہیل، ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد، اطہر نبی اورشکیل صدیقی وغیرہ۔  ان میں سے زیادہ تر اب اس دنیا سے رُخصت ہو چکے ہیں۔ ۱۹۹۳ء میں پِتاجی کو کڈنی کا کینسر ہو گیا ۔ گال بلاڈر میں پتھری اور دل کے تین والو بھی بلاک تھے ۔ گائوٹ کی پرانی تکلیف تو تھی ہی۔ ڈاکٹروں نے ڈھائی تین مہینے باقی بتائے تھے۔ لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری ۔ اور زندہ دلی کی مثال پیش کی ۔ چنانچہ ڈھائی تین مہینے کے بجائے ساڑھے تین سال گزر گئے ۔ آخری دنوں میں انٹرویو کیلئے آئے ایک صحافی نے جب پوچھا کہ ’’کیسی موت پسند کریں گے؟ ‘‘ ان کا جواب تھا ہارٹ فیل تاکہ اہل خانہ کو کسی طرح کی تکلیف نہ ہو۔ چنانچہ یہ آخری خواہش بھی پوری ہوئی ۔ 
 ریلوے کے کلیمس آفس میں تعینات پتاجی (رام لعل)کو ہرماہ ۲۷ ؍ سے ۲۸؍ کو تنخواہ ملتی تھی ۔ زیادہ تر پیسہ تو اُدھار میں آئے راشن اور گھر کے دیگر اخراجات کی ادائیگی میں ہی ختم ہوجاتا ، باقی پھر دودھ والا، اخبار اور ہم لوگوں کی فیس میں چلا جاتا تھا۔ پِتا جی مہینے میں پندرہ دن سرکاری ٹور پر رہتے تھے ۔ اسی دوران وہ ریل کے ڈِبّے یا ویٹنگ روم میں افسانے لکھتے رہے۔ شہر شہر جاکر اپنے ادبی دوستوں سے ملاقات بھی کرتے تھے ۔ اس ٹور پر آئے خرچ کی ادائیگی ٹریولنگ الائونس کی شکل میں مہینے میں کبھی بھی مل جاتی تھی۔ اس دن ہمارے گھر میں جلیبی آتی، در اصل یہ جلیبی ہی پہچان تھی کہ ٹریویلنگ الائونس مل گیا ہے ، دو چار دن بڑی موج مستی میںگزرتے ۔ کبھی سنیما تو کبھی چڑیا گھر کی سیر ۔ یہی دو جگہیں تھیں تفریح کی ۔ اس کے علاوہ ہمارے گھر میں جلیبی اس وقت کھائی جاتی تھی جب کسی رِسالے سے افسانہ کے عوض میں منی آرڈر آتا تھا ۔ پِتا جی کبھی دہلی گئے تو ’’شمع‘‘ گروپ والے دو تین افسانوں کیلئے ایڈوانس بھی دے دیتے تھے ۔ اس میں پِتا جی مستقل لکھا کرتے تھے ۔ ہندی کی ـ’’نہاریکا‘‘ اور ’’مایا ‘‘ کے علاوہ بھی کئی رسائل میں و اخباروں میں لکھتے تھے، جہاں سے چیک یا منی آرڈر کی شکل میں پیسہ آتا تھا ۔ چنانچہ ہمارے گھر مہینے میںکئی بار پیسہ آتا تھا ۔ پھر بھی گھر میں فقیری جیسے حالات ہمیشہ بنے رہتے تھے ۔ لیکن ہمیں کبھی شکایت نہیں رہی ۔ در اصل ہم بھائی بہنوں میں کے دماغ میں یہ اچھی طرح بیٹھ گیا تھا  کہ  فقیری قلمکار کی پہچان ہے۔ پِتا جی کی سیرو سیاحت کے تجربات سُن کر ہم لوگوں کا پیٹ بھر جاتا تھا جسے ہم لوگ اپنی دوستوں کی محفل میں قصےکہانیوں کے طور پر پیش کرتےتھے۔ ماں مجھ سے کہتی تھیں کچھ بھی بننا لیکن رائٹر ہرگز نہیں اور یہی ماں پتاجی کو کئی بار صبح صبح اُٹھا کر خوشی خوشی بتاتی تھیں کہ آج فلاں اخبارمیں تمہاری تحریر چھپی ہے ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK