اڈانی کے خلاف امریکہ میں ہونےوالی کارروائی کے بعد راہل گاندھی کا وزیراعظم مودی سے سوال پوچھنا بھی بی جے پی لیڈروں کو بر ا لگتا ہے۔
EPAPER
Updated: December 17, 2024, 4:55 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
اڈانی کے خلاف امریکہ میں ہونےوالی کارروائی کے بعد راہل گاندھی کا وزیراعظم مودی سے سوال پوچھنا بھی بی جے پی لیڈروں کو بر ا لگتا ہے۔
۱۹۸۰ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’دوستانہ‘ کا مشہور نغمہ ’بنے چاہے دشمن زمانہ ہمارا، سلامت رہے دوستانہ ہمارا‘ ان دنوں ملک کے سیاسی ماحول کی موزوں تفسیر پیش کر رہا ہے۔ اس فلم میں امیتابھ بچن، شترو گھن سنہا اور زینت امان نے اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔ امیتابھ اور شتروگھن سنہا مثالی قسم کے دوست ہوتے ہیں لیکن جیسا کہ بزرگوں نے کہا ہے کہ زر، زمین اور زن کا چکر دلوں میں کدورت پیدا کرتا ہے اور بیشتر شر و فساد ان کے سبب ہی پیدا ہوتے ہیں، فلم میں بھی زینت امان ان مثالی دوستوں کے درمیان دشمنی کا سبب بنتی ہیں۔ فلم کی کہانی کا اختتام چونکہ خیر پر ہونا تھا لہٰذا کہانی مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے ان بچھڑے دوستوں کو ایک بار پھر مرکز اتحاد پر لے آتی ہے۔ ان دنوں ملک میں جس مثالی دوستی کے چرچے ہو رہے ہیں اسے بھی زر اور زمین نے متنازع بنا دیا ہے لیکن یہ رشتہ ٔ رفاقت اس قدر محکم ہے کہ ہر طرح کے اعتراض اور الزام کو درکنا ر کر، یہ دوست اپنی دھن میں مگن ہیں۔
ملک کی سیاسی مسند کے سب سے اوپری درجے پر براجمان شخص اور ملک و بین الاقوامی سطح پر صنعت و تجارت کے زمرے میں سر فہرست بزنس مین کی مثالی دوستی کے سبب نہ صرف سیاسی اخلاقیات مسخ ہوتی نظر آرہی ہیں بلکہ عالمی سطح پر ملک کی ساکھ بھی داؤ پر لگ گئی ہے۔ ان دنوں ملک میں ایک طبقہ بڑے زور و شور سے یہ جتانے کی کوشش میں منہمک ہے کہ ملک و معاشرہ سے وابستہ تمام معاملات میں ’دیش سب سے اوپر ہے‘ اور کسی بھی صورت میں ملک کے وقار اور اس کی حرمت پر حرف نہیں آنا چاہئے۔ بلاشبہ ہر ذمہ دار شہری اس تصور کو نہ صرف تسلیم کرے گا بلکہ اسے عملی شکل دینے کی بھی کوشش کرے گالیکن اس تصور کی نام نہاد تشہیر کرنے والا طبقہ صرف اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں سے وابستہ مسائل اور معاملات کے ضمن ہی میں یہ نعرہ بلند کرتا ہے بقیہ تمام معاملات و مسائل پر لب کشائی کرنے سے قبل اس مصلحت کو پیش نظر رکھتا ہے جس کا مقصد دائیں بازو کی سیاست اور اس سیاست کے پروردہ ہر فرد و جماعت کا دفاع کرنا ہے۔ یہی کچھ صورتحال وزیراعظم اور گوتم اڈانی کی دوستی کے سبب ملک کی امیج کو پہنچنے والے نقصان کے سلسلے میں بھی نظر آتی ہے۔ اپوزیشن اور اس کی حمایت کرنے والے عناصر جہاں ایک طرف اس دوستی سے وابستہ سیاسی و تجارتی اغراض و مقاصد سے عوام کو روبروکرانے پر آمادہ ہیں وہی اقتدار نواز طبقہ اسے ملک اور عوام کو گمراہ کرنے کی سازش قرار دے رہا ہے۔ بی جے پی ترجمان سمبت پاترا تو اس سے بھی دو قدم آگے نکل گئے اور راہل گاندھی کو ملک کا غدار تک کہہ ڈالا۔
امریکی عدالت نے شمسی توانائی کےپروجیکٹ میں مبینہ رشوت ستانی کی بنا پر اڈانی اور ان کے بھتیجے ساگر اڈانی کے علاوہ دیگر تین افرادکے خلاف جو گرفتاری وارنٹ جاری کیا ہے، اس پر حکومت کی خاموشی یہ ثابت کرتی ہے کہ اقتدار کو یہ قطعی گوارا نہیں ہے کہ وہ اڈانی پر کوئی آنچ آنے دے۔ اس حوالے سے جو نام نہاد وطن دوست طبقہ اپوزیشن اور خصوصاً راہل گاندھی کو ہدف بنا رہا ہے اس سے بجا طور پر یہ پوچھا جانا چاہئے کہ اڈانی گروپ کی بدعنوانیوں کے خلاف امریکی عدالت کے وارنٹ اور اس سے قبل ہنڈن برگ کی تفتیشی رپورٹ سے کیا ملک کی ساکھ کو دھچکا نہیں لگا ہے؟’دیش سب سے اوپر‘ کا نعرہ بلند کرنے والے اس طبقے کو بھی بہ روئے انصاف، اقتدار سے یہ مطالبہ کرنا چاہئے کہ اڈانی گروپ کی بدعنوانیوں کی غیر جانبدارانہ تفتیش کرائی جائے اور اس تفتیش سے جو حقائق اجاگر ہوں، انھیں عوام کے روبرو پیش کیا جائے۔ لیکن مودی اور اڈانی کی مثالی دوستی کی مانند یہ امکان بھی بہت مثالی قسم کا ہے۔
اقتدار، اس امکان کو حتمی طور پر معدوم کر دینے کے در پے ہے۔ اس مقصد کی تکمیل کے ان سیاسی اقدار کو بھی بڑی ہٹ دھرمی کے ساتھ پامال کیا جارہا ہے جو جمہوری سیاسی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کے آغاز ہی سے اس موضوع پر اقتدار اور اپوزیشن کے درمیان ٹھنی ہوئی ہے۔ ادھر دو چار دنوں سے بعض مصلحتوں کے سبب اپوزیشن میں شامل بعض سیاسی پارٹیاں اس موضوع سے کنارہ کشی اختیار کر چکی ہیں لیکن راہل اور ان کی قیادت میں کانگریس اب بھی پارلیمنٹ میں بحث کرانے اور اڈانی سے متعلق بدعنوانی کے معاملات پر جے پی سیتشکیل دینے کے مطالبے پر قائم ہیں۔ اقتدار اور اس کی حلیف پارٹیاں اس تنازع کو امریکہ اور جارج سورس کی سازش قرار دے رہی ہیں جس کا مقصد ملک کی عظمت کو متاثر کرنا ہے۔ اس گروہ کا کہنا ہے کہ راہل اور ان کی حمایت کرنے والے دیگر سیاستداں ، بیرون ملک ہونے والی اس مبینہ سازش کے مہرے ہیں جو اس کے حوالے سے حکومت کو بیجا طور پر پریشان کر رہے ہیں ۔ اس معاملے میں ارباب اقتدار اس قدر غیظ میں ہیں کہ اپوزیشن خصوصاً راہل اور ان کے خاندان پر ذاتی تبصرے اور سطحی باتیں پارلیمنٹ میں متواتر کئے جارہے ہیں۔
اڈانی پر اقتدار کی مثالی کرم فرمائی پر بعض لوگ یہ بھی سوچتے ہیں کہ ایسی کیا وجہ ہے کہ ملک و بیرون ملک اس بزنس مین کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو اقتدار نہ صرف دانستہ فراموش کر رہا ہے بلکہ اڈانی کا دفاع بھی کیا جارہا ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے اب سے ۲۲؍ برس قبل کے ان حالات و حادثات کا جائزہ لینا ہوگا جن کے سبب یہ دوستی پروان چڑھی۔ ۲۰۰۲ ء کے گجرات فسادات نے وزیر اعلیٰ مودی کی امیج پر جو داغ لگایا تھا، اسے مٹانے میں جن عناصر نے ان کا ساتھ دیا تھا ان میں اڈانی کا رول بہت اہم تھا۔ اب عدالت عظمیٰ نے مودی کو اس معاملے میں کلین چٹ دے دی ہے لیکن ان فسادات نے ریاست میں لا اینڈ آرڈر کی خراب ترین اور تشویش ناک صورتحال کو اجاگر کردیا تھا اور بطور وزیر اعلیٰ مودی پر اس کی اخلاقی اور آئینی ذمہ داری عائد ہوتی تھی۔ ان فسادات کے حوالے سے گجرات حکومت کی فسطائیت پر بین الاقوامی سطح پر تنقید ہوئی۔ نظم و نسق کی اس ناکامی پر وائبرنٹ گجرات کے انعقاد سے پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ اس کوشش کے ذریعہ مودی اور ان کی صوبائی حکومت کو ترقی کے نئے اہداف سر کرنے کیلئے پرعزم سرکار کے طور پر مشتہر کیا گیا۔ اس وقت کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری کی قد آور شخصیات نے بھی مودی کو ہدف تنقید بنایاتھا لیکن اڈانی اور نرما گروپ کے چیئرمین کرسن پٹیل نے تمام اعتراضات کے باوجود۲۰۰۳ ء میں وائبرنٹ گجرات کے انعقادمیں اہم رول نبھایا تھا۔ جو مثالی دوستی ان دنوں سیاسی اور تجارتی گلیاروں میں موضوع بحث ہے اس کو محکم بنانے میں ان حالات نے اہم رول ادا کیا تھا۔
جس طرح زندگی کے دیگر معاملات میں تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی اسی طرح دوستی کی اس تالی کو پر اثر بنانے کیلئے فریقین متوازی طور پر سرگرم عمل ہیں۔ مودی کو ترقی کے علمبردار کی حیثیت عطا کرنے میں اڈانی نے صنعتی و تجارتی برادری کو لام بند کرنے کا جو اہم کام انجام دیا تھا اس کے عوض میں مودی نے وزیر اعظم بننے کے بعد ان کی ہر سطح اور ہر طرح سے مدد کی۔ اس مدد میں بعض دفعہ اصول اور ضابطوں میں تبدیلیاں بھی کی گئیں اور اکثر حکومتی رسوخ کے زور پر اڈانی گروپ کے فائدے کی راہ ہموار کی گئی۔ اس وقت ملک کے اہم ہوائی اڈوں، بندرگاہوں ، کوئلے کی کانیں، انفراسٹرکچر اور توانائی کے مختلف پروجیکٹوں پر اڈانی گروپ کا لیبل چسپاں نظر آئے گا۔ ۸۰ء کی دہائی میں شروع ہوا اڈانی کا تجارتی سفر اس وقت ترقی کے جس نشان پر پہنچ چکا ہے اس میں مودی کی دوستی کا بڑا ہاتھ ہے۔ اس دوستی نے صرف ملک ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی اڈانی کو فائدہ پہنچایا۔ اب امریکی عدالت کے ذریعہ وارنٹ جاری ہونے کے بعد بعض ممالک اپنے یہاں جاری اڈانی کے پروجیکٹوں کا از سر نو جائزہ لے رہے ہیں ۔ ان میں کینیا اور بنگلہ دیش سرفہرست ہیں۔
امریکی عدالت کا وارنٹ، ہنڈن برگ کی تفتیشی رپورٹ اور دیگر ملکوں کے ذریعہ اڈانی کے پروجیکٹوں کی منسوخی کیا ملک کے وقار کو متاثر نہیں کرتی؟ ہر معاملے میں دیش کو سب سے اوپر رکھنے کا نعرہ بلند کرنے والا گروہ آخر اس معاملے میں مصلحت پسند کیوں بنا ہوا ہے؟ اقتدار اعلیٰ کا بھی یہ اخلاقی فرض ہے کہ وہ ان معاملات پر دانستہ خاموشی اختیار کرنے کے بجائے قانون کی رو سے مناسب اور معقول کارروائی کریں تاکہ اپوزیشن کے ان سوالات کا تصفیہ ہو سکے جو گزشتہ تقریباً ایک سال سے سیاسی فضا میں گونج رہے ہیں۔