سوندلا، مہاراشٹر میں خواتین کی تکریم کیلئے پہل کی گئی ہے کہ اگر گاؤں کا کوئی باشندہ ماں بہن کی گالی دے گا تو اسے ۵۰۰؍ روپے جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔
EPAPER
Updated: March 23, 2025, 2:31 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
سوندلا، مہاراشٹر میں خواتین کی تکریم کیلئے پہل کی گئی ہے کہ اگر گاؤں کا کوئی باشندہ ماں بہن کی گالی دے گا تو اسے ۵۰۰؍ روپے جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔
مہاراشٹر کے ضلع احمد نگر کے ایک چھوٹے سے گاؤں سوندلا میں خواتین کی تکریم کیلئے ایک انوکھی پہل کی گئی ہے۔ گاؤں کے سرپنچ شرد آرگڑے کی سربراہی میں پنچایت نے فیصلہ کیا ہے کہ گاؤں کا کوئی بھی باشندہ اگر ماں، بہن کی گالی دے گا تو اسے ۵۰۰؍ روپے جرمانہ دینا ہوگا۔ نومبر ۲۰۲۴ء سے پنچایت کے اس فیصلے پر عمل ہو رہا ہے۔ میڈیا کے مطابق نومبر میں اس فیصلے کے نفاذ کے بعد کئی ایسے لوگوں سے جرمانہ وصول کیا گیا جو اشتعال اور غصے کی کیفیت میں گالی دینے سے خود کو نہ روک سکے۔ اس تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اب گاؤں میں گالم گلوچ والا ماحول کم نظر آتا ہے۔ گاؤں کے باشندوں نے اب اس معیوب عمل سے شعوری طور پر اجتناب کرنا شروع کر دیا ہے۔ اگر اس صورتحال کو دوام حاصل ہو جائے تو یقیناً یہاں ایسا ماحول تشکیل پائے گا جو آئندہ نسلوں کو تہذیب و شائستگی کے اس سانچے میں ڈھال سکتا ہے جس کی اس وقت اشد ضرورت ہے۔
سوندلا گاؤں کے باشندوں کا یہ اقدام خواتین کی عزت وتعظیم کے ان کے مخلصانہ جذبہ کو عیاں کرتا ہے۔ اس معاملے کو صرف خواتین کی عزت افزائی سے منسوب کرکے دیکھنے کے بجائے وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو بلا تردد یہ کہا جا سکتا ہے کہ معاشرہ کا مزاج کچھ ایسا ہو گیا ہے کہ گالی دینا اب معیوب فعل نہیں سمجھا رہا جیسا کہ اب سے نصف صدی قبل ہوتا تھا۔ اُس زمانے میں گالی دینا تو دور کی بات ہے، لوگ حفظ مراتب کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ زبان سے ایسے الفاظ بھی ادا کرنے سے گریز کرتے تھے جس سے کسی بڑے کی ہتک اور چھوٹے کی دل آزاری ہو۔ باہمی روابط میں شرافت اور شائستگی کا ہر لحظہ خیال کرنے والے لوگ بعض ایسے ضروری امور میں بھی رشتوں کی پاسداری کا لحاظ کرتے تھے جن امور سے گزرنا انسانی جبلت میں شامل ہے مگر سماجی حرمت اور انسانی شرافت اس کی پردہ داری کو واجب گردانتا تھا۔ اب صورتحال میں اس قدر تبدیلی آ چکی ہے کہ بنام جدت پسندی ان امور کے زبانی اور عملی اظہار میں کوئی قباحت نہیں محسوس کی جاتی۔ سماج میں جہاں ایک طرف ایسے جدت پسند لوگ ہیں وہیں دوسری جانب ایسے افراد بھی ہیں جو انسانی شرافت اور سماجی نظافت کی بقا کو ترجیح دیتے ہیں۔ سوندلا گاؤں کے عوام کو اس دوسرے گروہ میں رکھا جا سکتا ہے۔
اس وقت معاشرہ فکر و عمل کی سطح پر جس کیفیت سے دوچار ہے اس میں تربیت اور اصلاح کا عنصر روز بہ روز کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ معاشرہ میں گالی کے چلن کے حوالے سے ہی اگر صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو کئی ایسے حقائق سامنے آئیں گے جو عوام کے متضاد رویے کو ظاہر کرتے ہیں۔ سماج کا ایک طبقہ وہ ہے جو خود کو موڈرن ثابت کرنے کے چکر میں ان افکار وافعال کو دانستہ ترک کررہا ہے جوافکار و افعال مشرقی طرز حیات میں اساسی حیثیت کے حامل ہیں۔ قول و فعل کی سطح پر حفظ مراتب کی پاسداری اور زبان سے کوئی غیر شائستہ لفظ ادا نہ کرنا، معاشرتی آداب کے لازمی جزو ہوا کرتے تھے۔ لیکن اب ان اجزا کو اس نام نہاد جدید فکر نے مغلوب کر لیا ہے جس میں والدین اپنے بچوں کو گالی دینے سے روکنے کی کوشش تو کجا، انگریزی میں گالم گلوچ کو پسندیدہ نظروں سے دیکھتے ہیں۔ خو د کو موڈرن کہلانے کی دھن میں مگن ایسے والدین کی یہ اولادیں جب اس مرحلے پر بے روک ٹوک چھوڑ دی جاتی ہیں تو پھر وہ صرف انگریزی زبان تک ہی محدود نہیں رہتیں۔ اس مرحلے پر پہنچنے کے بعد ان نام نہاد موڈرن والدین کو اولاد کا یہ رویہ ناگوار گزرنے لگتا ہے اور پھر ان کی اصلاح کی تدابیر ناکام ثابت ہوتی ہیں۔ اس معاملے میں بھی بعض والدین ایسی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ ناگواری کی کیفیت ان پر اس وقت تک طاری نہیں ہوتی جب تک کہ وہ دہن اولاد سے نکلنے والی گالیوں کی زد پر خود نہیں آجاتے۔ سماج میں اگر چہ یہ عمومی صورتحال نہ ہو مگر اس کے اثرات کا دائرہ اتنا محدود بھی نہیں کہ اسے معمولی کہہ کر نظر انداز کر دیا جائے۔
سماج کا دوسرا طبقہ وہ ہے جو اپنے گرد و اطراف کے ماحول کو ایسی بدگوئی اور بیہودہ حرکتوں سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے جو ماحول کو پراگندہ اور انسان کو زندگی کے آداب سے بیگانہ بناتی ہیں۔ اس طبقہ کے افراد بچوں اور جوانوں کی تربیت اور اصلاح کا کام ایک واجبی ذمہ داری سمجھ کر کرتے ہیں۔ عددی سطح پر اس طبقہ کا دائرہ محدود ہوتا جارہا ہے لیکن غنیمت یہ ہے کہ ابھی تک اس کے آثار مکمل طور پرمعدوم نہیں ہوئے ہیں۔ فی زمانہ انسانی اوصاف و خصائل میں منفی عناصر پر قدغن لگانے میں اس طبقہ کی کاوشوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب نام نہاد موڈرن افراد ایسی کاوشوں کو دقیانوسی قرار دے کر ان کا مضحکہ اڑاتے ہیں۔ بچوں کی تربیت اور جوانوں کو آداب زیست کا پابند بنانے میں ان طبقات کا متضاد رویہ اکثر بڑے مسائل پیدا کردیتا ہے۔ ان مسائل کا اگر بروقت خاطر خواہ حل نہ تلاش کیا جائے تو اقدار حیات کا تحفظ معرض خطر میں پڑ جاتا ہے۔ اس وقت انسانی سماج میں یاوہ گوئی اور بیہودہ حرکتوں کی افراط کا ایک سبب یہی متضاد انسانی رویہ ہے۔
گالی میں جو لفظیات استعمال کی جاتی ہیں ان سے انسانی رشتوں کی بے حرمتی تو ہوتی ہی ہے ساتھ ہی انسانی افکار پرایسے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جوانھیں آلودہ بناتے ہیں۔ اس کا بدترین اثر کم عمر بچوں اور نوعمروں پر پڑتا ہے۔ ان لفظیات کا بار بار ان کے پردہ ٔ سماعت سے ٹکرانا انھیں اس تجسس سے دوچار کرتا ہے جس تجسس کی تسکین کیلئے انھیں مخرب اخلاق افعال کی عادت پڑ سکتی ہے۔ کم عمری میں اس راستے کاسفر ان کی زندگی کو ایسی نفسیاتی پیچیدگی میں مبتلا کر دیتا ہے کہ پھر تمام عمر وہ ایک نامعلوم اضطراب اورافسردگی کی کیفیت سے دوچار رہتے ہیں۔ نوعمروں کو اس کیفیت سے محفوظ رکھنے کیلئے ان کے گرد و اطراف سے ایسی تمام کثافتوں کو ختم کرنا ضروری ہے جو بیہودگی اور ناشائستگی کے عنصر کو تقویت عطا کر سکتی ہیں۔ گالی دینا بھی ایسی ہی ایک کثافت ہے جومعاشرہ کو پراگندہ بناتی ہے۔
معاشرہ کو یاوہ گوئی سے محفوظ رکھنے کی شعوری کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوشش میں سینئر افراد فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں مگر افسوس کہ اس طبقہ کے بیشتر افراد سماج کے تئیں حساس نظر آتے ہیں نہ اپنے گھر و خاندان کو نیک خصائل اور اوصاف کا حامل بنانے میں کوئی کار آمد کوشش کر رہے ہیں۔ جدید تکنیکی آلات میں یہ طبقہ اس قدر منہمک ہے کہ اسے اب ان باتوں میں بھی لطف آنے لگا ہے جن باتوں کو کل تک معیوب سمجھا جاتا تھا۔ اس طبقہ میں ایک قسم ان نام نہاد بزرگوں کی بھی ہے جو گالی دینے یا اس نوعیت کی دیگر بیہودہ باتوں سے حظ اٹھاتے ہیں۔ ایسے ماحول میں سوندلا کے باشندوں کا اقدام لائق تحسین ہے۔
انسانی اخلاقیات میں صالح عناصر کی کمی کی وجہ سے معاشرہ میں جو خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں ان میں ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ ان خرابیوں کو خرابی ہی نہ سمجھا جائے جو انسانی عادات و اطوار کو آلودہ بناتی ہیں۔ گالی کے معاملے میں عموماً ایسا ہی انسانی رویہ نظر آتا ہے۔ اس فعل کو ایک معمولی فعل سمجھ کر دانستہ نظر انداز کر دینا یا پھر خود کو موڈرن ظاہر کرنے کی خاطراسی خرابی کو خرابی ہی نہ سمجھنا، سماج میں فکرو عمل کی سطح پر کثافت اور پراگندگی میں اضافہ کا سبب ہے۔ ایسا صرف گھروں میں نہیں بلکہ ان مراکز اور ایوانوں میں بھی گالی گلوچ کو معمولی بات کہہ کر ٹال دینے والا رویہ عام ہو چلا ہے جن پر انسان اور سماج کی بہتری اور بہبود کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ایسی بیہودہ باتوں کو سماج میں مقبول بنانے والا انسانی رویہ آئندہ نسلوں کو مہذب اور شائستہ بنانے میں کیا کردار ادا کر رہا ہے اس پر غور وقت کا تقاضا ہے۔