اے آئی پر عالمی سیاست: یہ ٹیکنالوجی دنیا کو تقسیم کرتے ہوئے نئی جغرافیائی سیاست کا محاذ بن گئی ہے۔ چین اور امریکہ سب سے زیادہ طاقتور الگورتھم کی دوڑ جیتنا چاہتے ہیں۔ یہ دوڑ انتہائی مضبوط مشینوں کی ایجاد کا باعث بن سکتی ہے، جو نادانستہ طور پر انسان کے قابو سے باہر ہو سکتی ہیں۔
مضمون نگار سندیپ واسلیکر معروف طبعیات داں جیفری ہنٹن کے ساتھ جنہیں ’گاڈ فادر آف اے آئی‘ کہا جاتا ہے۔ تصویر: آئی این این
اسکائپ کے شریک بانی جان ٹالن سے میری واقفیت ایک دہائی پرانی ہے۔ ہم پہلی بار استونیا کے دارالحکومت تالن میں رات کے کھانے پر ملے تھے اور پوری شام انسانیت کے مستقبل کے بارے میں بات چیت کی تھی۔ ہم بعض اوقات ایسے رجحانات کے بارے میں ای میلز کے ذریعے تبادلۂ خیال کرتے رہتے ہیں جن کا اثر دنیا پر پڑ سکتا ہے۔ ٹالن نے اپنی ویب سائٹ پر ایک دلچسپ ویڈیو جاری کیا ہے۔ یہ نیو یارک کے گرینڈ سینٹرل اسٹیشن پر ایک ایسے دور میں متحرک لوگوں کو دکھاتا ہے جب اے آئی (آرٹی فیشیل انٹیلی جنس، مصنوعی ذہانت) انسانوں سے برتر ہے۔ اے آئی کی نظر میں انسان سست رفتاری سے حرکت کرتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے ہمارے لئے کچھوا سست رفتار ہے۔ اے آئی سوچے گا کہ ہم کچھوے ہیں۔
اے آئی تبدیلی کی ٹیکنالوجی ہے۔ یہ طبی جدت کیلئے پروٹین اسٹرکچرس اور زلزلوں کی پیش گوئی کر سکتا ہے۔ اسے گھنے جنگل میں معدومیت کا شکار جانوروں کو ٹریک کرنے اور زراعت، صنعت اور بینکوں کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ پیچیدہ سافٹ ویئر کوڈ منٹوں میں لکھ سکتا ہے جسے لکھنے میں ایک ماہر سافٹ ویئر انجینئر کو مہینوں درکار ہوتے ہیں۔ اے آئی موسمی تبدیلیوں اور وبائی امراض کی پیش گوئی کرنے میں مفید ہے۔ یہ نئی دوائیں بھی ایجاد کر سکتا ہے۔اے آئی کے ایک خطرناک پہلو نے سائنسدانوں کو پریشان کررکھا ہے۔ مَیں نے ٹورنٹو کے حالیہ دورے کے دوران جیفری ہنٹن سے ملاقات کی۔ واضح رہے کہ انہیں اے آئی کا ’’گاڈ فادر‘‘ کہا جاتا ہے۔ انہیں دسمبر ۲۰۲۴ء میں فزکس کا نوبیل انعام تفویض کیا گیا تھا۔ جیفری ہنٹن کو خوف ہے کہ مستقبل میں کسی وقت اے آئی انسانی کنٹرول سے باہر ہو جائے گا۔ مگر یہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے کہ اس کا انسانوں پر کیا اثر پڑے گا۔ یہ ہماری نسلوں کے معدوم ہونے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
دنیا کے بیشتر پالیسی ساز، سائنسدانوں کے انتباہات کو نظر انداز کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر ان کے پاس وسائل ہیں تو وہ ان کے ذریعے دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جن ممالک کے پاس اے آئی نہیں ہے، وہ اس تک رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اپنی صدارت کے آخری ہفتے میں امریکی صدر جو بائیڈن نے کئی ممالک میں جدید کمپیوٹر چپس کی برآمد پر پابندی لگا دی۔ یہی وجہ ہے کہ چین چپس اور سپر کمپیوٹرز کی تیاری میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ روس اپنے محدود وسائل سے فوجی ایپس کو اے آئی سے لیس کرنے پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔ روس کو عالمی سطح پر الگ تھلگ کرنے کی پالیسیاں اے آئی سے چلنے والے میزائلوں کے ظہور کا باعث بن سکتی ہیں جو ہمارے تصور سے بھی زیادہ خطرناک ہو سکتے ہیں۔
جبکہ بڑی طاقتیں اے آئی کی دوڑ کو مزید رفتار دے رہی ہیں،سائنسداں ان کی طاقت کو کنٹرول میں رکھنے کیلئے حل تلاش کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ تجویز کرتے ہیں کہ ہمیں ان مشینوں کی کمپیوٹنگ طاقت اور رفتار کو محدود کرنا چاہئے۔ اس سے ٹیکنالوجی کو انسانی کنٹرول میں رکھنے میں مدد ملے گی لیکن ایسی حدود پر اتفاق کیلئے عالمی تعاون کی ضرورت ہوگی۔
اے آئی دنیا کو تقسیم کرتے ہوئے نئی جغرافیائی سیاست کا محاذ بن گیا ہے۔ چین اور امریکہ سب سے زیادہ طاقتور الگورتھم کی دوڑ جیتنا چاہتے ہیں۔ یہ دوڑ انتہائی مضبوط مشینوں کی ایجاد کا باعث بن سکتی ہے، جو نادانستہ طور پر انسان کے قابو سے باہر ہو سکتی ہیں۔ ستمبر ۲۰۲۴ء میں امریکہ، برطانیہ، اور یورپی یونین نے آزادی، جمہوریت، اور ایتھیکل اے آئی کے استعمال کے تحفظ کیلئے قانونی طور پر پابند کنونشن پر دستخط کئے لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ اس میں اے آئی کی طاقت اور رفتار کو منظم کرنے کے بارے میں کوئی اقدام نہیں کہا گیا۔ ہندوستان اے آئی پر گلوبل پارٹنرشپ کے فریم ورک کی حدود میں اے آئی گورننس کیلئے کوششوں کی قیادت کررہا ہے۔ اس نے قومی ڈیٹا سیٹس کی شمولیت، رسائی اور تحفظ کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہے۔ جنوبی ممالک ٹیکنالوجی اور بنیادی ڈھانچے کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں۔ ان کا زیادہ انحصارکلاؤڈ خدمات، چپس اور بڑی امریکی کمپنیوں کی جانب سے فراہم کردہ اصل تحقیق پر ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اخلاقیات (ایتھکس) کا تصور ہر ملک میں مختلف ہے۔اہم بات یہ ہے کہ ہر ملک ’اے آئی ورلڈ آرڈر‘ کی تشکیل میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب مالی ادارے بنائے گئے تو امریکہ اور یورپ نے قواعد لکھے۔ جب جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) پر بات چیت ہوئی تو بڑے پانچ ممالک اس کے نتائج پر حاوی رہے مگر آج ہر ملک اے آئی انقلاب کا حصہ بننا چاہتا ہے۔
اے آئی کی منقسم کائنات میں، چین اور امریکہ قوانین کا حکم دے سکتے ہیں۔ بہت سے ممالک دو طرفہ یا علاقائی معاہدوں پر دستخط کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں صرف بات چیت اور معلومات کے تبادلے کو فروغ دینے سے متعلق ہیں۔ ان میں لازمی معاہدے شامل نہیں ہیں۔ روس سے تنازع کے سبب یورپ اس کے ساتھ متحد نہیں ہوسکتا۔ ہندوستان، برازیل، جنوبی افریقہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اردن، ترکی اور انڈونیشیا جیسے ممالک کا اتحاد عالمی طاقتوں کے درمیان تقسیم کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس قسم کے اتحاد کو وسیع النظر قیادت کی ضرورت ہوگی۔ اسے ایسا ایجنڈا طے کرنے کی ضرورت ہوگی جو تکنیکی شمولیت اور ڈیٹا کی خود مختاری کے خدشات کو دور کرنے کے ساتھ ایسے قوانین بنائے جو انسانیت کو درپیش خطرات کو روک سکیں۔
اہم سوال یہ ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ اے آئی انسانیت کو بلند کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو بے مثال ہے لیکن اس سے خطرات بھی ہیں۔ کیا اے آئی دنیا کو متحد کرے گا یا اسے تقسیم کردے گا؟ کیا ممالک اس بات کو یقینی بنانے کیلئے دانشمندی کا مظاہرہ کریں گے کہ اے آئی اپنی تباہی کی طاقت کے بجائے بنی نوع انسان کی ترقی کے ایک آلے کے طور پر کام کرے؟
(سندیپ واسلیکر، اسٹریٹجک فورسائٹ گروپ کے صدر ہیں، جو ایک بین الاقوامی تھنک ٹینک ہے۔ آپ ’’اے ورلڈ وِدآؤٹ وار‘‘ کے مصنف بھی ہیں۔)