• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

امن کا درس دینے والا امریکہ بدامنی کے حصار میں قید

Updated: October 06, 2024, 6:39 PM IST | jamal rizvi | Mumbai

امریکہ میں اسلحہ رکھنا عام بات ہے لیکن اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلح تشدد کی وجہ سے ہر ۱۱؍ منٹ میں ایک انسانی جان ضائع ہورہی ہے۔

Donald Trump. Photo: INN.
ڈونالڈ ٹرمپ۔ تصویر: آئی این این۔

امریکہ کے صدارتی انتخاب میں کامیابی کیلئے جی توڑمحنت کر رہے رپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ انتخابی مہم میں متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کا ہدف امریکہ کو دوبارہ محفوظ اور عظیم بنانا ہے۔ ٹرمپ کا یہ انتخابی نعرہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ عالمی سطح پر امریکہ کی عظمت کا جو تصور قائم ہو گیا تھا، وہ اب رفتہ رفتہ دھندلا پڑ رہا ہے۔ دنیا کے وہ ممالک جو اپنے ملک کے ہر معاملے اور مسئلے میں امریکہ کی مرضی و خواہش کے مطابق پالیسیاں بناتے رہے ہیں وہ بھی اب امریکہ کی عظمت کے اس مصنوعی تصور کی حقیقت سے آگاہ ہو چکے ہیں۔ خود امریکہ کے شہریوں میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اپنے ملک میں سماجی اور معاشی سطح پر پیدا ہونے والے نئے مسائل سے گھرانے لگے ہیں اور اس گھبراہٹ میں انھیں سہارا دینے کیلئے جو مضبوط قیادت درکار ہے وہ بھی انھیں میسر نہیں ۔ امریکی اقتدار اپنے ملک کی حدود سے باہر جتنا طاقتور نظر آتا ہے اندرون ملک اس کی یہ طاقت نظم و نسق کو برقرار رکھنے میں بہت کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ ٹرمپ کی انتخابی مہم کا نعرہ بھی اس امر کی وضاحت کرتا ہے کہ نہ صرف امریکہ کی عظمت کا طلسم ٹوٹ رہا ہے بلکہ وہ اپنے شہریوں کے تحفظمیں بھی کمزور ہوتا جارہا ہے۔ 
ٹرمپ کے نعرے کو صرف انتخابی حکمت عملی پر محمول کر دینا عقلمندی نہیں ہوگی۔ اس نعرے میں صداقت اگر صد فیصد نہ سہی تو بھی اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ امریکی معاشرہ دن بہ دن بدامنی کے دام میں الجھتا جا رہا ہے۔ یہ بدامنی کئی سطح پر رونما ہو رہی ہے۔ اس کے سبب معاشرتی سطح پر نہ صرف یہ کہ تشدد میں اضافہ ہوا ہے بلکہ معاشی اعتبار سے بھی امریکی عوام ایسے پیچیدہ مسائل سے گھرتے جارہے ہیں جو اُن کے معیار زندگی کو براہ راست متاثر کر رہے ہیں۔ اگست ۲۰۲۴ء کے ایک سروے میں امریکی عوام کے نزدیک ملک میں برھتی مہنگائی اور افراط زر کے سبب پیدا ہونے والے مسائل کی سنگینی عام شہری کیلئے پریشانی کا سبب بن گئی ہے۔ اس سروے میں شامل امریکیوں نے یہ بھی کہا کہ اس پریشانی کا مؤثر حل تلاش کرنے میں حکومت ناکام ہوتی نظر آرہی ہے۔ امریکیوں کی بڑی تعداد یہ مانتی ہے کہ موثر قیادت کے فقدان نے نئے سماجی اور معاشی مسائل پیدا کر دئیے ہیں۔ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں انہی باتوں کا حوالہ دیتے ہوئے ملک کو دوبارہ محفوظ اور عظیم بنانے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں ۔ 
امریکی قیادت ملک میں امن و آشتی کے دعوے کرتی رہتی ہے اور اس کیلئے ان سرکاری اعداد و شمار کو پیش کرتی ہے جس کے مطابق ۲۰۲۰ء کے بعد ملک میں جرائم کی شرح میں کمی آئی ہے۔ حالانکہ غیرسرکاری سروے اور جائزے اس دعوے کو حتمی طور پر قبول نہیں کرتے۔ یہ غیر سرکاری سروے جرائم میں کمی کو تسلیم تو کرتے ہیں لیکن اس سلسلے میں مکمل طور پر سرکاری دعوؤں سے اتفاق نہیں کرتے۔ امریکہ میں بڑھتی بدامنی کے اسباب کو سمجھنے کیلئے ان حالات پر بھی نظر ہونی چاہئے جو کووڈ کی وجہ سے اس ملک میں پیدا ہوئے۔ دنیا کے جن ملکوں میں کووڈ کی وبا نے وسیع پیمانے پر عوامی زندگی کو متاثر کیا تھا، ان میں امریکہ بھی شامل ہے۔ اس وبا پر قابو پانے اور عوامی زندگی کو پٹری پر لانے میں بائیڈن حکومت کی بعض پالیسیاں بہت مددگار ثابت ہوئیں لیکن اس کے باوجود عوام کا بڑا طبقہ وبا کے بعدپیدا ہونے والے حالات سےجوجھ رہا ہے۔ ان حالات سے متاثر عوام نے بعض ان تدابیر پر عمل کرنے کو معیوب نہیں سمجھا جو قانون کی نظر میں بد امنی کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ 
امریکی معاشرہ میں مسلح تشدد کے واقعات آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں ۔ ملک میں مسلح تشدد کے سبب ہر ۱۱؍ منٹ میں ایک موت ہوتی ہے۔ امریکہ میں اپنی حفاظت کیلئے اسلحہ رکھنا عام بات ہے لیکن اکثر یہ خو د حفاظتی بندوبست دوسروں کیلئے وبال جان بن جاتا ہے۔ اس ملک میں مسلح تشدد کے سبب ہر سال تقریباً ۴؍ سو افراد ہلاک ہوتے ہیں۔ امن و آشتی کی عالمی وکالت میں پیش پیش رہنے والے ملک کے یہ اندرونی حالات اس کی امن پسندی کے دعوے کو کمزور بناتے ہیں ۔ اس کے علاوہ امریکہ میں گھریلو تشدد کی شرح میں بھی گزشتہ کچھ برسوں کے دوران اضافہ ہوا ہے۔ اس ملک میں خاندانی نظام کا وہ تصور نہیں ہے جو افراد خاندان کے درمیان خلوص و ایثار کو پروان چڑھاتا ہو۔ امریکی عوام چونکہ بنیادی طور پر مادیت پرستی میں یقین رکھتے ہیں لہٰذا انسانی رشتوں میں محبت اور اتحاد کی پائیداری کا رجحان مفقود ہے۔ یہ فقدان گھریلو تشدد کا باعث ہوتا ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں کے دوران بڑھتی مہنگائی اور تعیش پسندی کے مابین تصادم کی سی کیفیت نے امریکی معاشرہ میں گھریلو تشدد کا دائرہ وسیع کردیا ہے۔ 
امریکی سماج اس وقت فکر و عمل کی سطح پر تذبدب کی کیفیت میں مبتلا نظر آتا ہے۔ اس کے روبرو کوئی ایسی واضح شاہراہ نہیں ہے جس پر آگے بڑھتے ہوئے وہ اپنی عالمی شہرت اور شناخت کو اسی طور سے برقرار رکھ سکے جو کچھ دہائیوں قبل اسے حاصل تھی۔ عالمی سپرپاور کے اس خود زائیدہ تصور کی قلعی بڑی حد تک کھل گئی ہے۔ امریکہ کو اب سے قبل آزاد خیالی، شخصی آزادی اور حقوق انسانی کے معاملے میں جو نمایاں حیثیت حاصل تھی اس پر بھی اب زوال کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ امریکی معاشرہ میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جو روایت پرستی میں یقین رکھتے ہیں۔ ان کے مقابلے آزاد خیال اور روادار امریکیوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ امریکہ میں روایت پرستوں کی بڑھتی تعداد اس ملک میں ان نسلی اور علاقائی مسائل کو دوبارہ سر اٹھانے کا موقع دے سکتی ہے جن پر بڑی مشکل سے قابو پایا گیا ہے۔ 
اس کے علاوہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کے سبب عالمی سطح پر جو مسائل پیدا ہوئے ہیں وہ بھی امریکی عوام کو دو خانوں میں تقسیم کرنے کا باعث ہوئے۔ خصوصی طور سے مشرق وسطیٰ کے سلسلے میں امریکی پالیسی کا دوغلاپن داخلی سطح پر نظم و نسق کے ایسے مسائل پیدا کر رہا ہے جن کا تصفیہ کرنے کیلئے اقتدار کو ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑ رہا ہے۔ ہتھیاروں کی تجارت سے معاشی استحکام اور تمول کو پائیدار بنانے کا خواہاں یہ ملک سماجی انتشار کی ایسی کیفیت میں مبتلا ہوتا جارہا ہے جس کے سبب بدامنی میں اضافہ کوئی حیرت کی بات نہیں۔ امریکی عوام کا ایک طبقہ حکومت کی اسی پالیسی سے سخت نالاں ہے۔ امریکہ نے اسرائیل کی حمایت میں ان تمام اصولوں اور ضابطوں کی واضح خلاف ورزی کی ہے جس کی بنا پر وہ دوسرے ممالک کو انسانیت کے تحفظ کے عنوان سے ہدف بناتا رہا ہے۔ امریکی اقتدار دوسرے ملکوں میں انسانی قدروں کے تحفظ کیلئے جس قدر فکر مندی ظاہر کرتا ہے اگر اپنے ملک کے متعلق بھی یہی رویہ اختیار کر لے تو امریکہ میں تیزی سے پھیل رہی اس بدامنی پر کسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے جس کی بنا پر ٹرمپ ملک کو دوبارہ محفوظ اور عظیم بنانے کی بات کر رہے ہیں ۔ 
امریکہ میں پھیل رہی مبینہ بدامنی پر قابو پانے کے حوالے سے ٹرمپ کا نعرہ اس موضوع کا سب سے دلچسپ اور حیرت زدہ کر دینے والا پہلو ہے۔ ٹرمپ جس طرز کی سیاست میں یقین رکھتے ہیں اس سے بیشتر لوگ واقف ہیں۔ دائیں بازو کی سیاسی پارٹی کے رکن ہونے کی حیثیت سے ان کے سیاسی و سماجی افکار کی نوعیت کیا ہوگی، اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ہے۔ صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران اب تک دو بارٹرمپ پر حملے ہو چکے ہیں جو ملک میں پھیلی بدامنی کو نمایاں کرتے ہیں۔ یہ حملے کسی حد تک ٹرمپ کو عوامی حمایت بھی فراہم کر سکتے ہیں۔ اس ضمن میں اس امکان کو یکسر خارج نہیں کیا جا سکتا کہ کملا ہیرس پر سیاسی سبقت حاصل کرنے کی غرض سے ایک حربہ کے طور پر ان حملوں کی منصوبہ بند ی کی گئی ہو اور خود ٹرمپ بھی اس منصوبہ کا حصہ رہے ہوں۔ اگر ایسا ہے تو یہ امریکی اقتدار کیلئے اور بھی شرم کی بات ہے کہ دوسرے ملکوں میں نظم و نسق اور امن آشتی کی وکالت کرنے والا ملک اس معاملے میں خود اس حد تک کمزور ہے۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ امریکہ کو دوبارہ محفوظ اور عظیم بنانے کا عزم ٹرمپ کا انتخابی جملہ ہے تو بھی اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ امریکی معاشرہ پر بدامنی کا سایہبڑھتا جارہا ہےایسے میں ضروری ہے کہ وہ دوسرے ملکوں میں بیجا مداخلت کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکنے کی جرأت کرے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK