زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی ہوڑ میں ملازمین کو گوشت پوست کا انسان سمجھنے کے بجائے ایسی مشین سمجھا جانے لگا ہے جس کا کام ہر وقت چلتے رہنا ہے۔
EPAPER
Updated: April 13, 2025, 2:25 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی ہوڑ میں ملازمین کو گوشت پوست کا انسان سمجھنے کے بجائے ایسی مشین سمجھا جانے لگا ہے جس کا کام ہر وقت چلتے رہنا ہے۔
گزشتہ دنوں کیرالا کے کوچی شہر کا ایک ویڈیو وائرل ہوا۔ اس ویڈیو میں مبینہ طور پر ایک مارکیٹنگ کمپنی کے ملازمین کے ذریعہ ٹارگیٹ پورا نہ کرپانے کی پاداش میں ان کے گلے میں پٹا باندھ کر گھمایا گیا۔ بعض میڈیا ذرائع میں اس ویڈیو کی جو تفصیل بیان کی گئی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ ارباب اختیار نے صرف اتنے پر ہی اکتفا نہیں کی بلکہ ان ملازمین کو فرش پر پڑے سڑے گلے پھل کھانے پر بھی مجبور کیا۔ اس وائرل ویڈیو کے متعلق یہ بھی کہا گیا کہ کمپنی کے ملازمین نے باہمی رنجش کے سبب دانستہ طور پر یہ ویڈیو بنایا اور اسے سوشل میڈیا پر وائرل کیا تاکہ مخالفین کے خلاف عوام کے درمیان نفرت اور غصہ بھڑکایا جا سکے۔ اس ویڈیو کی حقیقت جاننے کیلئے اسٹیٹ لیبر ڈپارٹمنٹ نے تفتیش کا حکم دیا ہے۔ اس ویڈیو کی حقیقت جو بھی ہو، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ملازمت پیشہ افراد کا مختلف طریقوں سے استحصال کارپوریٹ دنیا کی تلخ سچائی ہے۔ کارپوریٹ کی مسابقتی دنیا میں زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی جو ہوڑ لگی ہے اس میں ملازمین کو گوشت پوست کا انسان سمجھنے کی بجائے ایسی مشین سمجھا جانے لگا ہے جس کا کام ہر وقت چلتے رہنا ہے۔ مختلف کمپنیوں اور تجارتی اداروں کے اعلیٰ حکام ملازمین پر مختلف حیلوں سے دھونس جماتے رہتے ہیں جس کا مقصد ملازمین کو ہمہ وقت ایک ایسی کیفیت میں مبتلا رکھنا ہے جو ملازمت کی بقا کیلئے اپنے باس کے ہراحکام اور فرمان کی تعمیل پرآمادہ رہے۔
ملازمت پیشہ افراد کے ساتھ ارباب اختیار کا ایسا ہتک آمیز برتاؤ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس وقت ملک میں روزگار کی صورتحال اس قدر خراب ہو گئی ہے کہ ایک انسان اپنے جیسے دوسرے انسان کے انسانیت سوز برتاؤ کے خلاف کچھ بولنے کی ہمت اسلئے نہیں جٹا پا رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی تعزیر کی صورت میں اسے نوکری سے ہاتھ دھونا پڑ جائے۔ اپنی اور اپنے متعلقین کی مالی ضرورتوں کی تکمیل کی خاطر اسے جانور وں کی مانند گلے میں پٹا باندھ کرگھٹنوں کے بل چلنا منظور ہے۔ انسانیت کو شرمسار کر دینے والے ایسے عمل سے گزرتے وقت وہ جن احساسات سے دوچار ہوتا ہے وہ اس کی شخصیت کو درد و کرب کا محور بنا دیتے ہیں لیکن یہ درد و کرب اسے اس ذلت اور رسوائی کے مقابلے کم معلوم ہوتا ہے جو نوکری سے برطرف کر دئیے جانے پر اس کا مقدر بن جائے گی۔ ایسا بھی نہیں کہ جو ملازمت پیشہ افراد ایسے کر ب ناک تجربات سے گزرتے ہیں وہ بھاری بھرکم تنخواہ پاتے ہوں یا انھیں آسائش اور آسودگی کے وہ تمام اسباب مہیا ہوں جن سے محظوظ ہونے پرذلت اور خواری کا احساس ان کے دل سے جاتا رہے۔ قلیل تنخواہ پر جی توڑ محنت کرنے والے ملازمین کے ساتھ اعلیٰ حکام کا رویہ اب اس مرحلے پر آ پہنچا ہے کہ حکام انھیں واقعی جانور سمجھنے لگے ہیں، جس کا ایک ثبوت وائرل ہونے والا ویڈیو ہے۔
اقوام متحدہ کے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق ملازمت کی جگہ پر ملازمین کے ساتھ نفسیاتی، جسمانی اور جنسی زیادتی کے معاملات نہ صرف ان کی مہارت اور صلاحیت پر اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ اس کے سبب ان کی گھریلو اور سماجی زندگی بھی مختلف مسائل سے دوچار ہوتی ہے۔ ان میں سب سے بڑامسئلہ ان کے اندر پیدا ہونے والا وہ احساس بیگانگی اورمایوسی ہے جو ان کی شخصیت کو درد و کرب کا محور بنا دیتا ہے۔ اس آرگنائزیشن کی ایک سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تقریباً ۱۸؍ فیصد ملازمین نفسیاتی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔ ملازمت کی جگہ پر دیگر ملازمین کے سامنے ان کے ساتھ ایسا ہتک آمیز برتاؤ کیا جاتا ہے جس کے سبب وہ دائمی طور پر نفسیاتی کجی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ صورتحال ان کی پیشہ ورانہ صلاحیت پر بھی اثر انداز ہوتی ہے اور رفتہ رفتہ انھیں یہ لگنے لگتا ہے کہ واقعی وہ کسی لائق نہیں ہیں۔
اعلیٰ حکام کے ذریعہ ملازمین کے ساتھ نفسیاتی زیادتی کے علاوہ انھیں جسمانی اور جنسی طور پر بھی ہراساں کیا جاتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ایسے معاملات میں ۶۰؍فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ملازمین کو ہراساں کرنے کیلئے ان پر اضافی ورک لوڈ لاد دیا جاتا ہے جسے پورا کرنے کیلئے وہ ڈیوٹی کے متعینہ اوقات سے زیادہ کام کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ یہ طرز عمل اس کی گھریلو اور سماجی زندگی کو متاثر کرتا ہے۔ اضافہ ورک لوڈ کے سبب وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ خاطر خواہ وقت گزارنے سے قاصر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی سماجی زندگی کا دائرہ محدود سے محدود تر ہوتا جاتا ہے اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ وہ مستقل طور پر احساس بیگانگی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس مرحلے پر پہنچنے کے بعد اضطراب اور افسردگی اس کی شخصیت کا جزو بن جاتے ہیں ۔ اضافی ورک لوڈ کے علاوہ افسران، ملازمین کو ہراساں کرنے کیلئے ان کی کارکردگی کا تجزیہ غیر ضروری باریک بینی کے ساتھ کرتے ہیں اور پھر اس میں مین میخ نکال کر ان کی تضحیک کرتے ہیں۔ افسران کے اس رویہ کا ہدف اکثر وہ ملازمین ہوتے ہیں جو ان کے تحکمانہ برتاؤ سے عدم اتفاق ظاہر کرتے ہیں، لیکن ادھر دس برسوں کے دوران بے روزگاری جس نشان تک پہنچ چکی ہے اس کے سبب ملازمین کا یہ حوصلہ بھی پست ہوگیا ہے اور وہ ملازمت کی بقا کیلئے ہر طرح کی زیادتی کو برداشت کرنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ کیرالا کا ویڈیو اس کا واضح ثبوت ہے کہ اگر افسران چاہیں تو اپنے ماتحت ملازمین کے ساتھ جانوروں جیسا برتاؤ کرنے سے بھی گریز نہ کریں۔
کورونا کی وبا کے بعد ایک نئی صورتحال پیدا ہوگئی ہے کہ اب ملازمین کو صرف ملازمت کی جگہ پر ہی تنگ نہیں کیا جاتا بلکہ اب یہ عمل آن لائن بھی انجام دیا جاتا ہے۔ اس صورتحال نے ملازمین سے ان کی چھٹی کے دن کی راحت کو بھی تلف کر دیا ہے۔ ’ورک فرام ہوم‘نے کارپوریٹ جغادریوں کو یہ موقع فراہم کر دیا ہے کہ اب وہ ہفتے کے ساتوں دن اور چوبیس گھنٹے اپنے ماتحت سے کام کروا سکتے ہیں۔ اس طور سے ملازمین کو مصروف رکھنے کے عوض میں انھیں کوئی اضافی اُجرت بھی نہیں دی جاتی اور اگر بعض شعبوں میں یہ التزام ہے بھی تووہ برائے نام ہے۔ ملازمین کے اندر پیشہ ورانہ صلاحیت کو پروان چڑھانے کے عنوان سے استحصال کی اس نئی صورت نے گھریلو اورسماجی سطح پر کئی پیچیدہ مسائل کو جنم دیا ہے۔ اس کے سبب خاندانی اور سماجی سطح پر باہمی تعلقات کی نوعیت تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ اس صورتحال نے خود غرضی اور مطلب پرستی کے رجحان کو بھی بڑھاوادیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اب وہ انسانی قدریں زوال پذیر ہیں جو کسی خوشحال اور پرسکون معاشرہ کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔
اعلیٰ افسران کے ذریعہ استحصال کا یہ مسئلہ خاص طور پر کارپوریٹ سیکٹرکے ملازمین کو درپیش ہوتا ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ سرکاری محکمے اس سے پوری طرح مبرا ہیں۔ مختلف سرکاری شعبوں میں ایسے افسران بھی ہیں جو اپنے ماتحت ملازمین کو عہدے کی مناسبت سے تفویض کی گئی ذمہ داریوں کے بجائے اپنی مرضی کا تابع سمجھتے ہیں۔ اس رجحان کے حامل افسران، ملازمین کا استحصال کئی صورتوں میں کرتے ہیں ۔ ادھر گزشتہ ۱۰؍ برسوں کے دوران ملک میں فرقہ واریت کے رجحان نے جو زور پکڑا ہے وہ بھی ملازمین کے استحصال کی ایک وجہ ہے۔ اب مذہب، زبان، علاقہ اور رنگ و نسل کی بنیاد پر ملازمین کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ حالانکہ آئین کی دفعہ۱۴؍تمام شہریوں کے ساتھ مساوی سلوک کو لازمی قرار دیتی ہے لیکن اس کے باوجود ملازمت کی جگہ پر ملازمین کے ساتھ امتیازی سلوک کی مثالیں اکثر سامنے آتی رہتی ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ ملک میں بے روزگاری کی بھیانک صورتحال کا فائدہ اٹھا کر ارباب اختیار اپنے ماتحت کا مختلف طریقوں سے استحصال کرنے میں ان حدود سے بھی تجاوز کرنے لگے ہیں جن کی بنا پر انسان اور حیوان کے درمیان فرق قایم ہوتا ہے۔ ملازمین کے ساتھ غیر انسانی رویہ روا رکھنے والے ارباب اختیار کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کے ماتحت بھی انسان ہوتے ہیں اور ایک انسان ہونے کے ناطے ان کے ساتھ ایسا برتاؤ نہ کیا جائے جو ان کی عزت نفس کو مجروح کرے اور انھیں خود ان کی نظروں میں ذلیل و خوار کرے۔