• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’منڈل کمیشن کی سفارشات کی بنیاد پر مسلم او بی سی تحریک ضروری تھی جو مؤثر رہی‘‘

Updated: July 22, 2024, 1:09 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

اس تحریک کے روح رواں شبیر احمد انصاری ۴۵؍ سال سرگرم رہے اور بڑی حد تک مطمئن ہیں کہ قوم کو اس کا فائدہ مل رہا ہے۔ ملاحظہ کیجئے وہ مزید کیا کہتے ہیں۔

Shabbir Ansari at an event with Dilip Kumar. Photo: INN
دلیپ کمار کے ساتھ ایک تقریب میں شبیر انصاری۔ تصویر : آئی این این

مہاراشٹر میں ان دنوں مراٹھا اور اوبی سی ریزرویشن کی سرگرمیوں سے ریاست میں بے چینی کا ماحول ہے۔ مراٹھا ریزرویشن کیلئے بڑے پیمانے پر احتجاج اور آندولن کا سلسلہ جاری ہے، جس سے برسراقتدار طبقہ پریشان ہے، جبکہ مراٹھا ریزرویشن کےحامی اپنے فیصلہ پر اٹل ہیں ۔ ایسے میں فیصلہ کس کے حق میں آئے گا یہ تو آنے والاوقت ہی بتائے گا۔ اسی دوران چند لیڈران اور سماجی تنظیموں نے مسلم ریزرویشن کی بھی بات اُٹھائی ہے۔ ایسےمیں انقلاب نے ممتازسماجی شخصیت شبیراحمدانصاری سے بات چیت کی جو گزشتہ ۴۵؍سال سے مسلم اوبی سی ریزرویشن کیلئے سرگرم عمل ہیں۔ 
 سوال: آل انڈیا مسلم اوبی سی آرگنائزیشن کی بنیاد کب اور کیوں ڈالی گئی ؟
 جواب : آل انڈیا مسلم اوبی سی آرگنائزیشن کی بنیاد۱۹۸۰ءمیں مہاراشٹر کے ضلع جالنہ میں ڈالی گئی۔ منڈل کمیشن کی سفارشات سے مسلمانوں کو بیدار کرنا اس کا بنیادی مقصد تھا تاکہ مسلمان کمیشن کی سفارشات سے استفادہ کرکے معاشی مراعات حاصل کر سکیں۔ 
سوال: ابتدائی مراحل میں منڈل ریزرویشن سے متعلق مسلمانوں میں کام کرنے کے دوران کن دشواریوں کا سامنا کرناپڑا ؟
جواب : منڈل کمیشن کیا ہے، اس کی سفارشات کیا ہیں ، مسلمان شعوری یا غیر شعوری طورپر اس بات کو سمجھنے کیلئے قطعی تیار نہیں تھا۔ ایسی صورتحال میں پہلے تو پورے مہاراشٹر کادورہ کرکےمسلمانوں سےرابطہ کیاگیا، پھر انہیں منڈل کمیشن کی بنیادی سہولیات سے آگاہ کرنےکابیڑہ اُٹھایاگیا۔ انہیں یہ بتایاگیاکہ جس طریقہ سے منڈل کمیشن کی سفارشات سے برادرانِ وطن مستفید ہو رہے ہیں ، اسی طریقے سے مسلمان بھی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں ۔ منڈل کمیشن کی سفارشات ذات کی نہیں پیشہ کی بنیاد پر مسلمانوں کیلئے سود مند ہیں ، مگر، جیسا کہ عرض کرچکاہوں ، مسلمان اس بات کوماننے کیلئے تیار نہیں تھا۔ اس وجہ سے الگ الگ اضلاع میں منڈل کمیشن کی سفارشات سے مسلمانوں کو آگاہ کرنےکیلئے مہم چلائی گئی۔ کارنر میٹنگ منعقد کی گئی، اس کے باوجودکوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آرہی تھی۔ ایسی صورت میں بھی ہماری مہم جاری رہی، میری بھی ضد تھی مسلمانوں کو منڈل کمیشن کی سفارشات سے مستفید کرانے کی۔ خداکا شکر کہ ۱۵؍ سال کی متواتر جدوجہد کے بعدیہ کوشش رنگ لائی، مسلمانوں کی سمجھ میں آنے لگا کہ جس طرح منڈل کمیشن کی سفارشات سے برادرانِ وطن فائدہ اُٹھا رہے ہیں، اسی طرح مسلمان بھی اس کی مراعات سے فیضیاب ہوسکتے ہیں ۔ 
سوال :منڈل کمیشن کی سفارشات کے مطابق دیگر پسماندہ طبقات کے زمرےمیں آنے والے مسلمانوں کو کس طرح کی سہولیات اور فائدے دستیاب ہیں ؟آپ کے مطابق کتنے فیصد مسلمان اس سے مستفید ہوئے ہیں ؟
جواب :منڈل کمیشن کی سفارشات سےدیگر پسماندہ طبقات کے افرادکوجو فائدہ ملناتھا، اس کاآغاز ۷؍ دسمبر ۱۹۹۴ء سے ہوا۔ مہاراشٹر حکومت نے اس وقت ایک سرکیولر جاری کیا تھا، جس کے مطابق یہ اعلان کیا گیا تھا کہ بلاامتیاز مذہب وملت جو بھی اس زمرے میں آتا ہے، اسے منڈل کمیشن کی سفارشات کے مطابق سہولیات اور مراعات دی جائیں ۔ اس کے بعد ہی سےوہ مراعات مسلمانوں کوبھی مل رہی ہیں جو برادرانِ وطن کو حاصل ہیں۔ اس کی وجہ سے روزگار، تعلیم اور سیاست کے شعبوں میں مسلمانوں کوبھی فائدہ پہنچا ہے۔ اس کی وجہ سے اوبی سی کے زمرے میں آنے والے تعلیم یافتہ مسلمانوں کو بڑے عہدوں پر فائز ہونے کا موقع ملا۔ منڈل کمیشن کی سفارشات کا شہر ی علاقوں سے زیادہ دیہی علاقوں کے مسلمانوں کوفائدہ ملا۔ دیہی علاقوں کے ۹۵۔ ۹۰؍ فیصد اوبی سی زمرے کے مسلمانوں نے اس سہولت سے فائدہ اُٹھایاہے اور آج وہ کامیاب زندگی بسرکر رہے ہیں ۔ ۱۹۹۴ء کے بعد مہاراشٹر کے مسلمانوں نے منڈل کمیشن کی سفارشات سے کافی فائدہ اُٹھایا ہے، اس کااندازہ اعداد و شمار کا جائزہ لے کر کیا جاسکتاہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: مہاراشٹر کے اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں کی حصے داری ضروری

سوال : ان دنوں مہاراشٹر میں ریزرویشن سے متعلق گہماگہمی ( مراٹھا اور او بی سی) جاری ہے، ایسے میں مسلم ریزرویشن کے مطالبہ پر آپ کا کیا خیال ہے ؟
 جواب : ریزرویشن سے متعلق مراٹھا اور اوبی سی کے درمیان جاری تنازع ایک بڑی لڑائی ہے۔ مراٹھا لوگ جس طرح کے ریزرویشن کا مطالبہ کر رہے ہیں ، دستور اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اس لئے وہ ریزرویشن انہیں مل نہیں سکتا۔ دستور کے مطابق مذہب کے نام پر مسلمانوں کو بھی ریزرویشن نہیں مل سکتا۔ لہٰذا مسلمان ریزرویشن کے مطالبے پر زیادہ اصرار نہ کرتےہوئے اپنے دیگر مسائل پر توجہ دیں اورانہیں حل کرنے کی کوشش کریں۔ میرے خیال میں یہ دانشمندانہ طرزعمل ہوگا۔ 
سوال : ۴۵؍ سال سے آپ مسلم اوبی سی کیلئے سرگرم ہیں، اس طویل سفرکوآپ کس طرح دیکھتےہیں ؟
 جواب : میرا ۴۵؍ سالہ سفر آزمائش بھرا رہا۔ متعدد قسم کے مسائل، مصائب، مشکلیں اور پریشانیاں جھیلنے کےبعد کامیابی ملی۔ میرا صبر میری کامیابی کا سبب بنا۔ اگر میں صبر کادامن چھوڑ دیتاتو شاید یہ مہم ادھوری رہ جاتی۔ میرے جنون کو تقویت بخشنے میں معروف فلم اداکار دلیپ کمار، انجمن اسلام کے صدر ڈاکٹر ظہیر قاضی، معروف صحافی حسن کمال، انقلاب کےسابق مدیر مرحوم ہارون رشیدعلیگ، روزنامہ ہندوستان کےمالک ومدیر سرفرازآرزواورممتاز تعلیمی شخصیت پی اے انعامدار کا خاص کردار رہا۔ ان حضرات کے حوصلہ اور تعاون کےبغیر اس سفر کو طے کرنا ناممکن تھا۔ منڈل کمیشن کی سفارشات سے متعلق مسلمانوں کی ذہن سازی کرنےمیں ان صاحبان نے غیر معمولی خدمات پیش کیں ۔ مگر۴۵؍سال کا یہ طویل عرصہ بہت سخت گزرا ہے۔ اس کے باوجود میر ی مستقل مزاجی نے مجھے کامیابی سے ہمکنا ر کیا ہے۔ میں مسلمانوں کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ منڈل کمیشن کی سفارشات ذات پر نہیں پیشہ پر مبنی ہیں اور اس سے مسلمان بھی برادرانِ وطن کی طرح فائدہ اُٹھاسکتا ہے۔ آج مجھے خوشی ہوتی ہے کہ مسلمانوں نے میری بات کو سمجھا، یہی میری زندگی کا نصب العین تھا۔ 
 سوال :آپ کی تحریر کردہ کتاب ’منڈل نامہ‘ کا کیا مقصد ہے او ر اس سے کیاپیغام دینا چاہتے ہیں ؟
 جواب :دراصل مسلم اوبی سی ریزرویشن کے موضوع پر پی ایچ ڈی کرنے والے متعدد اُمیدواروں نے اس تعلق سے اہم معلومات حاصل کرنے کیلئے مجھ سے رابطہ کیا تھا۔ میں نے ان کی بھر پور رہنمائی کی۔ ان لوگوں کا کہناتھاکہ آپ نے منڈل کمیشن کی سفارشات سے مسلمانوں کو بڑا فائدہ پہنچا نے کیلئے جو کام کیاہے، وہ انتہائی اہم اور کارگر ہے چنانچہ اس پورے کام اور تحریک سے متعلق آپ کو ایک کتاب مرتب کرنا چاہئے تاکہ آنے والی نسل کیلئے وہ کتاب مشعل راہ ہو۔ اسی وجہ سے’ منڈل نامہ‘ کتاب مرتب کی گئی ہے۔ اس کتاب کا مقصد مسلمانوں کو یہ پیغام دینا ہے کہ دستور میں ہمارے لئے جو حقوق مختص ہیں ، ہمیں تحریک کے ذریعے ان حقوق کو حاصل کرناچاہئے۔ جس تحریک کو توڑنے کی کوشش کی جا رہی تھی، وہی تحریک آج ہزاروں ضرورتمندوں کی خوشحالی کاسبب بنی ہے۔ 
 سوال :یہ کتاب پہلے مراٹھی میں شائع ہوئی تھی، اس کا کتنا رسپانس ملا تھا؟ اُردو ایڈیشن سے آپ کیاتوقعات وابستہ کرتے ہیں ؟ 
 جواب : منڈل نامہ کتاب پہلے مراٹھی زبان میں اس لئے شائع کی گئی کیونکہ ابتدائی دور میں میرا سب سےزیادہ ساتھ ہندو اوبی سی اور دلت سماج نے دیاتھا۔ ان دونوں سماج کے مطالبہ پر میں نے مراٹھی زبان میں منڈل نامہ شائع کرائی۔ منڈل نامہ کے مراٹھی ایڈیشن کو ہاتھوں ہاتھ لیاگیا تھا، چونکہ مسلمانوں کوبھی اس کی سفارشات سے آگاہ کرتے رہنے کاعمل جاری رکھناہے، اس لئے اُردو ایڈیشن شائع کیا گیا ہے تاکہ مسلم برادری ہماری ۴۵؍ سالہ تحریک سے استفادہ کرے۔ مراٹھی کی طرح اُردو ایڈیشن سے بھی غیر معمولی کامیابی متوقع ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK