Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

آتے ہیں آنے دو یہ طوفان کیا لیجائیں گے

Updated: March 09, 2025, 2:42 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

بلاشبہ ملک کے حالات اچھے نہیں ہیں لیکن اتنے برے بھی نہیں ہیں کہ مسلمان مایوس ہوجائیں اور ہمت ہار بیٹھیں۔ حکمت عملی، منصوبہ بندی اور جہدمسلسل سے یہ حالات بدلے بھی جاسکتے ہیں۔ دنیا کو انہیں یہ بتادینا چاہئے کہ یہ طوفان ان کے حوصلوں کوتو ڑ نہیں سکتے۔

Dr. Azharuddin, Muhammad Akram. Photo: INN.
ڈاکٹر اظہر الدین، محمد اکرم۔ تصویر: آئی این این۔

ان دنوں ملک میں چہار جانب سے بری خبروں کا ایک سیل رواں جاری ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کو کہیں ہجومی تشدد کا سامنا ہےتو کہیں مساجد اور مدارس پر بلڈوزرچلاکر ان کے جذبات مجروح کئے جارہے ہیں تو کہیں راستوں اور عمارتوں کے نام تبدیل کرکے انہیں احساس کمتری میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تو کہیں بزور طاقت زباں بندی کروائی جا رہی ہےاور انہیں سچ بولنے سے روکا جارہا ہے۔ کہیں مسلمانوں کو بتایا جاتا ہے کہ آپ کیا کھائیں اور کیا نہ کھائیں تو کہیں انہیں ہدایت دی جاتی ہے کہ آپ عبادت کہاں کریں، کہاں نہ کریں اور کریں تو کس طرح کریں ؟ 
تو کیا اس کا یہ مطلب سمجھ لیا جائے کہ اب ملک میں مسلمانوں کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہے، ان کے پاس آگے بڑھنے اور اپنی پہچان و اپنے تشخص کے ساتھ رہنے کے مواقع نہیں ہیں۔ اور کیا اس کا یہ مطلب بھی سمجھا جائے کہ ہندوستانی مسلمان ہی دنیا کی مظلوم ترین قوم ہیں ؟اس کا سیدھا سا جواب ہے کہ’نہیں ‘۔ نہ تو ملک میں مسلمانوں کیلئے مواقع ختم ہوئے ہیں، نہ ہی ہندوستانی مسلمان، دنیا کی مظلوم ترین قوم ہیں۔ دیگر اقوام کو جانے دیں، عراق سے شام تک اور ایران سے چین تک، مسلمانوں کی حالت زار سے ہم سبھی واقف ہیں۔ 
بلاشبہ ہمارے ملک کے حالات اچھے نہیں ہیں لیکن اتنے برے بھی نہیں ہیں کہ مسلمان مایوس ہوجائیں اور ہمت ہار بیٹھیں۔ حکمت عملی، منصوبہ بندی اور جہدمسلسل سے یہ حالات بدلے بھی جا سکتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مسلمانوں نے ان نامساعد حالات میں اپنے قول و عمل سے یہی پیغام دیا بھی ہے کہ اس طرح کے طوفان ان کے حوصلوں کو توڑ نہیں سکتے۔ بقول پروفیسروسیم بریلوی صاحب:
آتے ہیں آنے دو یہ طوفان کیا لے جائیں گے 
میں تو جب ڈرتا کہ میرا حوصلہ لے جائیں گے
جس زمیں پر میں کھڑا ہوں وہ میری پہچان ہے 
آپ آندھی ہیں تو کیا مجھ کو اڑا لے جائیں گے؟
مسلمان واقعی اتنے کمزور نہیں کہ اس طرح کی معمولی سازشوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں۔ ہم ان کالموں میں بطور ثبوت حالیہ چند دنوں کے کچھ واقعات پیش کرنا چاہیں گے، جن سے واضح ہوگاکہ حالات کیسے بھی ہوں اور ارد گرد کتنی ہی رکاوٹیں کیوں نہ کھڑی کردی گئی ہوں لیکن اگر کسی نے عزم مصمم کرلیا تو اسےکوئی روک نہیں سکتا۔ دریا کے بہاؤ کو باندھ بنا کر روکا نہیں جاسکتا۔ ایک جگہ سے رکاوٹ کھڑی کی گئی تو دریا دوسری طرف سے اپناراستہ نکال لے گا۔ 
پہلا واقعہ مہاراشٹرکے احمد نگر ضلع کا ہے جہاں تین بھائیوں (اظہرالدین، محسن اور رمیز پٹیل) نے کتابوں کے ایک ہی سیٹ سے ایم بی بی ایس کی تعلیم مکمل کی۔ ان کے والد رفیق پٹیل ایک شکر مل میں مزدور ہیں۔ ان کی مالی استطاعت ایسی نہیں تھی کہ وہ اپنے بچوں کو ایم بی بی ایس کی تعلیم دلاپاتے لیکن پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ حوصلہ بلند تھا توراستہ بنتاگیا۔ ’جہاں چاہ، وہاں راہ‘ کے مصداق بڑے بیٹے اظہرالدین نے دن رات محنت کرکےگورنمنٹ کوٹے سے اپنے لئے ایم بی بی ایس کی سیٹ حاصل کی۔ سرکاری کوٹے سے منتخب ہوجانے کے بعد گائوں کی ایک تنظیم نے انہیں بطور تحفہ نصابی کتابوں کا ایک سیٹ دیا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے ان کے دوسرے دونوں بھائیوں نے اپنا وقت آنے پر سرکاری کوٹے سے نشستیں حاصل کیں اور اسی کتاب کے سیٹ سے اپنی تعلیم پوری کی۔ 
ملک کے مایوس کن حالات دیکھ کر اگر یہ خاندان نروس ہوجاتا اور شکوہ شکایتیں کرتے ہوئے اپنی اُڑان کا سلسلہ موقوف کردیتا تو کیا اس کامیابی پر اپنا حق جتا پاتا؟
 دوسرا واقعہ تمل ناڈو کے چنئی کا ہے جہاں کے ۱۹؍ سالہ محمود اکرم نے ۴۰۰؍ زبانیں جاننے کا ورلڈ ریکارڈ قائم کرکے اپنا، اپنی قوم، اپنی ریاست اور اپنے ملک کا نام روشن کیا ہے۔ محض ۸؍ سال کی عمر میں محمود۵۰؍ سے زیادہ زبانیں سیکھ چکے تھے۔ ان کے والدعبد الحمید بھی ایک معروف ماہر لسانیات ہیں جو ۱۵؍ سے زائد زبانوں پر عبور رکھتے ہیں۔ محمود اکرم صرف زبانیں جانتے نہیں ہیں بلکہ وہ ان زبانوں میں لکھنا، پڑھنا، بولنا اور اسے کمپیوٹر پر ٹائپ کرنا بھی جانتے ہیں۔ محمود کو گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ سے لےکربہت سارےقومی اور بین الاقوامی اعزازات سے نوازا جاچکا ہے۔ ۱۰؍ سال کی عمر میں محمود نےملک کا قومی ترانہ محض ایک گھنٹے میں ۲۰؍ زبانوں میں لکھنے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ کچھ صلاحیتیں خداداد ہوتی ہیں جو بے شک محمود اکرم میں بھی ہیں لیکن انہیں ان تمام زبانوں پر راتوں رات عبور حاصل نہیں ہوا بلکہ اس کیلئے انہوں نے دن رات ایک کیا ہے۔ انہوں نے۴؍ سال کی عمر سے زبانیں سیکھنے کی کوشش شروع کردی تھی جو ہرگزرتے وقت کے ساتھ رنگ لاتی گئی۔ خیال رہے کہ انہوں نے یہ تمام کامیابیاں اسی دوران حاصل کیں جنہیں مسلمانوں کیلئے مایوس کن قرار دیا جاتا ہے۔ عبدالحمید اور ان کے بیٹے محمود اکرم نے بھی اگر حالات کا رونا رویا ہوتا اور اپنی ذہانت کا استعمال نہیں کیا ہوتا تو کیا انہیں یہ مقام حاصل ہوتا؟ 
 تیسرا واقعہ مدھیہ پردیش کا ہے جہاں کے ایک طالب علم ماجد حسین نے انجینئرنگ کے داخلہ امتحان ’جے ای ای‘ میں تاریخ رقم کی ہے۔ انہوں نے’جے ای ای۔ مین‘ میں ۹۹ء۹۹؍ فیصد مارکس حاصل 

کرکے اپنی ریاست میں پہلی اور قومی سطح پر ۱۷؍ویں پوزیشن حاصل کی ہے۔ یہ ایک مشکل ترین امتحان ہوتا ہے۔ ان کا تعلق ملک کی اُن ریاستوں میں سے ایک سے ہےجہاں مسلمانوں کی املاک کوتباہ کرنے کیلئے بلڈوزر تیار کھڑے رہتے ہیں۔ ملک کی صورتحال ماجد کے سامنے بھی تھی لیکن وہ جانتے تھے کہ ملک کے نظام کو بدلنے کیلئے پہلے انفرادی اور پھر اجتماعی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ اسی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے انہوں نے یہ کامیابی حاصل کی۔ اس معاملے میں ماجد تنہا نہیں ہیں بلکہ ان کا ساتھ کچھ دیگر طلبہ نے بھی دیا ہے۔ جے ای ای کے امتحان میں قومی سطح پرکشمیر کےکامران بلال بھٹ نے ۳۲؍ویں، لداخ کے بشیر احمدنے ۴۲؍ ویں اور لکش دیپ کے محمد حامد نے ۴۴؍ویں پوزیشن حاصل کی ہے۔ 
اس سلسلے کا چوتھا واقعہ مہاراشٹر کے بھیونڈی شہر کا ہے جہاں کے ایک تیر انداز عادل محمد نظیر انصاری نے تھائی لینڈ میں منعقدہ ’ایشیا پیرا کپ ورلڈ رینکنگ ٹورنامنٹ‘ میں کانسے کا تمغہ جیت کر اپنا، اپنے شہر، اپنی قوم اور اپنے ملک کا نام روشن کیا ہے۔ ان کی کامیابی اس لحاظ سے بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ انہوں نے اپنی جسمانی معذوری کو کبھی ا پنے ذہن پرحاوی نہیں ہونے دیا اورنہ ہی اسے کبھی اپنے راستےکی رکاوٹ بننے دیا۔ 
عادل انصاری نےبھی یہ ساری کامیابیاں اسی دوران حاصل کی ہیں جس دوران مسلمانوں کا قافیہ تنگ کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ عادل انصاری بھی اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مسلمانوں کو ملک میں اگر اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا ہے تو انہیں ایک بار پھر خود کو ملک کیلئے نافع ثابت کرنا ہوگا۔ یہاں پر یہ چند واقعات بطور مثال اسلئے پیش کئے گئے ہیں کہ مسلمانوں میں صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے اور نہ ہی ان کیلئے مواقع کی کوئی کمی ہے۔ بس انہیں ’اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے۔ پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے‘ کے مصداق اپنے حصے کی ذمہ داریاں نبھانی ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK