Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

حالاتِ حاضرہ اور ہمارا نوجوان؛ روشنی کی چند کِرنیں باقی ہیں

Updated: March 23, 2025, 2:35 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

آزادی کے بعد کے واقعات کو مدّنظر رکھتے ہوئے نوجوان یہ تو بخوبی سمجھ گئے ہوں گے کہ سارا معاملہ اکثریت اور اقلیت کے تناسب کا ہے۔ آزادیٔ ہند کی جدوجہد کے دَوران یہ تناسب قوم کی قیادت کو سمجھ نہیں آیا۔

Now is the time to act with wisdom and understanding. Photo: INN.
اب وقت ہے کہ عقل و حکمت سے کام لیا جائے۔ تصویر: آئی این این۔

وطنِ عزیز ایک بڑے آزمائشی دَور سے گزر رہا ہے۔ نوجوانو! اس کی وجوہات سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ حکمراں پریوار کو ’نایاب‘ نسخہ ہاتھ لگا ہے کہ ملک میں ’ہندو مسلم‘ کی رَٹ لگاکر الیکشن جیتے جاسکتے ہیں اور اس حد تک بھی اکثریت پائی جاسکتی ہے کہ ملک کے آئین، اس کے سیکولر کردار اور مذہبی رواداری کی بنیادوں کی چولیں بھی ہلائی جاسکتی ہیں۔ ملک کے حالات بڑے دھماکہ خیز دِکھائی دے رہے ہیں اور ہمارا نوجوان بے حد مضطرب اور پریشان ہے۔ آئیے حالات کا جائزہ لیں کہ کیا سارے راستے مسدود ہیں یا اس اندھیرے میں بھی روشنی کی چند کِرنیں باقی ہیں ؟
لمحوں کی خطا 
آزادی کے بعد کے واقعات کو مدّنظر رکھتے ہوئے نوجوان یہ تو بخوبی سمجھ گئے ہوں گے کہ سارا معاملہ اکثریت اور اقلیت کے تناسب کا ہے۔ آزادیٔ ہند کی جد وجہد کے دَوران یہ تناسب قوم کی قیادت کو سمجھ نہیں آیا۔ تحریک آزادی کے سارے معاملات ٹھیک ٹھاک چل رہے تھے کہ اچانک اکابرین کے ایک عاقبت نا اندیش اور احمق ٹولے نے اعلان کردیا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ لگ قومیں ہیں اور یہ ساتھ نہیں رہ سکتیں۔ اس احمقانہ اعلان پر سب سے زیادہ ونایک دامودر ساورکراور اس کے حواری خوش ہوئے۔ اُس وقت کی مسلم قیادت اب اُسی ساورکر کے دوقومی نظریے کی تبلیغ میں لگ گئی۔ تاریخ نے اس قوم پر بڑا رحم کیاتھا جب اُسے اپنی بصیرت کا استعمال کرتے ہوئے دومرتبہ اپنا قائد اعظم منتخب کرنے کا موقع فراہم کیا۔ پہلی مرتبہ جب ۱۸۵۷ء میں، ۸۵۰؍برس سے زائد اس برّصغیر پر حکومت کرنے والی قوم کو انگریزوں کی ٹکنالوجی (اور ہمارے اپنوں کی غداری) نے شکست فاش کیا۔ اُس وقت سرسیّد کو اپنا قائد اعظم تسلیم کرنا چاہئے تھا جن کے پاس اس قوم کے نشاۃ الثانیہ کا پور ااور قابلِ عمل منصوبہ موجود تھا البتہ بیزاری کا یہ عالم تھا کہ سرسیّد کے ایک تہذیب الاخلاق کی مخالفت میں کم و بیش درجن بھر رسالے جاری ہوئے۔ دوسرا موقع مفسرِ قرآن، عالم باعمل، مفکر بے بدل، مربی بے مثل، گنجینۂ علم و حکمت، الہلال و البلاغ کے مبلّغ مولانا آزاد کو منتخب کرنے کا تھا، مگر قوم نے انہیں بھی مسترد کردیا اور ایک غیر دُور اندیش، جذباتی و جوشیلی قیادت کو تسلیم کرلیا۔ 
نوجوانو! یہ بظاہر لمحوں کی خطا تھی مگر اُس کی سزا ہم آج بھی قسطوں میں ادا کر رہے ہیں اور اگر ہم نے عقل و حکمت سے کام نہیں لیا تو برسوں یا دہائیوں تک بھی اس کی قیمت ادا کرنی پڑیگی۔ تقسیم ہند کا مطالبہ کرنے اور دامودر کی زہریلی فکر کو بڑھاوا دینے والی اُس وقت کی نام نہاد مسلم قیادت اس قدر بے شعور اور بے عقل تھی کہ اُسے یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ جمہوریت میں عوام کو صرف گِنا کرتے ہیں، تولانہیں کرتے۔ اس بناء پر آج آزادی کی آٹھ دہائیوں میں ہماری قوم پَل پَل اُس قیامت سے گزر رہی ہے کہ ہم ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم کی تباہی کو بیسویں صدی کا سب سے بڑا سانحہ نہیں سمجھتے بلکہ تقسیم ہند ہی سب سے بھیانک سانحہ تھا۔ 
نوجوانو! حقیقت پسند بنئے اور سمجھئے کہ تقسیمِ ہند کا مطلب کیا تھا؟
(الف) تقسیم کے بعد ملک میں بچے ہوئے مسلمان ایک ہارے ہوئے معرکے کے قیدی کے طور پر یہاں رہینگے جس کا ہم اعتراف کرتے ہیں ؟ 
(ب) ہم اس ملک میں دونمبر کے شہری کے طورپر رہیں گے؟ 
(ج) ہم اکثریتی فرقے کے مساوی کوئی حق نہیں مانگیں گے؟
دیکھا نوجوانو! یہ کتنی بھیانک غلطی ہمارے اکابرین کر بیٹھے جب کہ اُس سے قبل ہم افغانستان سے لے کر برماتک کے حکمراں تھے اور پھر اُس کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کے حکمراں بن کر جھوم رہے ہیں۔ نوجوانو! یہ بھی نوٹ کر لو کہ وہ مملکت اسلامیہ کتنی کامیاب ہے کہ ایک امریکی ڈالر کی قیمت اُس ملک کے ۲۸۰؍روپے کے برابر ہے۔ 
نوجوانو! ساورکر کے قومی نظریے کے حصہ دار بننے کی قیمت اب ہماری قوم کو ہمیشہ اور مستقل طورپر اداکرنی پڑرہی ہے۔ تمام سیاستداں صرف ووٹوں کی گنتی کو سمجھتے ہیں اور تقسیم ہند کے بعد ووٹوں کے اعداد و شمار یہ ہیں کہ ہمارے ووٹ صرف ۱۵؍فیصد ہیں، لہٰذا 
(الف) سارے سیاستداں اکثریتی ووٹوں کی فکر کریں گے۔ 
(ب) حق و باطل کا پیمانہ کچھ نہیں ہے، صرف الیکشن جیتنا چاہیں گے۔ 
(ج) نام نہاد سیکولر پارٹیاں بھی کھُل کر ہم اقلیتوں کا حق میں بھی ساتھ نہیں دیں گی کیونکہ اُن کو اکثریتی فرقے کے ووٹ نہیں ملیں گے۔ 
(د) پارلیمنٹ اوراسمبلیوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے، اُس کی فکر بھی کوئی پارٹی نہیں کرے گی۔ 
(و) انصاف پسند اور دانشور طبقہ حق کی طرفداری کر بھی سکتا ہے مگر وہ بمشکل ۵؍ فیصد ہیں جن میں سے اکثر ایسے ’دانشور‘ ہیں جو ۴؍ سال ۳۶۴؍ دِن سیاست پر تبصرہ کرتے ہیں مگر ۳۶۵؍ویں دِن ووٹ دینے نہیں جاتے!
نوجوانو! سی اے اے، این آرسی کا معاملہ ہو، مساجد کی تہہ میں مندر ڈھونڈنے کی شر انگیزی ہو یا اوقاف کابِل، تمام سیاسی پارٹیاں صرف اور صرف یہ حساب کریں گی کہ اِن سارے بِل کی مواقفت میں اُنھیں زیادہ ووٹ ملیں گے یا مخالفت میں ! ان حالات میں اب ہمیں اپنا لائحہ عمل تبدیل کرنا ہوگا۔ 
اسلام بادشاہوں نے نہیں پھیلایا
محمود غزنوی سے لے کر آخری مغل حکمراں تک نے اس ملک پر راج کیا، بڑی بڑی عالیشان عمارتیں بنوائیں، معاشیات، حمل ونقل، آبِ رسانی وغیرہ کے کامیاب نظام قائم کئے البتہ اِن میں سے کسی نے بھی اسلام کی تبلیغ میں کوئی نمایاں کردا رادا نہیں کیا۔ برّصغیر میں اسلام کو پھیلانے میں اولیائے کرام اور بزرگانِ دین کا کردار نمایاں رہا ہے۔ اُن کے اوصاف حسنہ، صبر و قناعت، ایثار و سخاوت، ایمانداری اور راست بازی سے یہاں لوگ جوق در جوق اسلام کے دامن میں آتے گئے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری قوم کواِن بزرگانِ دین کے صرف مزار یاد ہیں البتہ اُن کے اوصاف حمیدہ وہ بھول گئے۔ اب جہاں تک ہمارے حکمران چاہے، بادشاہ ہوں یا شہنشاہ، اُ ن میں سے کسی کو بھی دین اسلام کو پھیلانے کا کریڈٹ دیانہیں جاسکتا کیونکہ اُن میں سے اکثر کا کردار دین کی تعلیمات سے ہم آہنگ بھی نہیں تھا۔ اس لئے اب ملک کے بدلتے ہوئے منظر نامے میں ہمیں اُن بادشاہوں کیلئے زندہ باد کے نعرے لگانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس لئے بھی کہ چاہے وہ اورنگ زیب اور شیواجی کی جنگ ہو یا اکبر اور مہارانہ پرتا پ کی، اُن میں کوئی بھی جنگ ہندو مسلم جنگ نہیں تھی کیونکہ اورنگ زیب کی فوج میں مراٹھا تھے اور اکبر کی فوج میں راجپوت، نیز شیواجی اور مہارانا پرتاپ کی فوج میں بے شمار مسلمان فوجی و افسر موجود تھے لہٰذا وہ ساری جنگیں صرف سیاسی لڑائیاں تھیں، محض اقتدار، سلطنت اور جاگیروں کیلئے۔ 
نوجوانو! یہاں بادشاہوں کے کارناموں کو گنتے وقت کہا جاتا ہے کہ
(الف)اورنگ زیب اپنے ہاتھ سے قرآن لکھتے تھے۔ بلاشبہ یہ اُن کیلئے ثواب کا بڑا ذریعہ تھا البتہ پورے برصغیر کے شہنشاہ ہونے کے ناطے انہیں معلوم ہونا چاہئے تھا کہ اُن کے دَور کے دوسوسال پہلے چین اور یورپ میں پرنٹنگ پریس کی ایجاد ہوچکی تھی۔ عیسائی مشنریوں نے تیز رفتاری سے اور ایک مشن کے طور پر بائبل چھاپنا شروع کی اور اسطرح عیسائیت کی تبلیغ بڑی تیز رفتاری سے ہوتی گئی۔ 
(ب) شاہجہاں کے دَور میں بڑی خوبصورت اور عالیشان عمارتیں تعمیر ہوئیں البتہ ان کے دَو رسے ۱۰۰؍سال پہلے آکسفورڈ اور پیرس یونیورسٹی قائم ہوئی تھیں اور تاج محل کی تعمیر سے ۶۲؍ سال قبل کیمبرج یونیورسٹی قائم ہوچکی تھی۔ بادشاہوں کو علم کے ہتھیار سے قوم کو لیس کرنے کا شعور تھا نہ ویژن لہٰذا ہماری قوم کو حاصل ہوئے چند سفید پتھراور چند لال پتھر۔ کچھ عجب نہیں کہ اس لئے ہمیں غزہ سے لے کر ناگپور تک ہمارے نوجوانوں کے ہاتھ میں پتھرہی دکھائی دیتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK