دہلی انتخابات کے ممکنہ نتائج کا تجزیہ کرتے وقت دو باتوں کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ پہلا، حالیہ برسوں میں بی جے پی ہمیشہ سہ رخی مقابلوں میں برتری کی پوزیشن میں رہی ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ دہلی میں بی جے پی کو فائدہ ہوگا،
EPAPER
Updated: January 28, 2025, 10:07 PM IST | Sanjay Kumar | Mumbai
دہلی انتخابات کے ممکنہ نتائج کا تجزیہ کرتے وقت دو باتوں کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ پہلا، حالیہ برسوں میں بی جے پی ہمیشہ سہ رخی مقابلوں میں برتری کی پوزیشن میں رہی ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ دہلی میں بی جے پی کو فائدہ ہوگا،
دہلی انتخابات کے ممکنہ نتائج کا تجزیہ کرتے وقت دو باتوں کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ پہلا، حالیہ برسوں میں بی جے پی ہمیشہ سہ رخی مقابلوں میں برتری کی پوزیشن میں رہی ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ دہلی میں بی جے پی کو فائدہ ہوگا، کیونکہ کانگریس، آپ اور بی جے پی کے درمیان سہ رخی مقابلہ ہونے والا ہے؟ لیکن ایک اور پہلو بھی ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ حالیہ دنوں میں کئی ریاستی حکومتیں نہ صرف دوبارہ منتخب ہوئی ہیں بلکہ موجودہ حکومتوں کے ہارنے کے تصور( حکومت مخالف رجحان) کو جھٹلاتے ہوئے انہیں پہلے سے زیادہ عوامی حمایت ملی ہے۔ ہریانہ، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر اس کی واضح حالیہ مثالیں ہیں۔
دہلی انتخابات کا تجزیہ کرتے وقت اگرہم صرف ایک بیانیہ یا دوسرے بیانیہ کے ساتھ چلیں تو یہ غلط ہوگا۔ دہلی میں ’آپ‘ کے انتخابی امکانات کیلئے سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والی بات نہ تو صرف’ آپ‘ حکومت کی کارگزاری ہے، نہ ہی یہ کہ بی جے پی اسے کتنی مضبوطی سے چیلنج دے سکتی ہے۔ انتخابات کے نتائج کا زیادہ تر انحصار اس تیسرے عنصر پر ہوگا –کہ اس الیکشن میں کانگریس کی کارکردگی کیسی رہتی ہے۔ حالانکہ ۲۰۱۵ء اور ۲۰۲۰ء میں دہلی میں ہونےوالے گزشتہ دو اسمبلی انتخابات میں بھی سہ رخی مقابلہ دیکھنے میں آیا تھا لیکن ’آپ‘ بھاری اکثریت سے جیتنے میں کامیاب رہی تھی کیونکہ کانگریس نے نہایت ہی خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ صرف برائے نام سہ رخی مقابلے تھے۔
یہ بھی پڑھئے: مالیگائوں شرپسندوں کا مقابلہ کرنے کیلئے کمر بستہ، مائناریٹی ڈیفنس کمیٹی کا قیام
یہ دوسری ریاستوں کیلئے درست ہو سکتا ہے کہ سہ رخی مقابلے زیادہ تر بی جے پی کو فائدہ پہنچاتے ہیں ، لیکن دہلی میں ایسا نہیں ہوا۔ کانگریس کو گزشتہ دو اسمبلی انتخابات میں بالترتیب ۹ء۵؍ اور ۴ء۲؍ فیصد ووٹ ملے تھے، اس کے باوجود آپ نے نہ صرف دونوں انتخابات جیتے بلکہ بی جے پی پر بڑے فرق سے برتری حاصل کی۔ ۲۰۲۵ء میں ’آپ‘ کے امکانات نہ صرف اس کی اپنی کارکردگی پر بلکہ کانگریس کی کارکردگی پر بھی منحصر ہیں ، کیونکہ دونوں ہی پارٹیوں کے بنیادی ووٹر تقریباً ایک جیسے ہیں۔ کئی ریاستوں میں ’آپ‘ نے کانگریس کی قیمت پر انتخابی طاقت حاصل کی ہے اور اگر دہلی میں کانگریس دوبارہ اُبھرتی ہے تو یہ یقینی طور پر عام آدمی پارٹی کی قیمت پر ہوگی۔ دہلی کے علاوہ پنجاب میں ۲۰۲۲ء کے انتخابات میں بھی ’آپ‘ نے کانگریس کی بنیاد کو پوری طرح سے تباہ کر کے ایک بڑی جیت درج کی۔ وہاں پر کانگریس کا ووٹ شیئر ۲۰۱۷ء میں ۴۱ء۴؍ فیصد سے کم ہو کر ۲۰۲۲ء میں ۲۳ء۳؍ ہو گیا تھا۔
حالانکہ گوا میں ’آپ‘ کی کارکردگی بہت اچھی نہیں تھی، اسے صرف ۶ء۷؍ ووٹ ملے، لیکن یہ بھی کانگریس کی قیمت پر ہی ہوا کیونکہ اس کا ووٹ شیئر۲۰۱۷ء میں ۲۸ء۳؍ سے گھٹ کر ۲۳ء۴؍ ہو گیا تھا، جبکہ بی جے پی کو ۲۰۱۷ء میں ۳۲ء۵؍ اور۲۰۲۲ء میں ۳۳ء۳؍ ووٹ ملے، البتہ اس نے بڑی جیت درج کی۔ اتراکھنڈ میں کہانی تھوڑی مختلف ہو سکتی ہے، لیکن شواہد بتاتے ہیں کہ ’آپ‘ نے کچھ ریاستوں میں کانگریس کے امکانات کو نقصان پہنچایا ہے جبکہ دہلی کے معاملات اس کے برعکس ہیں۔ اسی لئے کہا جارہا ہے کہ آپ کی کارکردگی کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ کانگریس کی کارکردگی کیسی رہتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ۱۵؍ ضمانتوں کے ساتھ دہلی کیلئے ’آپ‘ کا انتخابی منشور جاری
لیکن یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ حالیہ برسوں میں کئی حکومتیں دوبارہ منتخب ہوئی ہیں۔ کسی بھی حکومت کا دوبارہ انتخاب اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ عوام میں مقبول ہے۔ زمینی رپورٹس بتاتی ہیں کہ اگرچہ آپ کی حکومت آج اتنی مقبول نہیں ہے جتنی کہ ۲۰۲۰ء میں تھی، لیکن یہ اب بھی دہلی کے ووٹروں میں سب سے زیادہ مقبول متبادل بنی ہوئی ہے۔ - کم از کم متوسط طبقے میں اور ان میں جو کچی آبادیوں اور غیرقانونی کالونیوں میں رہتے ہیں۔