• Sun, 23 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ڈجیٹل آلات، کتابوں اور بیاضوں کا متبادل نہیں ہو سکتے

Updated: February 23, 2025, 2:25 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

سویڈن کے اس اعتراف کے بعد کہ تعلیم کی جدید کاری کی وجہ سے ان کے طلبہ ابتدائی مرحلے ہی میں ناکامی سے دوچار ہو رہے ہیں، یہ موضوع بحث ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

آموزش کے عمل میں کتابوں کوجو بنیادی حیثیت حاصل ہے اسے جدید سے جدید تر تکنیکی آلات ختم نہیں کر سکتے۔ سویڈن حکومت کے اس حالیہ فیصلے کو اس دعوے کی دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے جس میں ڈجیٹل لرننگ سے کتابوں کی طرف مراجعت کیلئے حکومتی سطح پر اقدام کئے جا رہے ہیں۔ سویڈن حکومت نے ۲۰۰۹ء میں تعلیم کو پوری طرح ڈجیٹلائز کر دیا تھا لیکن محض ۱۵؍ برسوں کے اندر ہی اس فیصلے کے ایسے اثرات ظاہر ہونے لگے جو تعلیمی عمل میں تکنیکی آلات پر مکمل انحصار کے سبب طلبہ کی ذہانت اور انجذابی قوت کے کمزور ہونے کی نشاندہی کرنے لگے۔ اس کمزوری کو ختم کرنے کی غرض سے سویڈن حکومت نے طلبہ میں دوبارہ کتابیں متعارف کرانے کیلئے ۱۰۴؍ ملین یورو (تقریباً ساڑھے ۹؍ ارب روپوں )کے پروجیکٹ کو نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سویڈن کو عالمی سطح پر معیاری تعلیم کے حوالے سے ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ اس ملک میں مختلف سطح کے تعلیمی اداروں میں نصاب کی تشکیل اور طلبہ تک اس کی ترسیل کے عمل سے وابستہ تمام عناصر کی کارکردگی کو نتیجہ خیز بنانے پر خاصا زور دیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں ماہرین تعلیم اور تعلیمی شعبے کے ارباب حل و عقد ایسے تجرباتی اقدام کرتے رہتے ہیں جو تعلیمی عمل کو زیادہ پرکشش اور طلبہ کیلئے سہولت بخش بنا سکیں۔ ۱۵؍ برس قبل روایتی طرز تعلیم کو ترک کر کے کتابوں اور بیاضوں کی جگہ ڈجیٹل آلات متعارف کرنے کا فیصلہ بھی انہی تجرباتی اقدام کا ایک جزو تھا۔ اس اقدام سے جن ممکنہ نتائج کی امید کی گئی تھی وہ تو پوری نہ ہوئی الٹا صورتحال میں ایسی پیچیدگی در آئی جس نے دوبارہ کتابوں کی طرف مراجعت پر مجبور کر دیا۔ 
اسکرین پر پڑھنے سے جو فائدے ہوتے ہیں اس کے عوض میں کئی ایسے نقصانات سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے جو اِن فائدوں کو لاحاصل کے زمرے میں شامل کر دیتے ہیں۔ اسکرین پر پڑھنے کے دوران کتابوں کے صفحات پلٹنے کے عمل سے نجات مل جاتی ہے اور زیر مطالعہ عبارت کو حسب ضرورت بڑا یا چھوٹا بھی کیا جا سکتا ہے لیکن یہ سہولت کئی ایسے فائدوں سے محروم کر دیتی ہے جن کا براہ راست تعلق فہم و فراست سے ہوتا ہے۔ کتابوں کے صفحات سے انگلیوں کا لمس ذہن کے دریچوں کو ذکاوت اور فطانت کی روشنی سے معمور کر دیتا ہے۔ اس روشنی کے مقابلے اسکرین سے نکلنے والی روشنی ذہنی اعصاب کو متحرک اور فعال بنانے میں بہت زیادہ کارگر نہیں ثابت ہوتی۔ اس کے علاوہ اسکرین سے مسلسل رابطہ انسان کی بینائی کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ انسانی نفسیات کے ماہرین بھی اس بات پر متفق ہیں کہ کتابوں کے صفحات پلٹنے کا عمل پڑھنے والے کی جودت طبع میں اضافہ کرتا ہے جو پڑھی ہوئی عبارت کا مفہوم اخذ کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔ 
ڈجیٹل لرننگ سے یادداشت اس قدر قوی نہیں ہو پاتی جیسے کتابوں کے ذریعہ ہوتی ہے۔ یہ جدید طرز آموزش طلبہ کی یادداشت کو متاثر کرنے کے علاوہ اقتباس پڑھنے کی صلاحیت کو بھی کمزور کر دیتا ہے۔ کسی اقتباس کو پڑھنے اور اسے یاد رکھنے کی صلاحیت سے محروم طلبہ نہ تو اس کی معنوی جہتوں کو دریافت کر سکتے ہیں اور نہ ہی حسب ضرورت یا موقع اسے استعمال کر سکتے ہیں۔ دجیٹل آلات پر منحصر طلبہ کا ذہن مشینی طرز پر کام کرنے کا عادی ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس طریقۂ تعلیم سے تعلیمی مراحل کو طے کرنے والے بیشتر طلبہ مختلف موضوعات سے متعلق سطحی معلومات تو رکھتے ہیں لیکن ان کا دامن علم کے ان خزانوں سے خالی ہوتا ہے جو انھیں درک و دانش کے معاملے میں متمول اور خود کفیل بنا سکے۔ مشینی ذہن کے حامل یہ طلبہ جب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ان تقاضوں کی تکمیل معیاری اندا زمیں کرنے سے قاصر ہوتے ہیں جن پر صالح اقدار حیات کی بقا کا دار و مدار ہوتا ہے۔ 
ڈجیٹل لرننگ سے یاد داشت کی کمزوری اور ذہنی یکسوئی میں کمی کے علاوہ جس دوسرے اہم مسئلے کا پتہ چلا وہ یہ کہ ان آلات میں ہمہ وقت مشغول رہنے کے سبب طلبہ کا آپس میں رابطہ کم ہو جاتا ہے۔ اپنی ذات کے دائرے میں محدود رہنے والے طلبہ زندگی کے ان متنوع اسرار و رموز کا بھید پانے سے قاصر رہ جاتے ہیں جو عمر کے مختلف پڑاؤ اور رشتوں کی مختلف صورتوں میں فکری اور جذباتی طور پر زندگی کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ مسئلہ صرف طلبہ ہی سے مخصوص نہیں ہے بلکہ تکنیکی آلات پر انحصار نے تقریباً ہر عمر اور مزاج کے انسانوں کو تنہائی پسند بنادیا ہے۔ اس کے سبب موجودہ انسانی معاشرہ اخلاقی سطح پر بعض ایسے مسائل سے دوچار ہے جو صالح اقدار حیات کیلئے خطرہ بنتے جار ہے ہیں۔ ڈجیٹل آلات سے پڑھائی کرنے والے طالب علم کا پڑھائی کے دوران اپنے آلے پر کسی کھیل میں مصروف ہو جانا عام بات ہے۔ یہ روش ان کے اندر بغاوت کی نفسیات کو جنم دیتی ہے اور پھر وہ بڑوں کی اطاعت اور فرمابرداری کو فضول سمجھنے لگتے ہیں۔ سوسائٹی میں حفظ مراتب کا فقدان اسی رویہ کا زائیدہ ہے۔ نئی نسل اپنے اس رویے کے دفاع میں اسے ماڈرن زمانے کی ناگزیر ضرورت قرار دیتی ہے۔ 
ڈجیٹل لرننگ، جسے تعلیمی عمل میں معاون عنصر کا کردار ادا کرنا چاہئے، وہ طلبہ کیلئے اس قدر نقصاندہ ثابت ہو رہی ہے کہ وہ لکھنے پڑھنے کی بنیادی صلاحیت سے بھی محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ سویڈن کی حکومت نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے کہ تعلیم کی جدید کاری کے عوض میں ان کے طلبہ اس ابتدائی مرحلہ پر ہی ناکامی سے دوچار ہو رہے ہیں۔ لکھنے پڑھنے کی بنیادی صلاحیت کے پروان چڑھے بغیر وہ لیاقت نہیں پیدا ہو سکتی جو مختلف مضامین کے پیچیدہ نکات کا درک حاصل کر سکے۔ وسیع تناظر میں تعلیم کا مقصد کسی موضوع کا درک حاصل کرلینا ہی نہیں ہے بلکہ اس عمل کے دوران جو حقائق آشکار ہو ں انھیں اس طرح انگیز کرنا جو فرد کی ذات اور اس کے سماج کیلئے ترقی اور طمانیت کی راہ ہموار کریں۔ اگر تعلیم اس مقصد کو پورا نہ کر سکے تو اس سے سماج کو کوئی فیض نہیں پہنچ سکتا۔ آج ہر سو اسے محسوس کیا جاسکتا ہے۔ 
تعلیمی امور میں جدت پسندی معیوب نہیں لیکن جب یہ جدت پسندی تعلیم سے وابستہ ذہنی و شعوری تقاضوں کیلئے مسئلہ بن جائے تو اسے ترک کردینے میں ہی بھلائی ہے۔ سویڈن کی حکومت نے کتابوں کی جانب مراجعت کا جو فیصلہ کیا ہے اس کا ایک بڑا سبب یہی مسئلہ ہے۔ جدیدتکنیکی آلات پر فریفتہ ان ملکوں کو سویڈن کے اس فیصلے سے سبق لینا چاہئے جہاں کے عوام زندگی کے بیشتر امور میں اپنے ذہن و شعور سے زیادہ تکنیک پر انحصار کرتے ہیں۔ تعلیم میں ڈجیٹل آلات کے استعمال کے حوالے سے اگر وطن عزیز کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو بہ آسانی یہ کہا جا سکتا ہے کہ تعلیم کی جدید کاری کے عنوان سے تعلیمی اداروں میں وہی ماحول تیار کیا جا رہا ہے جس ماحول میں ۱۵؍برس گزارنے کے بعد سویڈن نے طلبہ میں دوبارہ کتابوں سے رغبت پیدا کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ تکنیکی آلات پر مکمل انحصار کے سبب طلبہ کی ذہنی صلاحیتوں کے متاثر ہونے کے آثار اب سے ۱۰؍، ۱۵؍ برس قبل ہی ظاہر ہونے لگے تھے۔ ۲۰۱۳ء میں برطانیہ میں ایک سروے سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ ڈجیٹل آلات سے پڑھائی کرنے والے کم عمر طلبہ کی انگلیاں اس لچک سے محروم ہوتی جارہی ہیں جو قلم پکڑنے کیلئے ضروری ہے۔ 
ان سطور کا مقصدتکنیکی آلات سے مکمل کنارہ کشی اختیار کرنا نہیں ہے بلکہ کتاب، بیاض اور ڈجیٹل آلات کے درمیان ایسا توازن قائم کرنا ہے جوذہن و شعور کو پختگی اور جلا بخشنے کے ساتھ ہی زندگی کو ان ضابطوں اور اقدار سے آراستہ کر سکے جس کے ذریعہ فرد ایک سنجیدہ اور ذمہ دار شہری اور سماج ایک پرامن و پرسکون محور حیات کا نمونہ بن جائے۔ کتابوں سے رابطے کو مستحکم بنا کر ان مقاصد کے حصول کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔ کتاب بیزاری نہ صرف فرد کی داخلی زندگی کو انتشار اور اضطراب سے دوچار کرتی ہے بلکہ خارجی دنیا میں بھی ایسے مسائل پیدا کر سکتی ہے جو تہذیب و تمدن کے ارتقائی سفر میں رخنہ اندازی کرتے ہیں۔ ڈجیٹل آلات کے ذریعہ جن معلومات کی ترسیل ہوتی ہے ان کے معتبر ہونے کا حتمی دعویٰ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس وقت ملک میں سماجی سطح پر جو مسائل پیدا ہو گئے ہیں ان میں اس طرز کی غیر معتبر اور سطحی باتوں کا بڑا دخل ہے جو سیاست اور مذہب کے حوالے سے عوام کے درمیان تفرقہ اور تعصب کو بڑھاوا دے رہی ہیں۔ کتابیں ان مسائل سے محفوظ رہنے میں معاون کارگر جزو کا کردار ادا کر سکتی ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK