سپریم کورٹ کے متعلق حکمراں جماعت کے اراکین جس قسم کی غیر معیاری زبان استعمال کر رہے ہیں اس پر وزیر اعظم کی خاموشی کئی سوالوں کو جنم دیتی ہے۔
EPAPER
Updated: April 27, 2025, 1:48 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
سپریم کورٹ کے متعلق حکمراں جماعت کے اراکین جس قسم کی غیر معیاری زبان استعمال کر رہے ہیں اس پر وزیر اعظم کی خاموشی کئی سوالوں کو جنم دیتی ہے۔
ایودھیا میں رام مندر کے سلسلے میں سپریم کو رٹ کے ذریعہ آستھا کی بنیاد پر دیئے گئے فیصلے کو انصاف کی لاج قرار دینے والے وزیر اعظم کی پارٹی کے ایم پی اور دیگر اراکین ان دنوں عدالت عظمیٰ کے متعلق جو غیر معیاری زبان استعمال کر رہے ہیں اس پر وزیر اعظم کی خاموشی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ اس طرز کی غیر شائستہ بیان بازی سے عدلیہ کا وقار تو مجروح ہوتا ہی ہے ساتھ ہی یہ خدشہ بھی پیدا ہو چلا ہے کہ ملک میں آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والی عدالتوں کو ارباب اقتدار اپنی مرضی کاتابع بنانا چاہتے ہیں۔ یہ صورتحال جمہوریت کیلئے ایسا خطرہ ہے جو بیک وقت ملک کے وفاقی نظام کو کمزور بنانے اور آئین کے فراہم کردہ عوامی حقوق کا دائرہ تنگ کر سکتا ہے۔ اس خطرے سے ملک کو محفوظ رکھنے کیلئے غیر جانب دار عدلیہ کا وجود ناگزیر ہے۔ ملک کی عدالت عظمیٰ اپنے اسی فرض کی تعمیل کر رہی ہے جس کا حتمی مقصد مقننہ اور انتظامیہ کے ذریعہ آئینی احکامات اور التزامات کے غیر جانب دارانہ نفاذ کو یقینی بنانا ہے۔ عدلیہ کی یہ فرض شناسی ان فرقہ پرست عناصر کو ناگوار گزر رہی ہے جواپنی مرضی اور خواہش کو انصاف و قانون کے متبادل کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ملک میں نئے وقف قانون کے نفاذ کے سلسلے میں ارباب اقتدارمسلمانوں کی فلاح وبہبود کا جو دعویٰ بارہا کرتے رہے، عدالت عظمیٰ کے چند معقول سوالوں نے ان دعوؤں کی حقیقت اجاگر کر دی۔ مرکزی ایوانوں میں اس غاصبانہ قانون کی حمایت میں لمبی چوڑی بحث کرنے والی حکومت کا عدالت سے ایک ہفتے کا وقت مانگنا یہ ثابت کرتا ہے کہ وقف املاک کے متعلق اس کی نیت میں کھوٹ ہے۔ اقتدار کی اس بدنیتی پر گرفت کرنے والی عدالت عظمیٰ کے ججوں کے متعلق شر انگیز مہم چلانے والے سیاستداں اور ان کے حامیوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایوان میں تعداد کی بنا پر کسی بھی مسودہ کو قانونی شکل دینے سے اس مسودہ کی ان خرابیوں اور کمیوں کو جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا جن سے سماج کے کسی بھی طبقے یا فرقے کے حقوق متاثر ہوتے ہوں۔ ایسی صورت میں عدلیہ ہی اس ممکنہ حق تلفی کو فرو کر سکتی ہے۔ نئے وقف قانون کو مسترد کرنے کی غرض سے سپریم کورٹ میں جو درخواستیں دی گئی ہیں، ان کے ساتھ یہی یقین وابستہ ہے جس سے ان فرقہ پرست سیاستدانوں کو بہت دشواری ہو رہی ہے جو مسلمانوں کو اُن وسائل سے محروم کرنا چاہتے ہیں جو اوقاف کی صورت میں ان کی ترقی و بہبود کیلئے مختص کئے گئے ہیں۔
اس صورتحال کو مزید پیچیدہ بنانے کیلئے دانستہ طور پر ایک نئی بحث چھیڑ دی گئی ہے کہ آیا عدلیہ، مقننہ سے بالاتر ہو سکتی ہے؟اس بحث میں ایک یہ شوشہ بھی چھوڑ دیا گیا ہے کہ مقننہ کو تمام اداروں پر فضیلت تو حاصل ہے ہی ساتھ ہی ایوان کے اراکین کی سیاسی سرگرمیاں ہی آئین کا درجہ رکھتی ہیں۔ نائب صدر نے جس تیور کے ساتھ یہ بحث اٹھائی ہے وہ اس آئینی عہدے کے اس بنیادی اصول پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے جو آئین کی رو سے نائب صدر کے غیر جانب دار ہونے کو لازمی قرار دیتا ہے۔ اس اصول کو بالائے طاق رکھ کر ایوان بالا میں بارہا موقعوں پر انھوں نے اپنے اس موقف کا مظاہرہ کیا ہے جو حکومت کی سوچ کے مطابق ہوتا ہے۔ ’سپر پارلیمنٹ‘ جیسی لایعنی اصطلاح گڑھنے والے نائب صدر اور دیگر ارباب اقتدار پارلیمنٹ کی بالادستی کے سلسلے میں جو تاویلات پیش کررہے ہیں کیا وہ تاویلات صرف مرکزی ایوانوں تک ہی محدود ہیں ؟ ایک معمولی سمجھ رکھنے والا انسان بھی پہلی نظر میں اس خود ساختہ محدودیت کو مسترد کر دے گا اور ایسا کرنا ملک کے وفاقی نظام کو پائیدار اور مستحکم بنانے کیلئے ناگزیرہے۔ اس نظام کے تحت مرکزی اور ریاستی ایوانوں کے اراکین کے اختیارات بھلے ہی یکساں نہ ہوں لیکن عوامی مسائل اور مفادات کے حوالے سے دیکھیں تو عوام کی نمائندگی کرنے کے معاملے میں دونوں پر تقریباً یکساں ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اب ایسی صورت میں اگر مرکز اور کسی ریاست کی زمام اقتدار دو مختلف سیاسی پارٹیوں کے ہاتھ میں ہو تو ریاستی حکومت کے اختیارات اور قانون سازی کے عمل کو صرف اسلئے موقوف نہیں کیا جا سکتا کہ اس سے مرکزی حکومت کی سیاسی انا متاثر ہو سکتی ہے۔
تمل ناڈو، مغربی بنگال اور غیر بی جے پی حکومت والی دیگرریاستوں میں مرکزی اقتدار نواز گورنروں کے ذریعہ جس طرح عوامی مفادات سے وابستہ معاملات کو طویل مدت تک التوا میں رکھا گیا وہ صریح طور پر غیر آئینی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اس مسئلے کا تدارک جس طور سے کیا ہے وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ عوامی نمائندوں کو آئین نے جو سیاسی مرتبہ عطا کیا ہے اس کو کسی تعصب اور جانبداری کے بغیر مستحکم بنانے کی یہ ایک دیانت دارانہ کوشش ہے۔ جب بات عوامی نمائندوں کو ہوگی تو ریاستی ایوانوں کے اراکین کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آخر وہ بھی تو انتخابی سیاست کے ذریعہ ایوان تک پہنچتے ہیں اور ان کی میعاد کار بھی ایک مخصوص مدت تک کیلئے ہوتی ہے۔ اب اگر ریاستی حکومتوں کے مجوزہ قانونی مسودوں کوگورنر کئی مہینوں اور برسوں تک التوا میں رکھے اور اس مدت کو مزید طویل بنانے کیلئے صدرکو حاصل اختیارات کا سہارا لے تو کیا یہ عمل آئین کی رو سے درست ہے؟ اس عمل کو درست کہنے سے قبل عوامی نمائندوں کی سیاسی فضیلت والی اس تھیوری کو بھی مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے جس کی پرزور حمایت میں نائب صدر نے اراکین پارلیمنٹ کے فیصلوں کو آئین کے مترادف قرار دے دیا ہے۔
اگر پارلیمنٹ اراکین کے ہر فیصلے اور اقدام کو آئین کا درجہ دے دیا جائے تو سب سے پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ جن کے متعلق ایسا مثالی اصول وضع کیا جا رہا ہے وہ خود آئین اور قانون کی پاسداری کس حد تک کرتے ہیں ؟ ایسا تو ہے نہیں کہ الیکشن کا مرحلہ سر کرنے کے بعد ایوان میں پہنچنے والے تمام سیاستداں اس سیاسی شعور کے حامل ہوں جو عوامی مفادات اور حقوق کے تحفظ میں کسی تعصب اور جانبدار ی کو آڑے نہ آنے دیں۔ گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ کا سیاسی منظرنامہ جو حقیقت بیان کرتا ہے وہ اس تصور کے عین برعکس ہے۔ اور پھر یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ جن اراکین کی سیاسی فضیلت کا بکھان کیا جارہا ہے وہ خود قانون اور آئین کی پاسداری کس حد تک کرتے رہے ہیں ؟ اس تناظر میں دیکھا جائے تو موجودہ پارلیمنٹ میں ایسے ممبران ۲۵۱؍ یعنی کل تعداد کا ۴۶؍ فیصد ہیں جو کسی نہ کسی شکل میں غیر قانونی یا ناجائز اقدامات یا سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں ۔ ان ممبران پر پولیس تھانہ، ضلع عدالت سے لے کر ہائی کورٹ تک میں مقدمات چل رہے ہیں۔ اسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک ریفارم کے ایک سروے کے مطابق بی جے پی کے ۲۴۰؍ ممبروں میں سے ۹۴؍ ایسے ہیں جو کسی غیر قانونی معاملے میں ملوث رہے ہیں۔ اس معاملے میں دیگر پارٹیوں کی صورتحال بہت مختلف نہیں ہے۔ کانگریس کے ۹۹؍ ممبران میں ۴۹؍، سماج وادی پارٹی کے ۳۷؍ میں سے ۲۲؍، ٹی ایم سی کے ۲۹؍ میں ۱۳؍ اور اسی طرح دیگر پارٹیوں میں بھی ایسے ممبران ہیں جنھوں نے کسی نہ کسی سطح پر قانون کو سبوتاژ کیا ہے۔ چیف جسٹس کو ملک میں مذہبی جنگ کروانے کا ذمہ دار قرار دینے والے نشی کانت دوبے پر گوڈا اور دمکا میں کئی معاملات درج ہیں۔ اب اگر ایسے کردار کے حامل ممبران کے افعال کو آئین کا درجہ دے دیا جائے تو یہ کس زاویے سے مناسب ہوگا؟
جس طرح مقننہ کے اختیارات کی اہمیت مسلم ہے اسی طرح عدلیہ کی عظمت پر بھی حرف گیری نہیں کی جا سکتی۔ انصاف کا عمل اقتدار کی مرضی کا مرہون نہیں ہو سکتا اور ایسی صورت میں تو بالکل بھی نہیں جبکہ ماضی قریب میں الیکٹورل بونڈ جیسے قانون کو سپریم کورٹ غیر آئینی قرار دے چکا ہو اور خود اقتدار نے کسانوں کیلئے بنائے گئے قانون کو اپنے ہی ہاتھوں منسوخ کر د یا ہو۔ ارباب اقتدار عوامی سطح پر ایسا ماحول تعمیر کرنا چاہتے ہیں کہ جیسے سپریم کورٹ آئین کے برعکس اپنے اختیارات سے تجاوز کر کے مقننہ کے دائرہ اختیار میں بیجا مداخلت کرنے کے در پے ہے۔ اس گمراہ کن بیانیہ نے اقتدار پرست عناصر کو یہ حوصلہ بھی دیا ہے کہ وہ عدالت عظمیٰ اور چیف جسٹس کیخلاف شر انگیزی کر رہے ہیں۔ یہ انتہائی تشویش ناک صورتحال ہے جو مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے مابین توازن اور ہم آہنگی کو متاثر کر سکتی ہے۔