• Wed, 01 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’ ڈاکٹر منموہن سنگھ سیاست میں شائستگی اور دیانتداری کی سوغات لے کر آئے تھے! ‘‘

Updated: December 29, 2024, 3:48 PM IST | Mumbai

آنجہانی سابق وزیر اعظم کی صفات اور خدمات پر قومی اخبارات کے صفحات کے صفحات بھرے ہوئے ہیں۔ انقلاب انہی اخبارات میں شائع شدہ مضامین کے اقتباسات ان کالموں میں پیش کررہا ہے۔

During his prime ministerial tenure, Manmohan Singh has always spoken to and respected the media. Photo: INN.
اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں منموہن سنگھ نے ہمیشہ میڈیا سے گفتگو کی ہے اور ان کا احترام کیا ہے۔ تصویر: آئی این این۔

منوج جھا:
وہ خاموش وزیر اعظم نہیں تھے
بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ خاموش وزیر اعظم تھے، مگر اُن کی معاشی فہم اور مہارت نیز اُن کی صاف ستھری شبیہ کی وجہ سے تمام پارٹیوں میں اُن کی قدرومنزلت تھی۔ آج بھی، اُن کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ وہ ملک کے سب سے زیادہ قابل وزیراعظموں میں سے ایک ہیں۔ اُن کی سادا مزاجی اور سادگی سے معمور زندگی اور منکسر المزاجی، جو کہ قومی سیاستدانوں سے بالکل مختلف تھی، اُن کی ہردلعزیزی کا سبب بنی۔ تعلیم یافتہ متوسط طبقہ اُنہیں ایک بیدار مغز سیاستداں کے طور پر جانتا تھا جس نے ملک کی ترقی کیلئے نہایت خاموشی سے اپنی خدمات انجام دیں۔ یہاں یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ ڈاکٹر سنگھ نے قومی یکجہتی کے فروغ کیلئے بھی کافی خدمات انجام دی ہیں۔ تحقیق اور قانون سازی کے ذریعہ اُنہوں نے کثرت میں وحدت کے فلسفے کو فروغ دیا اور تمام فرقوں کیلئے مساوی مواقع کی ضمانت دینے کی کوشش کی۔ وہ اکثر اس بات کا تذکرہ کرتے تھے کہ ہندوستان کی طاقت اس کی کثیر ثقافتی وحدت میں ہے۔ 
چونکہ دانشور تھے اس لئے ڈاکٹر منموہن سنگھ اعلیٰ تعلیم کی توسیع میں یقین رکھتے تھے۔ اُن کی حکومت نے ملک کے طول و عرض میں کئی نئی درس گاہیں (انسٹی ٹیوشن) قائم کیں۔ وہ سائنسی جذبے کو فروغ دینا چاہتے تھے اور اس کیلئے تحقیق اور ترقی کو ضروری سمجھتے ہوئے ان شعبوں کیلئے زیادہ سرمایہ (فنڈنگ) فراہم کرنے کے متمنی تھے۔ انہوں نے کشادہ ذہن کے ساتھ سوچنے کو فوقیت دی اور یونیورسٹیوں میں فکر کی آزادی کو یقینی بنانے پر دھیان دیا تاکہ وہ (یونیورسٹیاں ) تعلیمی تخصص کے مراکز میں تبدیل ہوجائیں جہاں سوچ پر پہرے نہ ہوں بلکہ وہاں کے طلبہ آزادانہ طو رپر سوچ سکیں۔ بہت سے طلبہ نے وہ روداد سنائی کہ جب تعلیمی احاطوں میں طلبہ کا احتجاج جاری تھا تب بھی ڈاکٹر سنگھ نے نہایت خود اعتمادی کے ساتھ وہاں کا دورہ کیا۔ انہوں نے ذاتی دلچسپی کے ساتھ اس بات کو یقینی بنایا کہ یونیورسٹیاں احتجاج کرنے والے طلبہ کو روکنے کی کوشش نہ کریں۔ 
ٹی این نینان:
اُنہوں نے ضرورت سے زیادہ تنقید برداشت کی
اُن کی وزارت عظمیٰ کے دور میں جو بھی واقعات ہوئے اُن کے پیش نظر جتنی تنقید ہوسکتی تھی، اُس سے زیادہ ہوئی۔ اس اعتبار سے کہا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کو ضرورت سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اُن کی حکومت کو کئی طرح کی سختیوں سے گزارا گیا، مثلاً اُنہیں یو پی اے میں شامل دیگر پارٹیوں سے نباہ کرنا تھا جو اپنی کرنے پر تلی رہتی تھیں، اُنہیں بائیں بازو کی پارٹیوں سے جوجھنا پڑا جنہیں رخنہ اندازی سے بالکل بھی گریز نہیں تھا، اُن کی کابینہ میں ایسے لوگ تھے جن کی وفاداری (وزیر اعظم کے بجائے) سونیا گاندھی سے تھی، اس کے علاوہ خود سونیا گاندھی کو بھی اپنی پوزیشن کو مستحکم رکھنا تھا اس لئے اُنہو ں نے اُن سے وفاداری کو ضروری سمجھنے والوں کی حوصلہ شکنی نہیں کی۔ مجھے اپنے خیالات کو ایک جملے میں بیان کرنا ہو تو کہہ سکتا ہوں کہ منموہن سنگھ اقتدار میں تھے لیکن اقتدار کی مکمل باگ ڈور اُن کے ہاتھو ں میں نہیں تھی۔ 
یہی وجہ تھی کہ وہ جتنی اچھی قیادت کا مظاہرہ کرسکتے تھے، نہیں کرسکے۔ ہرچند کہ اُن کا ایقان تھا کہ سیاست ناممکن کو ممکن بنانے کا فن ہے مگر اُنہوں نے خود کو منوانے کی سعی نہیں کی۔ مَیں نے ایک ذاتی ملاقات میں اُن سے یہ بات کہی تھی جس کے جواب میں اُنہوں نے کہا تھا کہ اُن کی سیاسی خواہش اور تمنا کچھ نہیں ہے۔ 
کسی وزیر اعظم کا ایسی بات کہنا خلاف معمول بلکہ خلاف توقع اور حیرت انگیز تھا لیکن ایسا نہیں کہ سونیا گاندھی اُنہیں صرف روکتی ٹوکتی رہیں۔ اس معاملے میں سونیا گاندھی کی بھی ستائش کی جانی چاہئے کہ ڈاکٹر سنگھ کے کئی اقدامات کے پیچھے دماغ سونیا گاندھی کا تھا۔ اس سلسلے میں حق معلومات کے قانون، غذا کے قانون اور منریگا جیسی اسکیموں کا خاص طور پر ذکر کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر سنگھ نے کسانوں کی قرض معافی کا جو بلند حوصلہ قدم اُٹھایا تھا اُسے بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ 
جہاں تک ذاتی خوبیوں اور خصوصیات کا تعلق ہے مَیں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا ککہ ڈاکٹر منموہن سنگھ غیر معمولی غوروخوض اور فہم و فراست کے مالک تھے، بعض اوقات کچھ شگوفے بھی چھوڑتے جس سے اندازہ کیا جاسکتا تھا کہ اُن میں ہنسے ہنسانے کا بھی مادہ ہے۔ ۱۹۹۶ء میں مَیں نے کہا تھا کہ نرسمہا راؤ کی حکومت معاشی اصلاحات کے علاوہ انتخابی منشور میں کچھ بھی درج نہیں کرپائے گی تو اُنہوں نے پہلو بدلے بغیر کہا تھا: اس کے علاوہ کچھ ہے جس پر بات کرنی ہے؟ ایسی تھی اُن کی حس مزاج۔ n
شیو شنکر مینن:
سیاست میں مشکل سے ملنے والا شریف آدمی
سیاست کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کہ کیا ہے اور اس میں کیا کچھ ہوتا رہتا ہے مگر ڈاکٹر منموہن سنگھ سیاست کے ایسے شریف آدمی تھے کہ جس کا ملنا مشکل نہیں کچھ زیادہ مشکل ہے۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ وہ سیاستداں تھے ہی نہیں، اسی لئے جب سیاست میں آئے تو اپنے ساتھ شائستگی اور دیانتداری کی سوغات لے کر آئےجس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ وہ ایک ایسے لیڈر تھے جس نے ہندوستان کو بدل دیا۔ 
کوئی بھی لیڈر اپنے ماضی کے تجربات اور مستقبل کے تعلق سے نظریہ کے درمیان اپنی خدمات انجام دیتا ہے۔ انہیں اس بات کا طویل تجربہ تھا کہ ہندوستان کیسا ہے اور یہاں کی حکومت کس طرح کام کرتی ہے۔ انہیں یہ بھی علم تھا کہ ہندوستان جیسا ہے ویسا کیوں ہے مگر یہ خالی خولی ماضی میں رہنے والی بات نہیں تھی بلکہ اُن کے پاس ماضی کا تجربہ اور مستقبل کا منصوبہ تھا۔ وہ تمنائی ضرور تھے مگر اپنے مستقبل کے تمنائی نہیں بلکہ ملک کے مستقبل کے۔ وہ ایسے ہندوستان کا خواب نہیں دیکھ رہے تھے جو لسانی اور مذہبی بنیادوں پر منقسم ہو بلکہ وہ تمام ہندوستانیوں کے وبہتر مستقبل کو تراشنے کا جذبہ اور نگاہ رکھتے تھے۔ 
این کے سنگھ:
کانگریس میں بھی اتفاق رائے کا مسئلہ تھا
مَیں ڈاکٹر منموہن سنگھ کو اُس وقت سے جانتا تھا جب ۱۹۷۱ء میں وہ بیوروکریسی میں آئے تھے۔ مگر جب اُنہوں نے وزیر اعظم کی حیثیت سے عہدہ سنبھالا تو اُن کے لئے حالات سنبھالنا اتنا آسان نہیں تھا جتناکہ اُن کی وزارتِ مالیات کے دور میں تھا۔ اب اُنہیں کانگریس میں بھی اتفاق رائے کی کوشش کرنی پڑتی تھی اور اتحادی پارٹیوں سے بھی صلاح مشورہ کرنا پڑتا تھا۔ معاشی اصلاحات کا جو فائدہ ملک کو ملنا تھا کافی کچھ مل چکا تھا، اب اُن کے سامنے بڑا چیلنج تھا کہ باقی ماندہ اصلاحات کیلئے راہ ہموار کی جائے۔ (اُنہیں کمزور وزیر اعظم کہنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ) منموہن سنگھ نے امریکہ سے نیوکلیائی معاہدہ کے وقت انہوں نے سخت موقف اختیار کیا تھا جس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ جو سوچ لیتے ہیں کرگزرنے کا بھی حوصلہ رکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے امریکہ سے نیوکلیائی معاہدہ پر اتنا اصرار اس لئے کیا کہ وہ اس کے ذریعہ ہندوستان کو بیرونی سرمایہ کاری کیلئے پُرکشش ملک بنانے کے خواہشمند تھے۔ 
ڈاکٹر سنگھ حالات کی تبدیلی کیلئے لازمی سیاسی معیشت کو بروئے کار لانے کا فن جانتے تھے۔ یہ ہندوستان کے شہریوں پر اُن کا قرض ہے کہ انہوں نے ملک کو ترقی اور نمو کی ایسی راہ پر گامزن کیا کہ ہمارا ملک اقوام عالم میں وہ مقام حاصل کرپایا جس کا وہ مستحق ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK