ہریانہ اور جموں کشمیر میں ہونے والے انتخابات کے نتائج مختلف اشارے دیتے ہیں۔ جموں کشمیر کے نتائج علاقائی پارٹیوں اور علاقائی مسائل کی اہمیت کو تقویت دیتے ہیں، جبکہ ہریانہ کے نتائج بتاتے ہیں کہ دو قومی جماعتوں یعنی بی جے پی اور کانگریس کے درمیان آمنے سامنے کے مقابلے میں علاقائی پارٹیاں ٹھکانے لگ جاتی ہیں۔
الیکشن کمیشن آف انڈیا۔ تصویر : آئی این این
ہریانہ اور جموں کشمیر میں ہونے والے انتخابات کے نتائج مختلف اشارے دیتے ہیں۔ جموں کشمیر کے نتائج علاقائی پارٹیوں اور علاقائی مسائل کی اہمیت کو تقویت دیتے ہیں، جبکہ ہریانہ کے نتائج بتاتے ہیں کہ دو قومی جماعتوں یعنی بی جے پی اور کانگریس کے درمیان آمنے سامنے کے مقابلے میں علاقائی پارٹیاں ٹھکانے لگ جاتی ہیں۔ اس ایک واضح فرق کے باوجود دونوں ریاستوں کے نتائج سے ایک ہی پیغام ملتا ہے کہ سخت محنت، حکمت عملی اور شاطرانہ انتخابی نظم سے عوامی تاثر کو بھی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
جموں کشمیر میں، کانگریس کے ساتھ اتحاد میں نیشنل کانفرنس (این سی) ۳۵ء۴؍ فیصدووٹوں کے ساتھ اکثریت (۹۰؍ میں سے۴۸؍ نشستیں ) حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ بی جے پی کو ۲۵ء۶؍ فیصدووٹوں کے ساتھ۲۹؍ سیٹیں ملیں۔ ان تین جماعتوں کے علاوہ باقی سب نے مل کر ۲۰ء۲؍ فیصد ووٹ حاصل کئے۔
اس کے برعکس، ہریانہ میں، جہاں ایک وقت میں انڈین نیشنل لوک دل (آئی این ایل ڈی) جیسی مضبوط علاقائی پارٹی کی حکومت ہوا کرتی تھی اور دیوی لال جیسے مقبول اور طاقتور وزیر اعلیٰ تھے، آج علاقائی پارٹیاں پوری طرح سے حاشئے پر چلی گئی ہیں۔ ریاست کی کل ۹۰؍ سیٹوں میں سے دونوں قومی پارٹیوں نے ۷۹ء۱؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ۸۵؍ سیٹیں جیت لیں۔ یہ اُس صورت میں ہوا، جبکہ بڑی تعداد میں علاقائی جماعتیں اور آزاد امیدوار میدان میں تھے۔ ان تمام نے مل کر صرف۵؍ نشستیں (۳؍ آزاد امیدواروں سمیت) حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی جبکہ ان کے ووٹوں کی شرح ۲۰ء۹؍ فیصد رہی۔
دونوں ریاستوں کے مختلف نتائج کے باوجود وہ ایک ہی پیغام دیتے ہیں کہ کسی پارٹی کے مضبوط ہونے اور الیکشن جیتنے کے تصور کو نچلی سطح پر محنت کرنے اور اچھی حکمت عملی بنا کر توڑا جا سکتا ہے۔ ہریانہ میں بی جے پی نے زمینی سطح پر کام کرکے اور بہترین حکمت عملی کے ذریعے کانگریس کے ہاتھ سے الیکشن چھین کر اپنے حق میں کرلیا۔ کانگریس نے یہی کام این سی کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے جموں میں کیا۔ وہاں پر ہندو اکثریتی جموں کو بی جے پی کا گڑھ ہونے کے تصور کو کانگریس نے غلط ثابت کر دیا۔
اسمبلی انتخابات اکثر کسی پارٹی کی شکست اور اس کی اہم حریف جماعت کی جیت کے ارد گرد ہوتے ہیں۔ ہریانہ کے انتخابات اس کی ایک مثال ہیں۔ ریاست میں دس سال تک اقتدار میں رہنے کے بعد بی جے پی کی قیادت والی حکومت کو کسانوں، جوانوں اور پہلوانوں کے ساتھ ہی دیگر کئی محاذوں پر عوام کی بے اطمینانی کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن اس کے ساتھ ہی ووٹرس کو کچھ فلاحی اسکیموں جیسے بجلی، پانی، سڑک، اسکول اور اسپتال پر اطمینان بھی تھا۔ حکومت کی کارکردگی پر ووٹرس کے درمیان زبردست اختلاف کی وجہ سے کانگریس اور بی جے پی کے درمیان سخت مقابلہ ہوا۔ اگر ووٹ شیئر کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو دونوں کے درمیان صرف اعشاریہ ۸؍ فیصد کا ہی فرق تھا۔
کانگریس کی شکل میں ایک واضح، مضبوط اور قابل عمل متبادل کی موجودگی نے ووٹرس کو اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے کا موقع دیا، لیکن یہ کانگریس کی جیت کو یقینی بنانےکیلئے کافی نہیں تھا۔ ہریانہ میں واضح طور پر دو رُخی مقابلہ دیکھنے میں آیا، جس میں علاقائی کھلاڑی کو سیاسی حاشئےپر دھکیل کر چھوٹے چھوٹے خطوں میں محدود کردیا گیا۔ اگرچہ بی جے پی اور کانگریس کے امیدواروں کے بارے میں ووٹرس کے درمیان خدشات موجود تھے، لیکن ووٹروں کی ایک بڑی تعداد نےاس کے بعد بھی پارٹی لائن کے ساتھ ہی ووٹ دیا۔
اس کے ساتھ ہی جموں کشمیر میں پرامن اور نسبتاً تشدد سے پاک انتخابات کاا نعقاد عمل میں آنا اور ووٹروں کا بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کیلئے باہرنکلنا، اپنے آپ میں ایک اہم کامیابی اور جمہوریت کی فتح ہے۔ نیشنل کانفرنس، کانگریس اتحاد نے بھلے ہی اکثریتی نشستیں حاصل کرلی ہوں، لیکن جموں خطہ اور وادی کشمیر کے درمیان ووٹنگ کے انداز میں واضح تقسیم دکھائی دی۔ جموں میں رائے دہندگان نے بی جے پی کو زیادہ ووٹ دیئےجبکہ وادی میں بی جے پی کی کارکردگی نہایت ہی خراب رہی۔ ووٹرس نے جموں کشمیر میں ریاست کی بحالی کیلئے شدید جذبات کا اظہار کیا، لیکن دفعہ ۳۷۰؍ کی بحالی کیلئے ان میں کوئی خاص جوش و خروش نظر نہیں آیا۔
وادی میں ریاستی حیثیت اور آرٹیکل۳۷۰؍ کی بحالی کیلئے حمایت جموں خطے کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی۔ جموں کشمیر میں مینڈیٹ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ بنیادی طور پر ریاست کی بحالی کے ساتھ ہی اپنی نئی حکومت کے انتخاب کیلئے ووٹ تھا۔ جموں کشمیر میں ایک اور بات بہت صاف ہے۔ الیکشن پر علاقائی مسائل حاوی رہے اور رائے دہندگان کی بڑی تعداد نے پارٹی کے بجائے امیدوار کو ووٹ دیا۔ ایسے میں وہاں بننے والی نئی حکومت کو جموں اور وادی کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج کو پر کرنے کیلئے اضافی کوششیں کرنی ہوں گی۔