Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

سوچئے، تحفہ دے کر بھی کسی کو ذلیل کیا جا سکتا ہے!

Updated: March 30, 2025, 1:03 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

’’سوغاتِ مودی‘‘ کا مقصد کیا ہے؟ کیا یہ مسلمانوں کے احساس محرومی کا مضحکہ اُڑانا ہے یا اس کو پارٹی کی انتخابی سیاست سے جوڑ کر دیکھنا چاہئے؟

Through "Modi`s Gift", the government wants to convince people that it cares about Muslims. Photo: INN.
’’سوغاتِ مودی‘‘کے ذریعے حکومت باور کرانا چاہتی ہے کہ اسے مسلمانوں کا خیال ہے۔ تصویر: آئی این این۔

کبھی کبھی انسانی برتاؤ کا انوکھا اندازماہرین نفسیات کے ان تحقیق شدہ تصورات اور نظریات کے عین برعکس ہوتا ہے جن کی بنا پر کسی انسان کی ذہنیت اور فطرت کے متعلق کوئی رائے قائم کی جاتی ہے۔ یہ صورتحال عموماً اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی شخص اپنی عادت اور فطرت کے برخلاف کوئی عمل انجام دیتا ہے۔ ایسے متضاد رویہ کو بروئے کار لانے والا شخص اکثر اپنی دل لگی کیلئے دوسروں کی بظاہر دلجوئی کی خاطر خطیر سرمایہ صرف کر دینے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ انسانی برتاؤ کے اس روپ کے متعلق ماہرین نفسیات کا یہ ماننا ہے کہ اس ظاہری عمل کا اصل مقصد ان افراد کی تذلیل اور تضحیک کرنا ہوتا ہے جن سے مصنوعی انس کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ انسانی سماج میں ایسے لوگوں کو تلاش کرنا کچھ مشکل نہیں جن کی زندگی کا تانا بانا ایسے ہی متضاد رویہ سے تشکیل پاتا ہے۔ اقتدار کی جانب سے ہندوستانی مسلمانوں کو عید کی سوغات دینے کاعمل بھی کچھ اسی نوعیت کا حامل ہے۔ بعض سادہ لوح قسم کے لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ملک کے تمام باشندوں کے ساتھ مساوی سلوک اقتدار اعلیٰ کے منصبی فرائض میں شامل ہے لہٰذا اس سوغات کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ اقتدار اور عوام کے باہمی ربط کے حوالے سے یہ تصور دراصل آئین کے ان ضابطوں پر مبنی ہے جن کی تعمیل جمہوریت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ 
گزشتہ ایک دہائی کے دوران جمہوریت کے ان تقاضوں کو جس طور سے برتا گیا، اس سے سماج میں کئی سطحوں پر عدم مساوات کے مظاہر رونما ہوئے۔ ان میں خصوصی طور سے ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ اقتدار اور انتظامیہ کے امتیازی برتاؤ کی متعدد مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ زندگی کے ہر شعبے میں اس قوم کا قافیہ تنگ کرنے کی کوشش کی گئی۔ سماج میں مذہبی منافرت کے بڑھتے رجحان پر قدغن لگانے کے بجائے اقتدار نے اسے مزید ہوا دی۔ 
بھگوا پارٹی کی حکومت کا یہ دورانیہ اس حبس ناک ماحول سے مشابہ ہے جس میں ہندوستانی مسلمان نہ تو کھل کر سانس لے پارہا ہے اور نہ ہی زندگی میں مساوی ترقی کے ان مواقع سے فیض اٹھا پا رہا ہے جو مواقع آئین نے ہر ہندوستانی شہری کو یکساں طور پرفراہم کئے ہیں۔ سماج میں مذہبی منافرت کے رجحان کو بڑھاوا دینے والی سیاسی حکمت عملی نے ہندوستانی مسلمانوں کو خوف و ہراس اور عدم تحفظ کی کیفیت مسلسل میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ایسے حالات میں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ شرپسندوں کی شناخت ان کے لباس سے کرنے کا فارمولہ وضع کرنے والے آخر کس جذبے کے تحت عید کے موقع پر لباس اور میوہ جات وغیرہ تقسیم کر رہے ہیں ؟
بی جے پی کا مائنارٹی سیل اس ’سوغات‘ کو ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس ‘کے موقف کی تعمیل قرار دے رہا ہے۔ صرف ایک پیکٹ ’سوغات‘ اس دعوے کی صداقت کو ثابت نہیں کرتا۔ اس کیلئے گزشتہ ایک دہائی کے دوران اقتدار کے ان اقدام کو بھی مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے جن سے اس حکومتی موقف کی حقیقت عیاں ہوتی ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے توہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی ترقی اور معاشی خوشحالی کے اسباب مہیا کرنے والے بیشتر منصوبے یا تو منسوخ کر دئیے گئے یا انہیں دانستہ طور پر معرض التوا میں ڈال دیا گیا ہے۔ مولانا آزاد فاؤنڈیشن کو ختم کرنا، ملک گیر سطح پر مدارس کو بند کرنے یا انہیں ملنے والی سرکاری امداد ختم کرنے کی مہم کا جاری رہنا اور ایسے اقدام کو سرکاری حمایت حاصل ہونا، یہ ثابت کرتا ہے کہ اقتدار کو ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اسی مہینے اتراکھنڈ میں ۱۳۶؍ مدرسوں کو بند کر دیا گیا۔ ۱۷؍ مارچ کو راجیہ سبھا میں ٹی ایم سی ممبر ڈیرک او برائن کے ایک سوال کے جواب میں اقلیتی امور کے مرکزی وزیر کرن رجیجو نے بتایا کہ مدرسہ تعلیم کیلئے مختص رقم تقریباً صفر کر دی گئی ہے جبکہ ۲۰۲۱۔ ۲۲ء میں یہ رقم ۱۷۴؍ کروڑ تھی۔ مدرسہ تعلیم کے علاوہ زندگی کے دیگر معاملات میں بھی مسلمانوں کے خلاف مذہبی منافرت اور اقتدار کا امتیازی سلوک اس قدر عام ہوگیا ہے جس نے ان کا چین و سکون غارت کر دیا ہے۔ اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ نے کئی موقعوں پر ایسے بیانات دئیے ہیں جو ان کی مسلم دشمنی کو ظاہر کرتے ہیں۔ انہوں نے لو جہاد، لینڈ جہاد، تھوک جہاد اور مزار جہاد جیسے نفرت آمیز اقدام کی کھلے طور پر حمایت کی۔ 
اتراکھنڈ کے علاوہ ملک کی وہ دیگر ریاستیں جہاں بھگوا پارٹی بر سر اقتدار ہے، ان ریاستوں میں حکومتی سطح پر ایسے اقدام معمول کا جزو بن گئے ہیں جن کا مقصد مسلمانوں کی تضحیک اور انہیں خوفزدہ کرنا ہے۔ اس ضمن میں یوپی، آسام، ہریانہ، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش اور راجستھان جیسی ریاستوں کا ذکر بطور خاص کیا جا سکتا ہے۔ مسلمانوں کے مذہبی اور ثقافتی امور کو ہدف بنا کر ان کے خلاف سماج میں نفرت پھیلانے والی سیاسی حکمت عملی، بھگوا گروہ کا پسندیدہ شیوہ رہا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ اقتدار کے امتیازی اور بعض اوقات متضاد رویہ کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جس وقت انہیں ’سوغات‘ دی جارہی ہے اسی وقت میرٹھ اور سنبھل پولیس کے افسران عید کی نماز پر قد غن لگانے والے اعلانات بھی کررہے ہیں۔ ہریانہ حکومت نے عید کی عام تعطیل کو ’رسٹرکٹیڈ ہالی ڈے‘ کے خصوصی زمرے میں شامل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اب ہریانہ کے جن ملازمت پیشہ مسلمانوں کو ’سوغات‘ ملے گی انہیں عید کے دن اس سوغات سے محظوظ ہونے کیلئے چھٹی کی درخواست دینی پڑے گی۔ 
سوغات کی شکل میں اقتدار اعلیٰ کی یہ دل لگی صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی نہیں ہے بلکہ ان نیتاؤں کے ساتھ بھی ہے جن کی سیاست میں مسلمانوں کی تنقیص اور تذلیل کو نمایاں جزو کی حیثیت حاصل ہے۔ کانگریس اور دیگر سیکولر پارٹیوں پر مسلمانوں کی دلجوئی کرنے کا الزام عائد کرنے والے زعفرانی نیتاؤں کی سوغات پر خاموشی ان کی مجبوری اور خوف دونوں کو عیاں کرتی ہے۔ اس حوالے سے کبھی ادھو ٹھاکرے کو ’چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے‘ کا مشورہ دینے اور سیکولر پارٹیوں سے ان کے اتحاد کو ہدف ملامت بنانے والے قد آور لیڈروں کو اس سوغات نے ایسی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے کہ اب ان سے کچھ کہتے نہیں بن رہا۔ مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ اور موجودہ نائب وزیر اعلیٰ، جنھوں نے ہندوتوا کی سیاست ترک کردینے اور سیکولر اتحاد میں شامل ہونے پر ادھو کے خلاف بغاوت کرکے ریاست کی حکومت ہتھیا لی تھی، وہ اس سوغات کو کس نظر سے دیکھ رہے ہیں ، یہ اہم سوال ہے۔ 
یہ سوغات دراصل یہ احساس دلانے کا سیاسی حربہ ہے کہ ہم وہ حاکم و مالک ہیں جو اپنی خواہش اور مرضی کو ان اصولوں اور ضابطوں سے بالاتر سمجھتے ہیں جن اصولوں اور ضابطوں کو آئین نے سیکولر جمہوریت کیلئے لازمی قرار دیا ہے۔ مسلمانوں کو عید کی سوغات عطا کرنے والے حاکم کی اس فراخد لی کا بھی جواب نہیں جومسلمانوں کے خلاف ہجومی تشدد پر اگر لب کشائی کرتا ہے تو محض دو چار رسمی جملے ادا کر دینے کو کافی سمجھتا ہے۔ اپنی پارٹی کے ممبر کے ذریعہ پارلیمنٹ میں مسلمان ایم پی کو دہشت گرد کہنے پر کچھ نہیں کہتا۔ یوپی، آسام، ایم پی، ہریانہ، مہاراشٹر کے بی جے پی وزرائے اعلیٰ اور دیگر لیڈروں کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف دھمکی اور نفرت زدہ بیان دینے پرکوئی رد عمل نہیں ظاہر کرتا۔ 
یہ ایک پیکٹ سوغات گزشتہ ایک دہائی کے دوران زندگی کے مختلف شعبوں میں ہندوستانی مسلمانوں کوملنے والے ان زخموں کو مندمل کرنے میں ناکافی ہے جن زخموں نے اس قوم کو محرومی اور عدم تحفظ کی دائمی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ایسانہ ہو کہ اس ایک پیکٹ سوغات کے عوض میں قوم کے ان وسائل کو ہڑپ لیا جائے جو وقف کی صورت میں انہیں حاصل ہیں ؟ 
سوغات کی اصل حقیقت جو بھی ہو، وقت آنے پر وہ عیاں ہوہی جائے گی فی الحال اس نادر تحفہ کے ذریعہ مسلمانوں کے احساس محرومی کی تضحیک سے حظ اٹھانا اقتدار اعلیٰ کا اصل مقصد ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK