Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’ابّو!میں واپس آئوں گا‘‘

Updated: April 13, 2025, 2:27 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

آج مختلف وجوہات کی بناء پر ہمارے ہزاروں نوجوان بیرون ملک پڑھنے یا ملازمت حاصل کرنے اور ایک بڑی تعداد مستقل طور پر قیام پزیر ہونے کیلئے تگ ودو کر رہی ہے۔ اس ضمن میں کچھ والدین و بڑے بزرگ مطمئن رہتے ہیں البتہ بڑی تعداد فکر مند اور نالاں بھی دِکھائی دیتی ہے۔ اسی تعلق سے ایک نوجوان اور اُس کے ابّا کے درمیان گفتگو کے میسیج۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

ابّا : وعلیکم السلام۔ ہاں تم نے کہا تھا، اطمینان سے رات میں میسیج سے بات چیت کرتے ہیں، تو تم کیا کہنا چاہتے تھے؟
بیٹا: یہی کہ گریجویشن کے بعد اب پوسٹ گریجویشن کیلئے ملک سے باہر جانا چاہتاہوں، میں نے آن لائن دیکھا ہے۔ چند یونیورسٹیوں میں داخلہ ممکن ہے۔ فیس کیلئے میں نے ایجنٹ سے بات کی ہے، وہ قرض کا انتظام بھی کرسکتا ہے۔ ۲؍سال کا پی جی کورس ہے، پارٹ ٹائم میں کچھ کام مل جاتا ہے تو کم و بیش فیس کی آدھی رقم کا انتظام بھی ہوجاتاہے۔ 
ابّا : فیس کیلئے ریٹائرمنٹ کے بعد ملی رقم مَیں تمھیں دے سکتا ہوں، قرض لینے کی ضرورت نہیں البتہ کیا پوسٹ گریجویشن کا یہ کورس یہاں کی یونیورسٹیوں میں ممبئی، بنگلور، چنئی کہیں نہیں ہے؟ بیرون ملک جانے کی ضرورت کیا ہے؟ 
بیٹا : ضرورت ہے۔ اب تو ضرورت ہے۔ 
ابّا :اب تو...... یعنی کیا؟
بیٹا:نہیں ابّو، اب تو یہاں رہ کر کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ حالات خراب ہیں اور اِکانومی تو بدسے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ 
ابّا : اِکانومی تو سب کیلئے خراب ہے تو کیا ۱۴۰؍کروڑ لوگ سبھی دوسرے ملکوں میں چلے جائیں ؟
بیٹا: میں اپنی قوم کی بات کر رہا ہوں۔ 
ابّا : ہم بھی ۲۵؍کروڑ ہیں۔ ہماری بنیادیں یہاں سے وابستہ ہیں۔ ہماری تاریخ....... 
بیٹا: ابّو، دادا جان بھی زندگی بھر’میرے دیش کی دھرتی‘ کا گانا گاتے رہے۔ گورنمنٹ کے کلاس وَن آفیسر کے طور پر ریٹائر ہوئے اور ایک بار ٹرین کے ایک سفر کے دوران ایک معمولی حولدار اُن کے شناختی کارڈ کی بے عزّتی کررہا تھا۔ میں نے خود دیکھا ہے، گرچہ میں ساتویں جماعت میں تھا۔ 
ابّو: یہ معمولی بات ہے، ہر ملک میں ایسا ہوسکتا ہے۔ ویسے تم دوسال کے پی جی کورس کیلئے کس ملک میں جانا چاہتے ہو؟ 
بیٹا: کینیڈا یا نیو زی لینڈ، اِن ملکوں کی یونیورسٹیوں میں میرا داخلہ ہورہا ہے۔ زبانی ابتدائی امتحان میں پاس ہوچکاہوں۔ 
ابّا: زبانی امتحان ہی میں داخلہ ہوجاتا ہے یعنی کیا وہ یونیورسٹیاں واقعی معیاری ہیں ؟
بیٹا: ابّو، میں نے بھی یہی سوچا تھا مگر اُن کا ٹیسٹ کچھ آسان نہیں تھا۔ میرے چند اور مسلم ساتھی بھی اس امتحان میں پاس ہوئے ہیں۔ 
ابّا: وہ بھی جانا چاہتے ہیں کیا؟ 
بیٹا: وہ سبھی بھاگنا چاہتے ہیں۔ 
ابّا: یہ بھاگنا کیا ہوتا ہے؟ بھاگنا یعنی کیا؟
بیٹا: بھاگنا ہی ہے۔ ابّو آپ خوب جانتے ہیں کہ یہاں نوکریاں نہیں مل رہی ہیں۔ حکومت کی ملازمتوں میں ہزاروں جگہیں خالی ہیں البتہ حکومت اُن کی بھرتی نہیں کرتی کیوں کہ اُن کی تنخواہ دینے کیلئے حکومت کے پاس رقم نہیں ہے۔ 
ابّا: حالات بدلیں گے، حکومت بھی بدلے گی، منریگا، جیسی اسکیمیں دوبارہ شروع ہوجائیں گی۔ معیشت کی گاڑی پھر پٹری پر آجائے گی۔ 
بیٹا: امّی بھی یہی کہتی ہیں ..... میں یہ نہیں کہتا کہ یہ محض خوش فہمی ہے البتہ......
ابّا:اچھا یہ بتائو تم بیرون ملک جو دو سالہ پوسٹ گریجویشن کا کورس کرنا چاہتے ہو، اُس کے بعد کیاکروگے؟
بیٹا: پھر چند سال وہیں پر نوکری کروں گا۔ 
ابّا : پھر ؟
بیٹا: پھر چند برس بعد میں واپس آجائوں گا۔ 
ابّا: واپس آئوگے؟ ناممکن۔ کیوں واپس آئوگے؟ وہاں تنخواہ کا اسکیل اچھا رہے گا توتم واپس کیوں آئوگے؟ 
بیٹا : چند برس بعدآئوں گا۔ تھوڑا روپیہ کمائوں گا، پھر آجائوں گا۔ 
ابّا: آج تک کوئی واپس نہیں آیا۔ سب نوجوان اپنے ماں باپ کو جھانسا دیتے ہیں کہ وہ واپس آئیں گے مگر کوئی واپس نہیں آتا۔ امّی، ابّا جب وطن آنے کیلئے اصرار کرتے ہیں توویسے ہی اُن کا بیٹا فوراً دیکھتا ہے کہ ڈالر کا ریٹ کیاہے؟ ٹکٹ کتنی سستی ہے، کتنی مہنگی، پھر کہتے ہیں کہ ابّو، ابھی تو نہیں البتہ وعدہ کرتا ہوں کہ اگلے سال ضرور آئوں گا۔ پکّا وعدہ!
بیٹا: میں تو......
ابّا : پھر جب بیرونی ملکوں میں گھر کام کرنے کیلئے نوکرانی نہیں ملتی یا مہنگی ملتی ہے تب وہ امّی، ابّا کو لکھتا ہے کہ مجھے امّی ابّو کی بہت یاد آرہی ہے میں دونوں کیلئے ویزا بھیج رہاہوں۔ 
بیٹا: ابّو، لیکن آپ تو مجھے جانتے ہیں۔ مجھے ابّو، امّی زندگی بھر ساتھ میں چاہئے، ہمیشہ ہمیشہ..... البتہ اب جو حالات بھی یہاں بن رہے ہیں ...... 
ابّا: حالات ہر دَور میں خراب ہی دِکھائی دیتے ہیں کب کس کو اور کس دَور میں حالات موافق ملے ہیں ؟
بیٹا:ابّو، ابھی تو ہر دوسرا نہ سہی، تیسرا مسلم نوجوان اس ملک سے باہر جانا چاہتا ہے۔ 
ابّا: تمہاری یہ نئی نسل ساری ٹیکنالوجی سے کنکشن کئے ہوئے ہے لیکن زندگی سے کٹی ہوئی ہے۔ اس ملک کے اس دَور کو فوراً مشکل دَور، پُر فتن دَور، پُر آشوب دَور وغیرہ وغیرہ کہتے ہیں جب کہ اُسے صرف کہنا چاہئے کہ آزمائشی دَور ہے۔ 
بیٹا: ابّو! مگر کس قدر آزمائشی دَور؟مجلس عاملہ، مجلس مقنّنہ، سب کچھ اگر اکثریتی رنگ میں رنگ جائے تو اُمید کہاں بچتی ہے؟
ابّا: یہ بتائو بیٹا کالج کے تمہارے غیر مسلم دوست تم سے متنفّر ہوگئے؟ اُن میں سے کوئی تم سے نفرت کرتا ہے کیا؟
بیٹا: نہیں ابّو! وہ سب دوست اب بھی میرے دوست ہیں۔ 
ابّا: اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ نفرت کا یہ بازار صرف جہالت کی بناء پر ہے، ابھی آس باقی ہے، علمی، تعلیمی سطح پر ابھی آس باقی ہے۔ پھر بیرونی ملک میں بھی ممکن ہے تم کو یہ سب سہنا پڑے گا۔ سب سے پہلے تو تم وہاں پہنچنے کے بعد یا تو ’تارک وطن‘ یا ’مہاجر‘ کے نام سے پُکار ے جائو گے۔ مقامی لوگوں کے طعنے بھی سہنے پڑیں گے، اُنہیں بار بار تمہیں یقین دِلانا ہوگا کہ تم اُن کا حق چھیننے نہیں آئے ہو بلکہ اُن کے ملک کی ترقی میں ہاتھ بٹانے آئے ہو۔ 
بیٹا: جی۔ 
ابّا: تم تو پانی کا گلاس بھی اپنے ہاتھ سے نہیں لیتے تھے، امّی دیتی تھیں اور وہاں جاکر تمہیں خود کھانا بناناپڑے گا، برتن دھونے پڑیں گے، کپڑے دھونے پڑیں گے، درجۂ حرارت وہاں ایسا بھی ہوتا ہے کہ گلاس میں پانی ڈالتے ہی وہ برف بن جاتا ہے اور وہ جو تم پارٹ ٹائم کام کی بات کر رہے تھے نا اُس میں تم کو کسی کی گاڑی بھی دھونی پڑے گی یا کسی کے باغ کے پودوں کو پانی ڈالنا پڑے گا۔ 
بیٹا: میں تو صرف چند برسوں کیلئے جانا چاہتا ہوں .....
ابّا: مجھے سب سے بڑا خدشہ یہ رہتا ہے کہ وہاں دوسری قوموں کی لڑکیاں مسلم نوجوانوں کو اپنے جال میں پھانس لیتی ہیں۔ کبھی دولت، کبھی ذہانت اور کبھی خوبصورتی سے ہمارے لڑکے متاثر ہوجاتے ہیں اور پھر وہاں سے وہ اپنے ساتھ کسی ’میم‘ کولے آتے ہیں۔ پھر نسلیں تباہ ہوجاتی ہیں، بیٹا نسلیں !
بیٹا: ابّو! ایسا نہیں ہوگا ابّو۔ مَیں زندگی میں ایسا کوئی کام نہیں کروں گا جس سے آپ کو یا امّی کو تھوڑی بھی تکلیف پہنچے یا ہمارے دین و تہذیب پر ذرّہ برابر بھی آنچ آئے۔ میں صرف کچھ عرصے کیلئے باہر جائوں گا۔ واپس آکر آپ سبھی کے ساتھ رہوں گا۔ نکاح آپ لوگوں کی مرضی ہی سے کروں گا۔ میں ہمیشہ کیلئے ہرگز ہرگز نہیں جارہا ہوں۔ میں واپس آئوں گا ابّو۔ میں واپس آئوں گا۔ آپ کی اس رہنمائی کیلئے شکریہ ابو۔ 
ابّا: میری نصیحت تو وہی ہے جو حکیم الامّت اقبال نے اپنے بیٹے جاوید کو کی تھی:
میرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے  
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
بیٹا: جزاک اللہ ابّو۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK