Inquilab Logo Happiest Places to Work

پکوڑے سے پنکچر تک، بیانیےاور کتنے پست ہوں گے؟

Updated: April 20, 2025, 2:35 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai

پنکچر بنانے کے پیشے کو بے روزگار مسلم نوجوانو ں سے جوڑ کر وزیر اعظم نے ثابت کردیا کہ انہیں اور ان کی حکومت کو حقیقت حال کا اندازہ ہی نہیں ہے۔

Prime Minister Modi often disregards the dignity of his position while making political statements. Photo: INN.
وزیراعظم مودی سیاسی باتیں کرتے ہوئے اکثر اپنے عہدے کے وقار کا خیال نہیں رکھتے۔ تصویر: آئی این این۔

وقف ترمیمی قانون کو حکومت نے اکثریت کے بل پر دونوں ایوانوں میں منظورکرالیا ہے لیکن اس کے نفاذ پر سپریم کورٹ نے فی الحال روک لگا دی ہے اور کچھ شقوں کے تعلق سے حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔ یعنی یہ ایک حساس موضوع ہے اور یہ توقع کی جاسکتی ہےکہ سیاسی لیڈرجب اس موضوع پر بات کریں گے تواس کی حساسیت کو پیش نظر رکھیں گے۔ لیکن، ایسی کتنی ہی توقعات ہیں جو ا س ملک میں سیاسی لیڈروں اور پارٹیوں سے وابستہ کی جاتی ہیں ، کی گئی ہیں اوراب بھی کی جارہی ہیں اور کتنے ہی لیڈر اورپارٹیاں ہیں جو ان توقعات پر پورا نہیں اترتیں بلکہ انہیں تو یہ احساس و ادراک بھی نہیں ہوتا کہ عوامی توقعات ہیں کیا اورعوام ان سے یہ توقعات کیوں اور کیسے وابستہ کرلیتے ہیں ؟ وقف قانون کے تعلق سے وزیر اعظم مودی نے گزشتہ دنوں حصار میں جوبات کہی، اس سے یہی ثابت ہوتا ہے! پھر جب ملک کے وزیر اعظم کواپنے بیان کے پس منظر، نوعیت اور معنویت کا احساس نہ ہوتوپھرکس سیاسی ہستی سے کون سا طبقہ کون سی سیاسی توقع وابستہ کرے؟وہ کون سا سیاسی حق مانگے، کس بنیاد پرمانگے اور کس ز بان سے مانگے ؟ 
وزیر اعظم مودی نے حصار میں ایک پروجیکٹ کے افتتاح کے موقع پرحسب دستور اور حسب عادت کانگریس پر تنقید کرتے ہوئے وقف قانون پر بھی تبصرہ کیا تھا اورکہا تھا کہ’’ اگر یہ قانون اتنا ہی اچھا ہوتا توآج مسلم نوجوان پنکچر نہیں بنا رہے ہوتے؟‘‘ اس کے علاوہ انہوں نے مزید کہا تھا ’’ وقف کے نام پر دلتوں اور آدیواسیوں کی زمینوں پر قبضہ کیا جارہا تھا، اسلئے ہم نےاس لوٹ کھسوٹ کو بندکرنے کیلئے قانون میں ترمیم کی ۔ ‘‘ اس بیان سے مودی کا اصل مقصد کانگریس اورکانگریس کے بنائے گئے قانون کو نشانہ بنانا تھا لیکن زبان سے نکلا ہوا تیر واپس نہیں آتا۔ وزیر اعظم مودی کئی بار مسلمانوں کے تعلق سے ایسے بیانات دے چکے ہیں جنہوں نے تیر کا ہی کام کیا ہے۔ یعنی وہ نکل گئے، اب واپس نہیں لئے جاسکتے اورکوئی یہ توقع بھی نہیں کرسکتا کہ مودی ایسا اپنا کوئی بیان کبھی واپس لیں گے ۔ وہ چاہے گجرات فسادات میں مسلم کشی کے تعلق سےیہ بیان ہوکہ کتے کا بچہ بھی گاڑی کے نیچے آجائے تو افسوس ہوتا ہے، یا ایک ریلی میں یہ بیان کہ کپڑے دیکھ کر معلوم ہوجاتا ہےکہ فسادی کون لوگ ہیں، یہ اسی نوعیت کے بیانات ہیں ۔ اول الذکر بیان حالانکہ انہوں نے ۲۰۱۳ء میں ایک انٹرویو میں دیاتھا ، بعد ازاں وہ ۲۰۱۴ء میں وزیر اعظم بنے لیکن محسوس کیاجاسکتا ہےکہ مسلمانوں کے تعلق سے وہ اس ذہنیت سے اب تک باہر نہیں نکل سکے ہیں۔ 
اگر یہ حقیقت ہے کہ مسلم نوجوان پنکچر بناتے ہیں تو کیا مودی کے ۱۰؍ سالہ دورحکومت سے یہ سوال نہیں کیاجائے گا کہ پنکچر بنانے والے نوجوانوں کیلئے ان کی حکومت نے کیا کیا ہے ؟ کیا کسی پنکچر بنانے والے نوجوان کو حکومت نے اسٹارٹ اَپ کھڑا کرکے دیا ؟حالانکہ پنکچربنانے کا پیشہ اختیار کر کے وہ حکومت پر احسان کر رہے ہیں کہ اپنی کفالت خود کرنے کے قابل ہیں اور خود کفیل ہندوستان کیلئے معاون ہیں۔ 
 وہ اسٹارٹ اَپ جس کے تعلق سے سرکار کے بڑے بڑے دعوے ہیں ؟لاکھوں کی تعداد میں اسٹارٹ اَپ کے امیدوار قطار میں ہیں، لاکھوں ہنرمند نوجوانوں کو حکومت نے اسٹارٹ اپ کی شکل میں کاروبار شروع کرکے دیا ہوگا لیکن جب آپ کی حکومت اسٹارٹ اَپ جیسا پروگرام متعارف کرچکی ہے تو اس سسٹم میں پنکچر بنانے وا لے نوجوانوں کی موجودگی ہی مخمل میں ٹا ٹ کے پیوند کے مترادف ہے۔ اگر ایسا ہے تو کیوں نہ کہا جائے کہ اس کی ذمہ دارحکومت ہی ہے۔ یعنی وزیر اعظم مودی نے خودحکومت کی ناکامی کا اعتراف کیا اور حوالہ مسلم نوجوانوں کے پنکچر بنانےکا دیا۔ اس کے علاوہ اسٹارٹ اَپ وہ پروگرام ہے جس پر مرکزی وزیر پیوش گوئل بھی تنقید کرچکے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ دنوں ایک پروگرام میں جو بات کہی تھی اس کا مفہوم یہ تھا کہ اسٹارٹ اپ وقتی طورپر پیسہ کمانے کا ذریعہ ہے، اس پر ایک مضبوط اور مستقل معاشی نظام کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی۔ وزیر اعظم مودی نے جو بیان دیا، اس طرح کے بیانات خود حکو مت کو منہ چڑاتے ہیں اور خود حکومت کی ناکامیوں کا غماز ہوتے ہیں لیکن جہاں سیاسی بے حسی اورغیرسنجیدگی ہو، عہدے کے وقار کا خیال ہی نہ ہو، وہاں کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ 
ایسا ہی ایک بیان اتر پردیش کے وزیر ا علیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بھی دے چکے ہیں۔ وہ ایک جلسے میں کہہ چکے ہیں کہ آج ٹیپو سلطان کےوارث آٹورکشا چلا رہے ہیں ۔ اس بیان کے ذریعے وہ کیا ثابت کرنا چاہتے تھے، کیا رکشا چلانے والوں کو ذلیل کرنا چاہتے تھے، حالانکہ رکشا ڈرائیوروں کی ایک پوری یونین ہوتی ہے۔ کیا وہ اوراب مودی ریلوے مزدوروں کے بارے میں اس طرح کے الفاظ اپنی زبان نکال سکتے ہیں۔ ریلوے مزدوروں کی بھی یونینیں ہوتی ہیں اور ان کے انتخابات ہوتے ہیں۔ ہاں ، اتنا ہےکہ ریلوے میں مزدوری کا تعلق مسلمانوں سے نہیں ہے۔ آپ پنکچر بنانے اور رکشا چلانے جیسے پیشوں کو بہ آسانی مسلمانوں سے جوڑ سکتے ہیں کیونکہ اس سے ووٹوں کا پولرائزیشن بہ آسانی ہوجاتا ہے۔ مسلم نوجوانوں کے پنکچر بنانے کو مودی ایک کمتر کام بناکر پیش کررہے ہیں، جو خود یہ دعویٰ کرچکے ہیں کہ وہ پہلے چائے بیچتے تھے۔ اس چائے بیچنے پرتو کیا کیا ہوچکا ہے، کیاکیا کہا جا چکا ہے، کیا کیا کہا جارہا ہے، کیا کیا لطائف بن چکے ہیں اورکن کن پہلوؤں سے اسےطنز ومزاح کا موضوع بنایا گیا ہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ۔ یہ بھی قابل ذکر ہےکہ مودی حکومت سے جب بے روزگاری کے حوالے سے پوچھا جاتا ہےتو ان کے وزراءکس درجے کا بیان دیتےہیں ۔ 
ہر سال ۲؍کروڑ نوجوانوں کو جب ملازمت دینے میں مودی حکومت ناکام رہی توبالآخراس کے ایک وزیر کی جانب سے نوجوانوں کوپکوڑا بیچنے کا مشورہ دیاگیا۔ اب جس حکومت کی نظر میں پکوڑا بیچنے میں کوئی عیب نہیں ہے، وہ بھی ایک کام ہے اوربلا شبہ ہے، جس حکومت کا سربراہ پہلے خود چائے بیچتا رہا ہے اور اس میں بھی بلا شبہ کوئی عیب نہیں ہے، وہ اب پنکچر بنانے کے پیشے کو مسلم نوجوانوں سے جوڑ کرپست تر سیاست کررہا ہے۔ 
کیا پنکچرصرف مسلمان بناتے ہیں ؟سروےکرالیاجائے، معلوم ہوجائے گاکہ اس پیشے سے لاکھوں مسلم اور لاکھوں ہندو نوجوان وابستہ ہوں گے۔ ملک میں پکوڑا بیچنے والوں کاسروے کرالیا جائے، یہاں بھی یہی معاملہ ہوگا۔ اس طرح اور جو بھی چھوٹے موٹے کاروباراورروزگار کے ذرائع ہیں ان سے ہندو اور مسلمان دونوں لاکھوں کی تعداد میں یکساں طورپروابستہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ حکومت ظاہری اعداد وشمار اوربڑے بڑے دعوؤں پر یقین رکھتی ہے، ملک میں روزگاراور کاروبار کے کتنے اور کیسے ذرائع ہیں اورکن کن طبقات اور فرقوں کے نوجوان انہیں اختیار کئے ہوئے ہیں (اور ان پر انہیں فخر ہوگا)، ان کاحکومت کو غالباً اندازہ ہی نہیں ہے، اس لا علمی کیلئے کون ذمہ دار ہے؟ ظاہر ہے بار حکومت پر ہی ہےمگرجب وہ لا علم ہی ٹھہری توکہا جاسکتا ہے کہ کیا کریں اس میں غلطی حکومت یا وزیر اعظم کی نہیں ہے ! پکوڑے تلنے اور پنکچربنانے کے یہ اپنے اپنے پیشے ہیں، انہیں اگر حکومت کا سربراہ کمتر سمجھتا ہے (حالانکہ وہ نہیں ہیں )تو صورتحال کو بہتر بنانے اور انہیں منظم شعبوں میں لانے کی ذمہ داری حکومت کی ہے، یہ نہیں کہ وزیر اعظم ان کی مثالیں دے کراپنے عہدےکےو قار کو مجروح کرے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK