• Sun, 23 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ایک ایسے قانون کیلئے تیار ہوجائیں جس میں مہلوکین کیلئے سوگ منانا بھی جرم ہوگا

Updated: February 23, 2025, 2:56 PM IST | Apoorvanand | Mumbai

محکمہ ریلوے کے ترجمان نے ابتدائی طور پر اس بھگدڑ کو افواہ قرار دیا۔ پھر کہا گیا کہ کچھ افراتفری تو ہوئی ہے لیکن حالات قابو میں ہیں۔ وزیر ریلوے نے بھی حقیقت چھپانے کی کوشش کی اور گمراہ کن بیان دیا۔

The families of those killed in the stampede at New Delhi railway station are in a dire situation. Photo: INN.
نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر بھگدڑ میں مہلوکین کے اہل خانہ کی بری حالت ہے۔ تصویر: آئی این این۔

دہلی کے ریلوے پلیٹ فارم پر بھیڑ کی وجہ سے مچنے والی بھگدڑ میں کم از کم۱۵؍ افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ جملہ دراصل اس طرح لکھا جانا چا ہئے کہ ہندوستان کے دارالحکومت دہلی کے ریلوے پلیٹ فارم پرحکومت کی بدانتظامی اور لاپروائی کی وجہ سے امڈی بھیڑ کے درمیان مچنے والی بھگدڑ میں ۱۵؍ افراد ہلاک ہو گئے، لیکن اب ہندوستان میں لوگ نثر لکھنے کا طریقہ بھول گئے ہیں۔ جیسا کہ ’رالف فاکس‘ نے کہا تھا کہ’’ نثر چیزوں کو ان کے صحیح ناموں سے پکارنے کا فن ہے۔ ‘‘ انسان نے سچائی کو بے نقاب کرنے کیلئے زبان ایجاد کی، پھر اسے سچائی پر پردے کی طرح استعمال کیا جانے لگا۔ ہندوستان میں گزشتہ۱۰؍ برسوں سے زبان کا استعمال سچ بولنے کیلئے نہیں بلکہ اسے چھپانے کیلئے کیا جا نے لگا ہے۔ 
افواہ کو سچ اور سچ کو افواہ کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ ہندوستانی ریلوے کے ترجمان نے پلیٹ فارم پر بھگدڑ کی خبر کو افواہ قرار دیا اور ملک کی سب سے بڑی نیوز ایجنسی نے اسے پوری دنیا میں نشر کیا، لیکن وہ اکیلے نہیں تھے جو ایسا کر رہے تھے۔ اس تعلق سےہم نے ایک دکاندار کو یہ بھی کہتے سنا کہ اسٹیشن پر تمام انتظامات بالکل ٹھیک تھے، پلیٹ فارم خالی تھا، لوگ پل پر ایک دوسرے کو دھکے مارنے لگے جس کی وجہ سے بھگدڑ مچ گئی۔ صورتحال یہ ہے کہ اب ہم اس سچائی کو دیکھنا بھی نہیں چاہتے جو ہمارے لئے ناگوار ہو، اسے دوسروں تک پہنچانا تو بہت دور کی بات ہے۔ 
کسی نے نہیں پوچھا کہ کیا یہ ہجوم واقعی اچانک جمع ہو گیا تھا؟ کیا ٹکٹوں کی غیرمعمولی فروخت سے یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا تھا کہ پلیٹ فارمز پر بھیڑ اپنی حد سے آگے بڑھ سکتی ہے۔ ٹکٹ ونڈو سے جنرل کلاس کے ٹکٹ کیوں لگاتار جاری کئے جا رہے تھے؟ ٹرینوں کی تعداد اور ٹکٹوں کی فروخت کے درمیان تعلق کو کیوں مدنظر نہیں رکھا گیا؟ ہندوستانی حکومت جو کسانوں کو دہلی آنے سے روکنے کیلئے سڑکیں کھود دیتی ہےاور ان پر کیلیں ٹھونک دیتی ہے، وہ پلیٹ فارم پر بھیڑ جمع ہونے سے کیوں نہیں روک پائی؟
میرے ایک دوست کو ایک سیمینار میں شرکت کیلئے بنارس جانا تھا۔ میٹرو سے جب وہ نئی دہلی پہنچے تب انہوں نے اپنے آگے لوگوں کا ایک ’ریلا‘ دیکھا۔ میٹرو کا ’اگزٹ گیٹ‘ ٹوٹ گیا۔ لوگوں نے نعرہ لگایا’گنگا میا کی جے‘ اور ایک دوسرے کو دھکے دیتے ہوئے باہر نکلنے لگے۔ میرے دوست یہ منظر دیکھ کرکانپ گئے اور بنارس جانے کا ارادہ منسوخ کر کے اپنی جگہ واپس آگئے۔ 
جب یہ منظر میٹرو اسٹیشن کا تھا تو کیا انتظامیہ یہ اندازہ نہیں لگا سکتی تھی کہ ریلوے پلیٹ فارم پر آگے کیا ہوگا؟
یہ بھیڑخود بخود نہیں اکٹھی ہوگئی تھی۔ کمبھ جانے کی اپیل وزیراعظم، کئی وزرائے اعلیٰ اور کئی حکومتیں کررہی تھیں۔ ہر سرکاری عمارت کی دیواروں پر لوگوں کو کمبھ میں مدعو کرنے والے بڑے بڑے پوسٹر اور ہورڈنگ مہینوں سے لگائے گئے ہیں۔ محلے میں لوگوں کو کمبھ جانے کیلئے کہا جا رہا تھا۔ ماحول کچھ ایسا بنایا گیا تھا گویا آپ کمبھ جا کر ہی اپنا ہندو مذہب ثابت کر سکتے تھے۔ گزشتہ کئی دنوں سے الہ آباد جانے والی تمام سڑکیں جام تھیں۔ پھر دہلی ریلوے اسٹیشن پر بھیڑ کا اندازہ کیوں نہیں لگایا جا سکتا تھا؟
محکمہ ریلوے کے ترجمان نے ابتدائی طور پر اس بھگدڑ کو افواہ قرار دیا۔ پھر کہا گیا کہ کچھ افراتفری تو ہوئی ہے لیکن حالات قابو میں ہیں۔ وزیر ریلوے نے بھی حقیقت چھپانے کی کوشش کی اور گمراہ کن بیان دیا۔ بعد میں ان سب کو تسلیم کرنا پڑا کہ بھگدڑ مچی تھی اور ہلاکتیں بھی ہوئیں، لیکن اب ان سب کیلئے لوگوں کی بے چینی کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ لوگ ایک ساتھ کیوں نکل پڑتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مرکزی حکومت کو بری کرنے کی کوششیں بھی جا ری ہیں کہ وہ اتنی بڑی بھیڑ کو بھلا کیسے سنبھال سکتی ہے؟
اگر آپ نہیں بھول نہ گئے ہوں تو۵؍ سال پہلے ہم نے کچھ اسی طرح کا منظر ہندوستان کی سڑکوں پر دیکھا تھا۔ وہ کوویڈ انفیکشن کے ابتدائی دن تھے۔ وزیراعظم مودی نے اچانک لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا تھا۔ اس اعلان کے بعد ہونے والے حالات کیلئے کوئی کارروائی ا ور کوئی تیاری نہیں کی گئی تھی۔ اگلی صبح سے دہلی اور دیگر میٹرو شہروں سے مزدور اپنے اپنےگھروں کو روانہ ہونے لگے۔ اُس وقت بھی حکومت نے یہی کہا تھا کہ انہیں گھر پہنچانا ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ مزدوروں کو غیر ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ بی جے پی کے ایک رکن پارلیمان نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ یہ سب تفریح کیلئے باہر نکلے ہیں۔ 
یہ نہیں پوچھا گیا کہ آخر حکومت یہ اندازہ کیوں نہیں لگا سکی کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے اتنے یومیہ اجرت والے اچانک روزی روٹی سے محروم ہو جائیں گے اور پھر ان کے بھوکوں مرنے کی نوبت آجائے گی۔ پھر وہ اپنے گاؤں میں پناہ لینے کے سوا اور کیا کر سکتے تھے۔ اُس وقت حکومت نے یہی پیغام دیا تھا کہ وہ لاک ڈاؤن تو نافذ کر سکتی ہے لیکن اس کے نتائج کیلئے اسے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ لاکھوں لوگ ہزاروں کلومیٹر پیدل چلے لیکن حکومت خاموش تماشائی بنی رہی۔ 
انہی دنوں سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی کہ وہ حکومت کو حکم دے کہ وہ مزدوروں کو راحت فراہم کرے۔ اُس وقت عدالت میں مرکزی حکومت نے جھوٹ بولا کہ سڑکوں پر مزدور نہیں ہیں۔ ہم ٹی وی پر دیکھ رہے تھے کہ کس طرح ہزاروں کارکن پیدل چل رہے ہیں، لیکن عدالت نے وہی دیکھا جو حکومت نے اسے دیکھنے کیلئے کہا۔ نوٹ بندی کے وقت بھی حکومت نے یہی کیا تھا۔ ہمیں اس وقت بینکوں کے سامنے لگی قطاروں کی تصویر یاد ہے۔ اس وقت بھی حکومت نے عوام کو پہنچنے والے مصائب کی ذمہ داری لینے سے انکار کر دیا تھا۔ 
کمبھ میں بھگدڑ مچی۔ کتنی اموات ہوئیں، ابھی تک ہمیں نہیں معلوم۔ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ کوویڈ کی وجہ سے کتنی اموات ہوئیں۔ حکومت کہتی ہے کہ اتنے لوگ زندہ بچ گئے، اس کیلئے ہمیں حکومت کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ 
حکومت کچھ بھی کہے لیکن یہ دیکھ کر زیادہ دکھ ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ بھی اسی کو اپنا مقدر مان کر اس کے آگے اپنا سر تسلیم خم کر دیتا ہے۔ یہ کہنا پڑے گا کہ اس طرح کے حالات زیادہ تر ہندو سماج میں ہیں۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوؤں کی اکثریت کا یہ خیال ہے کہ صدیوں بعد ہندوستان میں ہندوؤں کا راج آیا ہے؟ اگر کچھ اونچ نیچ ہو تو ہمیں برداشت کرلینا چاہئے کیونکہ ابھی ایک بڑے مقصد کو پورا کرنے کا وقت ہے؟اور وہ مقصد ہندو راشٹر کا قیام ہے۔ کیا یہی وجہ ہے کہ ہندوؤں نے شہری کے تمام حقوق ترک کر کے خودکو رعایا میں تبدیل کر لیا ہے جن کے ساتھ راجا جیسا چاہے، پیش آسکتا ہے؟
اب ہمیں ایک ایسے قانون کیلئے تیار ہوجانا چاہئے جس کے مطابق مارے گئے لوگوں کیلئے سوگ منانا، زندہ لوگوں کے خلاف جرم تصور کیا جائے گا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK