Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

اس بار بھی عام بجٹ سے عوام کو مایوسی ہوئی ہے

Updated: February 15, 2025, 3:03 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumabi

مراٹھی اخبار’سامنا‘ نے ۳؍ فروری کے اداریہ میں لکھا ہے کہ’’ نرملا سیتا رمن کے پیش کردہ بجٹ پر اندھ بھکت ایک بار پھر تالیاں بجا رہے ہیں۔گویا متوسط طبقہ کے گھروں پر سونے کی قلعی کردی گئی ہو۔۱۲؍ لاکھ تک انکم ٹیکس کی چھوٹ پر بی جے پی کے اندھ بھکت خوشی سے پھولے نہیں سما رہے ہیں۔

Experts believe that the Modi government has given a tax exemption of up to 12 lakh rupees ahead of the Delhi Assembly elections. Photo: INN
ماہرین کا خیال ہے کہ مودی سرکار نے۱۲؍ لاکھ روپے تک ٹیکس کی چھوٹ دہلی اسمبلی انتخابات کے پیش نظر کی ہے۔ تصویر: آئی این این

سرکاریں بجٹ کے نام پر عوام کو سہولت اور ریلیف دینے کے بلند بانگ دعوے ہمیشہ کرتی چلی  آئی ہیں لیکن عوام کیلئے روز مرہ کے اخراجات پورے کرنا ہی چیلنج بنا ہوا ہے۔ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے بجٹ پیش کرتے وقت دعویٰ کیا کہ اس میں غریبوں، کسانوں، خواتین اور نوجوانوں پر خصوصی توجہ دی گئی ہے لیکن انہوں نے ایک بار بھی عام آدمی کی پریشانیوں کا ذکر نہیں کیاجبکہ انہیں شہریوں کو ریلیف پہنچانے کیلئے کچھ موثر  اور ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں تھے۔
 یہ عوامی نہیں، سیاسی بجٹ ہے
مراٹھی اخبار’سامنا‘ نے ۳؍ فروری کے  اداریہ میں لکھا ہے کہ’’ نرملا سیتا رمن کے پیش کردہ بجٹ پر اندھ بھکت ایک بار پھر تالیاں بجا رہے ہیں۔گویا متوسط طبقہ کے گھروں پر سونے کی قلعی کردی گئی ہو۔۱۲؍ لاکھ تک انکم ٹیکس کی چھوٹ پر بی جے پی کے اندھ بھکت خوشی سے پھولے نہیں سما رہے ہیں۔ بنیادی طور پر ملک میں کتنے لوگ انکم ٹیکس کے دائرے میں آتے ہیں؟ تقریباً ساڑھے تین کروڑ۔ان میں سے دو کروڑ کی آمدنی ۷؍ لاکھ سے کم ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ  وہ پہلے ہی سے مستثنیٰ تھے۔ بقیہ ڈیڑھ کروڑ میں سے ۸۰-۸۵؍ لاکھ ہی تنخواہ دار ملازم ہوں گے۔۵۰؍ لاکھ لوگوں کی تنخواہ ۱۲؍ لاکھ سے زیادہ ہوگی۔اس کا سیدھا مطلب ہے کہ ۵۰؍لاکھ کے قریب لوگ ہی نئے ٹیکس سسٹم سے مستفید ہوں گےلیکن سرکار کی جانب سے ڈھول پیٹا جارہا ہے کہ۴۵؍ کروڑ لوگوں کو فائدہ ہوگا۔ایک بار پھر مودی کی مہربانی سے تعلیم یافتہ نوجوان پکوڑے تل رہے ہیں۔یہ بجٹ کوئی غیر معمولی نہیں ہے بلکہ سیاسی بجٹ ہے جو وزیر مالیات نے سرکار کی منشا کے مطابق تیار کیا ہے۔دہلی میں اسمبلی انتخابات ہیں اس لئے مودی اور شاہ نے پہلے ہی مفت کی ریوڑیاں تقسیم کردی ہیں۔بہار میں الیکشن ہونے والے ہیں اسلئے پیسوں اور اسکیموں کی بارش ہورہی ہےلہٰذا  اسے عام لوگوں کا بجٹ کہنا،سراسر جھوٹ ہے۔اس سے قبل مودی نے کسان فرینڈلی بجٹ پیش کرنے کا دعویٰ کیا تھا مگر جب سے مرکز میں بی جے پی اقتدار میں آئی ہے کسان  ایم ایس پی کیلئے بھوک ہڑتال کررہے ہیں۔آج بھی پنجاب اور ہریانہ میں کسان احتجاج کررہے ہیں۔اس کے بعد مودی نے روزگار پر مبنی بجٹ پیش کیا۔ وہ ہر سال دو کروڑ نوجوانوں کو روزگار دینے والے تھے۔دراصل مودی سرکار میں روزگار کا قحط پڑا ہواہے۔امتحانات کےپرچے بازار میں فروخت ہو رہے ہیں۔نوجوان سڑکوں پر اُتر کر احتجاج کررہے ہیں اور پولیس ان پر لاٹھیاں برسا رہی ہیں۔مودی کامنتر ہے کہ نوکری نہیں تو پکوڑے تلیں۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: ایچ ایس سی کے طلبہ نے جوش وخروش سے بورڈ امتحان میں شرکت کی

مہنگائی پر کوئی راحت کی بات نہیں کی گئی ہے
ہندی اخبار ’لوک مت سماچار‘ نے اداریہ لکھا ہے کہ’’مرکزی حکومت نرملا سیتا رمن کے پیش کردہ بجٹ پر اپنی پیٹھ تھپتھپا رہی ہے اور ہمیشہ کی طرح اپوزیشن کو اس میں کچھ نظر نہیں آرہا ہے۔اگرچہ وزیر اعظم مودی نے بجٹ کو `عوام کا بجٹ `قرار دیا ہے جو ہر ہندوستانی کے خوابوں کو پورا کرے گا۔دعویٰ کیا جارہا ہے کہ متوسط طبقہ بجٹ سے راحت محسوس کرے گا کیونکہ سرکار نے ۱۲؍ لاکھ روپے تک کی سالانہ آمدنی پر ٹیکس میں چھوٹ دی ہے۔ سرکار کو امید ہے کہ جب متوسط طبقہ کی جیب میں زیادہ پیسہ ہوگا تو وہ اسے خرچ کرنے میں فراخدلی کا مظاہرہ کرے گا۔کچھ حد تک بازار صرف متوسط طبقہ کے تعاون  ہی سے  زور پکڑتا نظر آتا ہے۔معاشی صورتحال کو بہتر اور تیز کرنے کیلئے یہ ضروری ہوگا۔دوسری جانب ہندوستانی کرنسی ڈالر کے مقابلے کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔اسٹاک مارکیٹ کئی دنوں سے تنزلی کا شکار ہے۔بجٹ کے بعد بھی کیپٹل مارکیٹ میں کوئی تیزی نہیں آئی ہے۔ درحقیقت ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری عروج پر ہے۔بجٹ اور دیگر سرکاری اسکیمیں اس کا حل تلاش کرنے میں ناکام ہیں۔حکومت اعداد وشمار کے سہارے اپنی کوششوں کا گن گان کرتی ہےلیکن اعداد وشمار کی کہانی محض کاغذی کارروائی ثابت ہوتی ہے۔بجٹ میں انکم ٹیکس میں بڑی چھوٹ کی بات کہی جارہی ہےلیکن اس کا فائدہ انکم ٹیکس کے نئے نظام کے مطابق ہی لیا جاسکتا ہے۔اس کے علاوہ مہنگائی کی بات کریں تو کوئی ریلیف نظر نہیں آتی ، نہ ہی حکومت کی جانب سے اس ضمن میں کوئی دعویٰ کیا گیا ہے۔‘‘
متوسط طبقے کو کچھ زیادہ فائدہ نہیں ہوگا
مراٹھی اخبار ’لوک مت‘ نے اداریہ لکھا ہے کہ ’’مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے  بجٹ پیش کرتے ہوئے ۹؍ بار’مڈل کلاس‘ کا لفظ استعمال کیا۔متوسط طبقہ جس کا ذکر پہلے کبھی کبھار ہوتا تھا،اس بار بجٹ کا مرکز بن گیا۔ہماری وجہ سے ہی مودی سرکار اقتدار میں آنے کی سوچ رکھنے والے متوسط طبقہ کو پہلے نظر انداز کر دیا گیا تھا۔یہ وہ طبقہ ہے جو ہرسال بجٹ کا دیوانوں کی طرح انتظار کرتا ہے۔ اور ہر بار اسے مایوسی ہاتھ لگتی ہے۔اس مرتبہ نرملا تائی نے متوسط طبقہ کو کچھ حد تک راحت دی ہے۔۱۹۹۱ء میں ڈاکٹر منموہن سنگھ کے پیش کردہ بجٹ نے عالمگیریت کو راہ دی۔ عالمگیریت کے بعد سیاق وسباق بدل گئے، اس بدلتے ہوئے تناظر میں `مڈل کلاس ` بھی بدل گیا۔یہ طبقہ نہ صرف بازاروں کا’چہیتا‘ بن گیا بلکہ سیاسی فیصلہ سازی کے عمل پر بھی اثر ڈالنے لگا۔متوسط طبقہ جو پہلے ہی آبادی میں بڑا تھا،عالم کاری کے بعد اور بڑا ہوگیا۔اگرچہ حکومت کا خیال ہے کہ اس فیصلے سے مارکیٹ میں جوش و خروش نظر آئے گا،لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے۔متوسط طبقہ کی آمدنی کا بڑا حصہ سود پر ہی خرچ ہو جاتا ہے۔ ویسے بھی بیشتر ماہرین کا خیال ہے کہ مودی سرکار نے۱۲؍ لاکھ روپے تک ٹیکس کی چھوٹ دہلی اسمبلی انتخابات کے پیش نظر کی ہے۔‘‘
بجٹ میں تعلیمی مسائل سے چشم پوشی کی گئی ہے
انگریزی اخبار ’دی ڈیلی گارجن‘ میں معروف کالم نگار ڈاکٹر ابھیشیک ملہوترا نے لکھا ہے کہ ’’وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے ۲۰۲۵ء کا مرکزی بجٹ پیش کیا۔اس بجٹ میں ترقی کی رفتار کو تیز کرنے کی جامع منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ تاہم ایک خوشحال ملک کی بنیاد رکھنے کیلئے حکومت کو افرادی قوت کی تعلیم پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے انسانی وسائل میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کرنی چاہئے۔اگرچہ ہنر مندی کیلئے نیشنل سینٹر آف ایکسی لینس اور ایجوکیشن کیلئے آر ٹی فیشل انٹیلی جنس(اے آئی) ایک مثبت اعلان ہے۔تاہم مرکزی بجٹ بڑی حد تک اعلیٰ تعلیم کو درپیش مسائل سے چشم پوشی کرتا ہے۔ اس بجٹ میں وزیر خزانہ نے تعلیمی شعبے کیلئے ایک۱ء۲۸؍ لاکھ کروڑ روپے مختص کئے ہیں۔تاہم گزشتہ سال کی طرح بجٹ بنیادی طور پر پرائمری اور اسکولی تعلیم پر مرکوز ہے۔وزارت تعلیم کو کُل مختص فنڈ میں سے اسکولی تعلیم کیلئے۷۸؍ ہزار ۵۷۲؍ کروڑ روپے رکھے گئے ہیں جبکہ اعلیٰ تعلیم کیلئے صرف ۵۰؍ہزار کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ یہ ۲۴۔۲۰۲۳ء  کے بجٹ میں مختص کئے گئے۵۵؍ہزار کروڑ سے کم ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK