Inquilab Logo Happiest Places to Work

تعلیم میں نجکاری کا بڑھتا رُجحان حکومت کی غیر سنجیدگی کا اظہار

Updated: April 06, 2025, 1:09 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

سرکاری رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۴ء سے اب تک ملک بھر میں ۸۹؍ہزار سرکاری اسکول بند ہوئے جبکہ اس دوران۴۲؍ہزار نئے پرائیویٹ اسکول کھلے ہیں۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

ملککو ’وشو گرو‘ بنانے کا عزم ظاہر کرنے والی سرکار نے عوام کو جو خواب دکھائے ان خوابوں کو حقیقی شکل عطا کرنے میں تعلیم کو بنیادی عنصر کی حیثیت حاصل ہے۔ اس عنصر کو نظرانداز کرنے یا اس کے متعلق غیر سنجیدہ رویہ اختیار کرنے سے نہ صرف حکومت کے بلند بانگ دعوؤں کی ہوا نکل جائے گی بلکہ کئی ایسے اضافی مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں جو سماجی اور معاشی سطح پر عوام کے درمیان عدم مساوات کو بڑھاوا دے سکتے ہیں۔ معیاری تعلیم ملک و معاشرہ کی ترقی اور خوشحالی کی کلید ہوتی ہے۔ عوام کیلئے معیاری تعلیم کا بندو بست کرنا حکومت کے آئینی فرائض میں شامل ہے۔ اس فرض کو لازماً عملی شکل دینے کی خاطر آئین کی ۸۶؍ ویں ترمیم سے ۶؍ تا ۱۴؍ برس کے بچوں کیلئے مفت اور لازمی تعلیم کا التزام کیا گیا۔ اس آئینی التزام کے باوجود اسکولی تعلیم کی صورتحال اس قدر اطمینان بخش نہیں ہے جو تعلیم کے متعلق حکومت کے سنجیدہ رویے کی توثیق کرتی ہو۔ یہ ضرور ہے کہ ارباب اقتدار زبانی طور پر اس شعبے کی ترقی اور تعلیم تک سب کی رسائی کا دعویٰ بارہا کرتے رہے ہیں لیکن ان دعوؤں کی قلعی خود حکومت کے فراہم کردہ حقائق سے اس وقت کھل گئی جب لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب میں تعلیمی امور کے ریاستی وزیر جینت چودھری نے اسکولی تعلیم میں نجکاری کے بڑھتے رجحان کا اعتراف کیا۔ 
اسکولی تعلیم میں نجکاری کا بڑھتا رجحان سب کیلئے تعلیم کے اس تصور کو سبوتاژ کرتا ہے جسے آئین کی رو سے عوام کے بنیادی حق کی حیثیت حاصل ہے۔ حکومت کی فراہم کردہ اطلاع کے مطابق ۲۰۱۴ء سے اب تک ملک گیر سطح پر ۸۹؍ہزار ۴۴۲؍ سرکاری اسکول بند ہوئے ہیں جبکہ اسی اثنا میں ۴۲؍ہزار ۹۴۴؍ نئے پرائیویٹ اسکول کھلے ہیں۔ مدھیہ پردیش میں سب سے زیادہ سرکاری اسکولوں پر تالا لگا ہے۔ پرائیویٹ اسکول کھلنے کے معاملے میں بہار کوپہلا نمبر حاصل ہوا ہے۔ یہ اعداد و شمار مرکزاور بھگوا پارٹی کے زیر اقتدار صوبائی حکومتوں کی تعلیم کے متعلق غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتے ہیں۔ یوں بھی بی جے پی لیڈران عوامی سطح پر تعلیم جیسے اہم اور حساس موضوع پر کم ہی لب کھولتے ہیں لیکن ’وشو گرو‘ بننے کا عزم دہراتے رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا تعلیم جیسے اہم اور بنیادی شعبے کو نظر انداز کرکے اس امتیاز کو حاصل کیا جا سکتا ہے؟اقتدار کا یہ متضاد رویہ صرف تعلیم کے متعلق ہی نہیں بلکہ ان کی بیشتر پالیسیوں میں اس رویے کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس متضاد رویے کے سبب کئی ایسے اضافی مسائل پیدا ہو چکے ہیں جو سماج میں عدم مساوات کی خلیج کو چوڑا کر رہے ہیں۔ 
اسکولی تعلیم کی نج کاری کا مسئلہ سماج میں نابرابری کے رجحان کو بڑھاوا دینے کے ساتھ ہی ان صلاحیتوں کو نمو پانے سے روک سکتا ہے جو محدود مالی وسائل کے سبب مہنگے پرائیویٹ اسکولوں میں داخلہ نہیں لے سکتے۔ غریب اور متوسط طبقہ کے طلبہ کیلئے مہنگے پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرناایسا دشوار گزار عمل ہے جس کی تکمیل کیلئے دیگر ضروری اور اہم امور کو ملتوی یا منسوخ کرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران ملک کی معاشی پالیسی نے جو رخ اختیار کیا ہے اس کے سبب انہی دو طبقات کو مالی مسائل سے دوچار ہونا پڑرہا ہے۔ آمدنی کے محدود ذرائع اور بڑھتی مہنگائی نے ان طبقات کو ایسے مسائل میں مبتلا کر دیا ہے کہ مہنگے پرائیویٹ اسکولوں میں بچوں کو تعلیم دلانا ان کیلئے ناممکن کی حد تک مشکل ہو گیا ہے۔ ایسی صورت میں حکومت کو سرکاری اسکولوں کو بند کرنے کے بجائے ان کے معیار کو بہتر بنانے کی سنجیدہ کوشش کرنا چاہئےلیکن یہاں تو معاملہ ہی بالکل برعکس ہے۔ سرکاری اسکولوں کی تالابندی پر فکر مند ہونے کے بجائے حکومت پرائیویٹ اسکولوں کے کھلنے پر اس قدر رضا مند نظر آتی ہے کہ جیسے سب کو تعلیم فراہم کرنا اس کی ذمہ داری ہی نہ ہو۔ 
پرائیویٹ اسکول معیاری تعلیم کے نام پر طلبہ اور ان کے والدین کا مختلف طریقوں سے استحصال کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کو بہتر تعلیم دلانا ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے لہٰذا اس صورتحال کو برداشت کرنے کے سوا اُن کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔ اگر حکومت چاہے تو سرکاری اسکولوں کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانا اور ان اسکولوں کو دیگر بنیادی ضرورتوں سے آراستہ کرنا کوئی ایسا مشکل ہدف بھی نہیں کہ جسے سر نہ کیا جا سکتا ہو۔ اس معاملے میں دہلی کی سابقہ حکومت کی کارکردگی کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ عام آدمی پارٹی نے اپنے دور حکومت میں دہلی کے سرکاری اسکولوں کو تعلیم اور انفراسٹرکچرکے معاملے میں اس مقام تک پہنچا دیا کہ ان اسکولوں کے طلبہ پرائیویٹ اسکولوں کے طلبہ کی ہمسری کرنے لگے۔ اگر حکومت سماج میں تعلیم کو عام کرنے کے معاملے میں سنجیدہ اور مخلص ہو تو سرکاری اسکولوں کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانا کچھ مشکل نہیں۔ 
اقتدار کی غیر سنجیدگی سرکاری اسکولوں کے تعلیمی معیار کو براہ راست متاثر کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ان اسکولوں میں تدریس کے فرائض انجام دینے والے اساتذہ کو درس و تدریس کے علاوہ ایسے اضافی کاموں میں ملوث کردیا جاتا ہے جس سے ان کی تدریسی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ ادھر گزشتہ کچھ برسوں سے ہر سطح کے تعلیمی مراکز کو اقتدار نے اپنی تشہیر اور تعریف و توصیف کا ایک ایسا پلیٹ فارم بنا دیا ہے جہاں علم و دانش کی باتیں ثانوی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اقتدار کا یہ رویہ اگر چہ پرائیویٹ اداروں کے ساتھ بھی ہے لیکن ان اداروں کے ذمہ داران تعلیمی سرگرمیوں کو درکنار کر اس تشہیر اور توصیف کو ترجیح دینے سے گریز کرتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ کم آمدنی والے افراد بھی سرکاری اسکولوں کی بجائے پرائیویٹ اسکول میں بچوں کے داخلے کو ترجیح دیتے ہیں۔ حالانکہ اس ایک مقصد کی تکمیل میں انھیں کئی دیگر اہم مقاصد کو ترک کرنا پڑتا ہے اور بسا اوقات یہ صورتحال ان کے سماجی مرتبہ اور وقار کو بھی متاثر کرتی ہے۔ 
پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم کا معیار سرکاری اسکولوں سے بہتر ہوتا ہے لیکن ان اسکولوں کی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں بعض اوقات ایسا عدم توازن ہوتا ہے جو طلبہ کو مختلف قسم کے نفسیاتی مسائل میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ پرائیوٹ اسکولوں میں کلاس روم ٹیچنگ سے زیادہ طلبہ کو ذاتی مطالعہ کی تحریک دی جاتی ہے۔ یہ تحریک طالب علم کو لامحالہ ٹیوشن پر آمادہ کرتی ہے۔ اس طرح اسکول اور ٹیوشن کا وہ دور شروع ہوتا ہے جوطالب علم کی فطری نشو و نما کو متاثر کر سکتا ہے اور اسے مختلف قسم کے نفسیاتی مسائل کا شکار بنا سکتا ہے۔ کم عمر بچوں میں نفسیاتی کجی کے معاملات جس تواتر کے ساتھ سامنے آرہے ہیں اس کا ایک سبب تعلیمی امور میں یہ عدم توازن بھی ہے جو ان کی ذہنی صلاحیت اور جذباتی روش پر اثر انداز ہوتا ہے۔ معیاری تعلیم کی غرض سے مہنگے پرائیوٹ اسکولوں میں پڑھنے والے طلبہ میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کم عمری ہی میں اس مصنوعی احساس فضیلت کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں کہ سماج کے ہر فرد سے میل ملاپ کو شایان شان نہیں سمجھتے۔ یہ نخوت آمیز رویہ سماج میں عدم مساوات کو رجحان کو بڑھاوا دیتا ہے۔ 
سماج میں ہر سطح پر عدم مساوات کے رجحان کو ختم کرنے کی سنجیدہ کوشش، اقتدار کے فرائض میں شامل ہے لیکن صرف تعلیم کے حوالے ہی سے اگر اقتدار کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو واضح طور پر یہ نظر آتا ہے کہ اس آئینی ذمہ داری کو نبھانے میں اقتدار نے سنجیدگی سے کام نہیں لیا۔ اقتدار کا سارا زور صرف زبانی دعوؤں پر ہی رہا ہے، ان بلند بانگ دعووں کو عملی شکل دینے کی کوشش کا فقدان، اس کی کارکردگی پر سوال کھڑے کرتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو سرکاری اسکولوں کو مقفل کرنے کے بجائے ان کو جدید سہولیات سے آراستہ کرنا اور اسکولوں کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کی تدبیر کرنا اس کی ترجیح میں شامل ہوتا۔ پرائیوٹ اسکولوں کی تعداد میں اضافہ سب کو تعلیم فراہم کرنے کے متعلق اقتدار کی غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ تعلیم کے تئیں یہ غیر سنجیدگی دیگر اہم اور ضروری سماجی امور کو متاثر کر سکتی ہے جن کا ملک و معاشرہ کی خوشحالی اور ترقی سے براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK