Inquilab Logo Happiest Places to Work

ٹرمپ کے آمرانہ فرمان پر ہارورڈیونیورسٹی کا منہ توڑ جواب

Updated: April 20, 2025, 2:13 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

یونیورسٹی کے سربراہ نے امریکی صدر کو دو ٹوک انداز میں جواب دیاہے یونیورسٹی امریکی آئین کے فراہم کردہ آزادی کے حق کو رہن نہیں رکھے گی۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے حالیہ فیصلوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خود کو ان تمام ضابطوں سے بالاتر سمجھتے ہیں جو داخلی سطح پر اقتدار اور عوام اور خارجی سطح پر مختلف ملکوں کے درمیان دوستانہ اور خوشگوار مراسم برقرار رکھنے میں اساسی کردار ادا کرتے ہیں۔ ٹرمپ نے امریکہ کو ’گریٹ‘ اور ’سیف‘ بنانے کی خاطر اب تک جتنے بھی فیصلے کئے ہیں وہ امریکہ کی عظمت اور اس کے تحفظ سے زیادہ عوامی سطح پر خلفشار برپا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ ٹرمپ کو دوبارہ امریکی صدر کے عہدے تک پہنچانے میں نمایاں کردار ادا کرنے والے ایلون مسک نے بھی مختلف ممالک پر ٹیرف لگانے کے ٹرمپ کے فیصلے سے عدم اتفاق ظاہر کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ دنیا کے ’سپر پاور‘ ہونے کی حیثیت سے مختلف ملکوں کے ساتھ باہمی تعلقات میں سفارتی تقاضوں کو درکنار کر کے اپنی مرضی اور خواہش کو مقدم رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا یہ طرز عمل دراصل دنیا پر اپنی دھونس جمانے کا وہ حربہ ہے جس کے ذریعہ ٹرمپ خود کو عالمی سطح پر سب سے قد آور اور طاقتور لیڈر ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا یہ رویہ صرف دوسرے ممالک کے ساتھ ہی نہیں ہے بلکہ وہ اپنے ملک کی سمت و رفتار کو اپنی مرضی کا تابع بنانے کے ان تمام امکانات کو عملی شکل دینا چاہتے ہیں جن کے ذریعہ وہ عوامی زندگی کے مختلف اداروں کو اپنا دست نگر بنا سکیں۔ 
ٹرمپ، امریکہ اور عالمی سطح پر اپنی قدآوری کو محکم بنانے کیلئے جس روش پر گامزن ہیں وہ صریح طور پر غیر آئینی ہے۔ دنیا پر اپنی دھونس جمانے کا خبط ٹرمپ پر اس قدر حاوی ہو چکا ہے کہ وہ خود کو ان تمام حدود و قیود سے بالاتر سمجھنے لگے ہیں جن کی پاسداری کے بغیر آئینی ضابطوں کی تعمیل اور انسانی حقوق کے تحفظ کا تصور نہیں قائم ہو سکتا۔ دنیا کو انسانی حقوق کی بالادستی اور امن و اتحاد کا پاٹھ پڑھانے والا ملک ان دنوں ایسے حکمران کے زیر نگیں ہے جو اپنے احکامات کی تعمیل بہر صورت یقینی بنانا چاہتا ہے خواہ اس کا یہ عمل آئین کے مطابق ہو یا نہ ہو۔ ٹرمپ کی اس تحکمانہ روش کی زد پر ہارورڈ جیسی ممتاز یونیورسٹی بھی آگئی ہے جس کو عالمی سطح پر اعلیٰ تعلیم اور ریسرچ میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ 
ٹرمپ نے ہارورڈسمیت امریکہ کی تقریباً ۶۰؍ یونیورسٹیوں کے تعلیمی نظام میں اصلاح کے عنوان سے جو مطالبات کئے ہیں وہ دراصل ان تعلیمی اداروں میں حکومت کی مداخلت کو یقینی بنانے کی ایسی کوشش ہے جو ان اداروں کی خود ارادیت کوختم کر سکتی ہے۔ ٹرمپ یہ چاہتے ہیں کہ ان دانش گاہوں میں طلبہ کے داخلے، اساتذہ کی تقرریاں اور تعلیم و تعلم سے متعلق دیگر اقدامات حکومت کی نگہداشت اور مرضی کے مطابق انجام پائیں۔ یونیورسٹیوں کو بھیجے گئے خط میں ٹرمپ نے دھمکی آمیز زبان میں یہ واضح کیا ہے کہ اگر ان اداروں نے ان کے مطالبات تسلیم نہیں کئے تو ان کو حکومت کی جانب سے ملنے والی مالی امداد روک دی جائے گی۔ ٹرمپ کی اس دھمکی کا جواب ہارورڈ کے صدر ایلن گاربر نے جس زور دار اور سلجھے ہوئے انداز میں دیا ہے وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ علم و دانش کی عظمت کا قائل انسان ایسی باتوں کو خاطر میں نہیں لاتا جو انسان کی شخصی آزادی اور اس کے افکار کو کسی خاص متعصب رجحان کا پابند بناتی ہیں۔ ایک طرف ہارورڈ یونیورسٹی کے صدر کا یہ عزم اور حوصلہ ہے تووہیں دوسری طرف کولمبیا یونیورسٹی کے ارباب حل و عقد نے حکومت کی مالی امداد کی حصول یابی کو برقرار رکھنے کیلئے ٹرمپ کے بعض مطالبات کو تسلیم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ اس صورتحال سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ مشکل وقت میں اپنے معقول موقف پر قائم رہنا کچھ آسان نہیں ہوتا۔ ٹرمپ اصلاحات کے نام پر یونیورسٹی کے تعلیمی نظام میں جس تبدیلی کے خواہاں ہیں اس کا مقصد اسرائیل سے اپنی والہانہ محبت کو نمایاں کرنا ہے۔ یونیورسٹی کو بھیجے گئے خط میں ٹرمپ نے واضح طور پر یہ کہا ہے کہ کیمپس میں اسرائیل کے خلاف احتجاج اوریہود دشمنی کے افکار کو پروان چڑھنے کے مواقع نہیں فراہم کئے جا سکتے۔ ٹرمپ کا یہ فرمان امریکہ کے اس دوغلے پن کو بھی ظاہر کرتا ہے جو بہ یک وقت امن و آشتی کا حامی اورساتھ ہی اسرائیل کی انسانیت سوز جارحیت کی وکالت کو جائز سمجھتا ہے۔ 
ہارورڈ یونیورسٹی کے صدر نے ٹرمپ کے مطالبات کو یہ کہتے ہوئے مسترد کیا ہے یونیورسٹی امریکی آئین کے فراہم کردہ آزادی کے حق کو رہن نہیں رکھے گی۔ انھوں نے اس بات پر خصوصی زور دیا کہ ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ کے قیام سے ۱۴۰؍ سال پرانی ہے اور یہاں سے تعلیم حاصل کرنے والوں میں ۸؍امریکی صدور کے علاوہ زندگی کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دینے والی ایسی شخصیات ہیں جن کی تحقیق و اختراع اور افکار نے معاشرہ کو ایسے اسباب اور سہولتیں فراہم کی ہیں جن سے زندگی میں آسانیاں پیدا ہوئی ہیں اور ساتھ ہی فہم و دانش کی سطح کو بلندی حاصل ہوئی ہے۔ ٹرمپ کو لکھے گئے خط میں ایلن گاربر نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ہارورڈ یونیورسٹی کا ہدف تکثیری سماج کیلئے کام کرنا ہے اور یونیورسٹی کسی بھی نسل یا مذہب کے خلاف اشتعال انگیز مظاہروں کی مخالف رہی ہے۔ انھوں نے ہارورڈ یونیورسٹی کے اس موقف کو بھی واضح کیا ہے جس کا مقصد سائنسی افکار کو فروغ دینا اور کیمپس کو اظہار رائے کی آزادی کا مرکزبنانا ہے۔ اپنے جواب میں گاربر نے واضح کیاہے کہ ہم کسی بھی ناجائز جبر کے آگے سپر انداز ہونے والے نہیں ہیں خواہ زمام اقتدار کسی کے بھی ہاتھوں میں ہو۔ 
ایلن گاربر کا یہ جواب علم و دانش کی قوت اور درپیش حالات کا جائزہ معروضی طور سے لینے کی صلاحیت کو اجاگر کرتا ہے۔ اس جواب کا جو اثر متوقع تھا وہی ہوا اور ٹرمپ نے ٹیکس ادائیگی میں اس یونیورسٹی کی استثنائی حیثیت کو ختم کر دیا۔ اس کے علاوہ گزشتہ کئی دنوں سے امریکی صدر مسلسل ہارورڈ کے متعلق تضحیک آمیز بیانات دے رہے ہیں ۔ یہ رویہ ان کے اس خبطی پن کو عیاں کرتا ہے جو اپنی مرضی اور خواہش کے آگے آئینی ضابطوں اور اصولوں کو ہیچ سمجھتا ہے۔ دانش گاہوں میں ٹرمپ کی یہ بیجا مداخلت یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ حصول اقتدار کے بعد فسطائی عناصر عوامی افکار و افعال کو پوری طرح اپنی مرضی کا تابع بنانا چاہتے ہیں۔ یونیورسٹیوں کو جاری کئے گئے فرمان میں ٹرمپ نے یہ کہا بھی ہےکہ ان اداروں سے وابستہ طلبہ اور اساتذہ کے سیاسی افکار کا جائزہ حکومت کے کارندے لیں گے تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ کیمپس میں پروان چڑھنے والے افکار حکومت کے موقف اور مرضی کے خلاف نہ ہوں۔ ان کا یہ فرمان نہ صرف اظہار رائے کی آزادی کو سلب کرنے والا ہے بلکہ اس کا مقصد اس فکری تنوع کو بھی مسترد کر دینا ہے جو مختلف افراد کے ذہنی رویہ کو آشکا رکرتا ہے اور آئین کی رو سے یہ فرد کی شخصی آزادی کا لازمی جزو ہے۔ 
ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی مختلف سماجی اور معاشی امور میں جس تیور کا مظاہرہ کیا تھا اس سے یہ اندازہ تو ہو ہی گیا تھا کہ وہ اختلاف رائے کو سہارنے کے قائل نہیں ہیں۔ اب وہ امریکہ کے اعلیٰ تعلیمی نظام کو بھی اسی تیور کے ساتھ اپنا دست نگر بنانے کے درپے ہیں لیکن ہارورڈ نے ان کے اس ناجائز اقدام پر جو رد عمل ظاہر کیا ہے اس سے یہ امید بھی بندھتی ہے کہ نوجوان اذہان کو اپنی فکر کا اسیر بنانے والی ٹرمپ کی خواہش اتنی آسانی سے پوری نہیں ہو سکتی۔ اس مرحلے پر حکومت اور دانش گاہوں کے درمیان جو تصادم کی کیفیت پیدا ہوگی اس سے تعلیمی نظام میں عارضی طور پر خلل تو پڑ سکتا ہے لیکن اگر دیگر یونیورسٹیاں بھی ثبات قدم کا مظاہرہ کریں تو ٹرمپ کو اپنے ناجائز مطالبات سے پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ 
ہارورڈ نے اس معاملے میں قانونی چارہ جوئی کا عندیہ بھی ظاہر کردیا ہے اور ماہرین قانون کا خیال ہے کہ اب یہ تنازع عدالت عظمیٰ تک جا سکتا ہے۔ اقتدار اور دانش گاہوں کا یہ تصادم جو بھی صورت اختیار کرے لیکن اس تلخ حقیقت کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ اس وقت عالمی سطح پر فسطائی عناصر اپنے اقتدار اور اختیار کو محکم بنانے کی خاطر ملک و معاشرہ کو اپنی فکر کا اس حد تک مطیع و فرماں دار بنانا چاہتے ہیں کہ زندگی کے تمام امور میں اختلاف رائے کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہے۔ یہ صورتحال یقیناً انسان کی شخصی آزادی اور سماجی سطح پر افکار و افعال کے اس تنوع کو مسدود کرسکتی ہے جس کے ذریعہ انسانی تہذیب کا ارتقائی سفر بتدریج آگے بڑھ رہا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK