سوال کئی لیکن جواب ندارد ، جیسے یہ کہ کیا واشنگٹن میں کوئی خفیہ معاہدہ ہوا ہے؟ اگر ہاں تو یہ معاہدہ دونوں حکومتوں کے درمیان تھا یا ٹرمپ اور اڈانی کے بیچ یا پھر مودی اور مسک کے درمیان؟
EPAPER
Updated: February 23, 2025, 12:55 PM IST | Yogendra Yadav | Mumbai
سوال کئی لیکن جواب ندارد ، جیسے یہ کہ کیا واشنگٹن میں کوئی خفیہ معاہدہ ہوا ہے؟ اگر ہاں تو یہ معاہدہ دونوں حکومتوں کے درمیان تھا یا ٹرمپ اور اڈانی کے بیچ یا پھر مودی اور مسک کے درمیان؟
ایک نیا بادشاہ دنیا کے تخت پر بیٹھا ہے۔ وہ بدتمیز ہے، بدنیت اوربرے ارادے رکھتا ہے اور بدنام بھی ہے، لیکن ہے تو بادشاہ ! چاروں طرف افراتفری مچی ہے۔ ہر کوئی بادشاہ کی تنک مزاجی سے واقف ہے اور گھبرایا ہوا بھی ہے کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ کب کون سی آفت آجائے؟ اس سے پہلے یہ مقابلہ ہوتا تھا کہ بادشاہ اپنی تاج پوشی کیلئے کس کو مدعو کرے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بادشاہ کب اور کیسے ’درشن‘ دیتا ہے۔ صوبیدار ہو یا رعایا سب ایک لائن میں ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم بھی اسی لائن میں کہیں ہیں۔ نہ صرف نریندر مودی بلکہ ہندوستان کے وزیر اعظم۔ ہماری تاریخ ہے کہ ہمارے ملک کے وزیر اعظم نے کبھی دنیا میں ہر قسم کے سامراج کے خلاف آواز اٹھائی تھی، تیسری دنیا کو منظم کرنے کا حوصلہ دیا تھا، لیکن گزشتہ کئی دہائیوں میں اس نے رفتہ رفتہ ان سب چیزوں کو ایک طرف چھوڑ کر طاقتور ترین لوگوں کی شرائط پر سمجھوتہ کرنا سیکھ لیا ہے۔
نیا بادشاہ ہر طرح کی بکواس کی باتیں کر رہا ہے۔ گرین لینڈ کو خریدنا، کناڈا کو امریکی ریاست بنانا، غزہ پر امریکی قبضہ یا جنوبی افریقہ کی حکومت کو گوروں کے حق میں دھمکی دینا، لیکن ہمارے وزیراعظم کا اس سے کیا لینا دینا؟ ہمیں اپنی ڈیل کی فکر ہے۔ وزیر اعظم کے پیچھے ان کے درباری کھڑے ہیں ، وزیر، محافظ اور میڈیا ان کی گود میں بیٹھا ہے۔ ہمارے وزیر خارجہ بھی وہیں ہیں جو امریکہ میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے تاکہ کسی طرح ہمارے وزیر اعظم کو بادشاہ کی تاجپوشی کی دعوت مل جائے۔ نہیں ملی اور رسوا بھی ہو گیا۔ لیکن اس کے بجائے اسے ایک روزہ دورہ کا تسلی بخش انعام مل گیا۔ دربار کو پبلسٹی کا موقع مل گیا۔ گاؤں میں زمیندار کا منہ لگا ہونے کی یہ افواہ پھیلتے اور پھیلاتے دیر نہیں لگتی کہ زمیندار کا کوئی منہ لگا ساتھی ہے۔ ’ٹھاکر صاحب نے خود مجھے آگے بلایا، اس نے کہا تم تو گھر کے آدمی ہو، لائن میں کیوں کھڑے ہو؟ جانتے ہو، ہاتھ پکڑ کر کرسی پر بٹھایا، بابو جی نے!‘ فائلیں ، اخبارات، ٹی وی اور واٹس ایپ کو فیڈ کرنے کیلئے کافی مواد موجود تھا۔ امریکیوں کو ہمارے لیڈر کی کمزوری کا اندازہ تھا۔ تصویر اچھی ہونی چاہئے، خواہ اس کا مطلب جیب یا گلا کاٹنا ہی کیوں نہ ہو !
گلا کاٹنے کی نوبت نہیں آئی، ضرورت بھی نہیں تھی۔ امریکہ کو ہمیں چین پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ ہمارے سستے انجینئر اور ہماری مارکیٹ چاہتے ہیں ، لیکن سب کچھ ان کی شرائط پر۔ امریکی انتظامیہ نے اس کا ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کیا۔ وزیراعظم کے دورہ سے قبل امریکہ نے وہ سب کچھ کیا جو سفارتی شائستگی کے مانع ہے۔ ان ہی دنوں ہندوستان کے غیر قانونی تارکین وطن کو ہتھکڑیاں لگا کراور ان کی پگڑیاں اتار کر انہیں خالی ہاتھ ہندوستان واپس بھیج دیا گیا۔ ٹرمپ نے جوابی ٹیرف کی دھمکی اسی دن دی جس دن وزیر اعظم امریکہ پہنچے تھے۔ پیغام صاف تھا کہ جناب کا موڈ خراب ہے، اس بار معاملہ سختی سے نپٹا جائے گا۔ کیا بات ہوئی، کیسے ہوئی، اس کا رازتو بعد میں کبھی کھلے گا۔ ہم ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ رسمی بیان کے الفاظ اور مضمرات اور فریقین کے بیانات کو ہی سمجھ سکتے ہیں۔ مطلب پر نظر ڈالیں تو سب کچھ ٹھیک لگتا ہے۔ جیسا کہ ہمیشہ شوگر کوٹیڈ خارجہ پالیسی کے بیانات کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہندوستان اور امریکہ نے تجارت، سرمایہ کاری، سیکوریٹی، توانائی، ٹیکنالوجی، بین الاقوامی تعاون اور عوامی تعاون کے شعبوں میں اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے کے اپنے عزائم کا پھر اعادہ کیا۔ دونوں ممالک نے اگلے چند مہینوں میں ایک نئے تجارتی معاہدے کا اعلان کیا جو اُن کی باہمی تجارت کو دوگنا سے زیادہ کر دے گا۔ دونوں جانب سے غیر قانونی امیگریشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور کسی بھی مجرمانہ سرگرمی کو روکنے میں تعاون کا وعدہ کیا۔ وغیرہ وغیرہ۔
مضمرات ظاہر کرنے سے ان میٹھے الفاظ کے پیچھے سودے بازی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ امریکہ نے ہندوستانی درآمدات پر بھاری ڈیوٹی عائد کرنے کی دھمکی دی۔ ہندوستان نے اس کیلئے کچھ وقت مانگا۔ سودے بازی کے بعد یہ طے پایا کہ ہندوستان بڑے پیمانے پر امریکہ سے ہتھیار اور گیس خریدے گا۔ ۶؍ ماہ میں ایک معاہدہ ہو گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ امریکہ زرعی مصنوعات کو اس معاہدے کے دائرے میں لانے کی کوشش کرے گا جس کا نزلہ ہندوستان کے کسانوں پر گرے گا جس سے وہ متاثر ہو سکتے ہیں۔ مطلب، امریکہ کی شرط مان لی گئی لیکن ہندوستان کو کچھ وقت مل گیا۔ بیان میں ہندوستان سے غیر قانونی تارکین وطن کے ساتھ امریکہ کے سلوک کا ذکر تک نہیں ہے۔ واضح رہے کہ ہندوستانی حکومت نے دوٹوک انداز میں یہ تسلیم کرلیا ہے کہ امریکہ ایسے۲؍ سے۵؍ لاکھ افراد کو ہندوستان بھیج سکتا ہے۔ `مجرمانہ سرگرمیوں کی روک تھام میں تعاون کے جملے کا مطلب یہ ہے کہ اب سے ہندوستانی سیکوریٹی ایجنسیاں امریکہ میں داخل ہو کر کوئی بے جاکام نہیں کریں گی۔ اس معاملے پر ہم بھلے ہی کینیڈا سے جھگڑا مول لے سکتے ہیں لیکن امریکہ کے سامنے خاموشی سے بیٹھیں گے۔ یہاں بھی امریکہ کو مان لیا گیا۔
اگر آپ معنی سے آگے بڑھ کر چھپے ہوئے معنی تلاش کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو سرکاری بیان کے بجائے پریس کانفرنس کو دیکھنا چاہئے۔ امریکہ نے ایک بار پھر ہندوستان کے وزیر اعظم کو میڈیا کے سامنے آنے پر مجبور کیا جس سے وہ گزشتہ۱۰؍ برسوں سے اپنے ملک میں گریز کر رہے ہیں۔ اگرچہ پریس کانفرنس میں جانے والے ہندوستانی میڈیا کے صحافیوں نے چاپلوسی کرکے ہندوستانی میڈیا کی توہین کی لیکن امریکی صحافیوں نے سیدھا سوال کیا کہ کیا اڈانی کو امریکہ میں کرپشن کیس سے بری کرنے کیلئے کوئی ڈیل ہوئی؟ وزیر اعظم نے کسی طرح صورتحال کو سنبھالا لیکن پوری دنیا نے دیکھا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ دوسری جانب ٹرمپ نے ایسی بات کہی جس کا کسی بیان میں ذکر نہیں کیا گیا تھا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ ہندوستان امریکہ سےایف-۳۵؍ لڑاکا طیارے خریدے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت نے ایسی کوئی خریداری شروع بھی نہیں کی۔ یہ طیارہ ہندوستانی فضائیہ کی ضروریات کے مطابق نہیں ہے اور خود ایلن مسک نے اس طیارے کو ردی قرار دےدیا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ ریئل اسٹیٹ کے کاروبار سے وابستہ ہیں اور ہر معاملہ میں سودے بازی کرنے کے لئے مشہور ہیں۔ تو کیا واشنگٹن میں بھی کوئی خفیہ معاہدہ ہوا ہے؟ کیا یہ معاہدہ امریکی حکومت اور ہندوستانی حکومت کے درمیان تھا یا ٹرمپ اور اڈانی کے درمیان یا مودی اور مسک کے درمیان؟ ہمارے پاس اس وقت ان سوالوں کے جوابات نہیں ہیں اور جن کے پاس ہے، وہ گنگنا رہے ہیں۔ ’ `دنیا والے پوچھیں گے، ملاقات ہوئی، کیا بات ہوئی، یہ بات کسی کو مت بتانا‘!