Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

اے آئی پر صحتمند مباحثے وقت کی ضرورت ہیں

Updated: March 02, 2025, 3:20 PM IST | Sandeep Vasilekar | Mumbai

اے آئی پر مباحثے: عالمی سیاسی لیڈران بڑی بڑی کانفرس کررہے ہیں۔ وہ اے آئی سے ہونے والے مسائل کے حل کے بارے میں بات ضرور کرتے ہیں مگر کوئی ٹھوس اقدام نہیں کرتے۔

An interior view of the bus "AI on Wheels" designed by Sachin Joshi. Photo: INN.
سچن جوشی کی بنائی ہوئی بس ’’اے آئی آن وہیلز‘‘ کا ایک اندرونی منظر۔ تصویر: آئی این این۔

مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے مستقبل کے بارے میں دنیا بھر میں بحث زور پکڑ رہی ہے۔ اس موضوع پر ہر ہفتے کسی نہ کسی خطے میں بڑی اور چھوٹی تقریبات اور کانفرنس ہو رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر امریکی کمپنی ’’اوپن اے آئی‘‘ اور چینی اسٹارٹ اپ ’’ڈیپ سیک‘‘ کے درمیان مقابلے کی گونج ہے۔ ترقی پذیر ممالک جدید ٹیکنالوجی تک رسائی کیلئے کڑی جدوجہد کر رہے ہیں۔ 
اہم بات یہ ہے کہ ان مباحثوں میں اے آئی شعبے کے ذریعے پیدا ہونے والے مسائل کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اے آئی، انسانوں سے زیادہ طاقتور ہو سکتا ہے، اور ایسا ۲۰۳۵ء یا پھر ۲۰۳۰ء تک بھی ہونا ممکن ہے۔ اگر ’’آرٹی فیشیل جنرل انٹیلی جنس‘‘ کی تخلیق ہوجاتی ہے تو یہ انسانوں کو اپنا غلام بنا سکتا ہے۔ یہ زمین پر موجود ہر ذی روح کو تباہ کر سکتا ہے۔ یہ جوہری ہتھیاروں کی حکمرانی میں استعمال ہونے والے سائبر سسٹم میں ہیرا پھیری کر سکتا ہے۔ اس کے بعد یہ کریملن یا وہائٹ ہاؤس کے درمیان کسی کی اجازت کے بغیر عالمی جنگ شروع کر سکتا ہے۔ 
ایک خطرہ یہ بھی ہے کہ انسانیت کا ایک بڑا حصہ بنیادی ٹیکنالوجی سیکھنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتا۔ اس طرح ۲؍ ارب سے زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کا شمار کم تعلیم یافتہ انسانوں میں ہونے لگے گا۔ اس سے عالمی ذات پات کا نظام قائم ہوگا۔ دنیا کے تقریباً ایک تہائی لوگوں کو انٹرنیٹ تک رسائی نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اسکول جانے والے بچوں کی غالباً نصف تعداد انٹرنیٹ سے اب تک محروم ہے۔ 
عالمی سیاسی لیڈران بڑی بڑی کانفرس کر رہے ہیں۔ ان کیلئے اے آئی کا ’’اخلاقی استعمال‘‘ (ایتھیکل یوز) کے بارے میں بیانات جاری کرنا اب عام ہوگیا ہے۔ وہ مسائل کے حل کے بارے میں بات ضرور کرتے ہیں مگر کوئی ٹھوس اقدام نہیں کرتے۔ لیڈران اور ان کے مشیر فقروں اور لفظوں میں عام شہریوں کو الجھانے میں ماہر ہیں۔ وہ انسانیت کیلئے موجود خطرات کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں۔ وہ اس خطرے کو بھی تسلیم نہیں کرتے ہیں کہ اے آئی ذات پات کے ایک نئے نظام کو جنم دے گا، یعنی کمپیوٹر اور انٹرنیٹ سے لیس اور ان کے بغیر رہنے والے افراد۔ 
۲۰۲۴ء میں کیمسٹری کا نوبیل انعام پانے والے ڈیمس ہاسابیس انسانی جسم میں پروٹین کی صحیح ساخت کا پتہ لگانے کیلئے اے آئی تیار کرنے کیلئے جانے جاتے ہیں۔ یہ بہت سی نئی ادویات کی دریافت کا باعث بن سکتا ہے۔ انہوں نے اے آئی پر حکومت کرنے کیلئے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) جیسی تنظیم بنانے کی تجویز دی ہے مگر عالمی لیڈر اس پر بات نہیں کرنا چاہتے۔ مضمون نگار نے گزشتہ ۲؍ برسوں میں طاقتور ممالک کے متعدد ماہرین سے دریافت کیا تھا کہ کیا ہم جوہری ہتھیاروں میں اے آئی کے کردار کو کنٹرول کرنے کیلئے آئی اے ای اے میں ایک خصوصی محکمہ بنا کر شروعات کر سکتے ہیں ؟ سبھی نے اسے ناممکن قرار دیا۔ دسمبر میں مجھے نوبیل انعام یافتہ اور ایک دہائی تک آئی اے ای اے کے سابق ڈائریکٹر رہے ڈاکٹر محمد البرادعی سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بالکل ممکن ہے۔ اگلی صبح، میں نے یہی سوال آسٹریا کی حکومت کے ایک سینئر اہلکار سے پوچھا۔ وہ کئی دہائیوں سے متذکرہ شعبے کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے بھی کہا کہ یہ ممکن ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت دنیا ڈیمس ہاسابیس کے اے جی آئی کیلئے عالمی ایجنسی کے خیال پر بات چیت کر سکتی ہے نہ کہ جوہری ہتھیاروں میں اے آئی کے کردار کیلئے۔  راقم نے گزشتہ ہفتے کے آخر میں اس تعلق سے ایک حیرت انگیز حل تلاش کیا۔ ناسک (مہاراشٹر، ہندوستان) میں ایک نوجوان ماہر تعلیم سچن جوشی ہیں۔ ایشیا، مشرق وسطیٰ، لاطینی امریکہ اور افریقہ کے بہت سے شہروں کی طرح ناسک میں غریب بچوں کی ایک بڑی آبادی ہے جن کے پاس کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون نہیں ہیں۔ یہ اکثر بجلی سے بھی محروم رہتے ہیں۔ وہ سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جہاں بنیادی سہولیات نہیں ہیں۔ ۱۰؍ سال کے بیشتر بچوں میں پڑھنے لکھنے کی وہ صلاحیت نہیں ہوتی جو نجی پرائمری اسکول کے ۵؍ سے ۶؍ سال کی عمر کے بچوں میں ہوتی ہے۔ آپ ایسے بچوں کو اے آئی ٹولز کیسے سکھا سکتے ہیں ؟ یا پھر انہیں دنیا کی نئی ٹیکنالوجیز سے مستقل طور پر محروم کر دیا جائے؟
سچن جوشی نے ایک ’موبائل بس‘ (چلنے پھرنے والی بس) بنائی ہے جسے ’’اے آئی آن وہیلز‘‘ کا نام دیا ہے۔ اس بس میں مختلف اے آئی ٹولز سے لیس کمپیوٹرز ہیں جن میں ریکارڈنگ اسٹوڈیو، روبوٹک لیبارٹری، ٹیبلٹس، لیپ ٹاپ، اسکرینز، تیز رفتار موڈیم اور شمسی پینل سے چلنے والی بہت سی دیگر سہولیات ہیں۔ سچن ناسک کی کچی آبادیوں میں جاتے ہیں اور مزدوروں کے بچوں کو پڑھنے، لکھنے اور ریاضی کو انتہائی تیز رفتاری سے سیکھنے کی تربیت دینے کیلئے اے آئی ٹولز کا استعمال کرتے ہیں۔ بس میں اساتذہ بچوں کو بہت سی تخلیقی سرگرمیوں کیلئے اے آئی ٹولز سیکھنے اور استعمال کرنا بھی سکھاتے ہیں۔ امید ہے کہ یہ بس اگلے چند برسوں میں ناسک میں موجود ڈجیٹل فرق کو پُر کر دے گی۔ 
ایک بس ایک شہر کے چند سو بچوں کی زندگی بدل سکتی ہے مگر دنیا کو نہیں۔ ہمیں ہندوستان میں اور درحقیقت مشرق وسطیٰ، ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں ایسے سیکڑوں موبائل اسکولوں کی ضرورت ہے۔ دنیا کی بہترین اور جدید ترین ٹیکنالوجی پر غریبوں کا بھی حق ہے۔ ہمیں نیچے سے لے کر اوپر تک، ہر مسئلہ پر نظر رکھنی چاہئے کہ کہیں ہم سے کوئی چوک نہ ہوجائے۔ ہمیں اے آئی کو انسانی تہذیب پر قبضہ کرنے سے روکنے کیلئے ایک عالمی ایجنسی بنانے کی ضرورت ہے۔ اور اس کیلئے ڈیمس ہاسابیس کے تجویز کردہ خیالات کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ 

(سندیپ واسلیکر، اسٹریٹجک فورسائٹ گروپ کے صدر ہیں، جو ایک بین الاقوامی تھنک ٹینک ہے۔ آپ ’’اے ورلڈ وِدآؤٹ وار‘‘ 
کے مصنف بھی ہیں۔ )

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK