• Thu, 02 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

والدین اور اساتذہ اپنی ذمہ داریاں سمجھ لیں تو تعلیمی نظام میں بہتری آسکتی ہے

Updated: December 29, 2024, 3:09 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

والدین کے ساتھ ساتھ طلبہ نے بھی اس ناکامی کے خوب مزے لوٹے کہ ہوم ورک نہ کرنے پر ڈانٹ اور غیر حاضر رہنے پرسرزنش حتّیٰ کہ کسی بد تمیزی پر ناپسندیدگی کا اظہار بھی اساتذہ کی جانب سے طلبہ کو ذہنی تنائو میں مبتلا کرنا ثابت کیا جانے لگا۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

وطن عزیز کا تعلیمی نظام کبھی تِکونا یا مثلّث نما ہوا کرتا تھا: طلبہ، اساتذہ اور والدین۔ اس مثلّث میں پھر ایک ضلع اور زاویہ جُڑ گیا اور وہ تھاتعلیمی ادارے کا انتظامیہ کہ طلبہ، اساتذہ و والدین کا مثلث نما نظام احسن طریقے سے چل رہا ہو مگر اُس کے نظم میں ادارے کے منتظمین کا رویّہ کس قدر مثبت ہے یا انتظامیہ کا اپنا کوئی ایجنڈا جاری ہے؟ مربع نما تعلیمی نظام میں مزید ایک ضلع، زاویہ جُڑ گیا اور وہ تھا معاشرہ! اس کا رول اس لحاظ سے اہم بن گیا کہ تعلیمی نظام میں معاشرے کا کردار کتنا صحیح رُخ پر ہے۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہو اور اچانک معلوم ہواکہ اسکول کے ۵؍طلبہ تو یونیفارم اور کتابیں بھی نہیں خرید سکتے۔ اُس پر معاشرہ کچھ متحرک ہوبھی جاتا ہے یا بے حِس پڑا رہتا ہے یا بالفرض اچانک اسکول کی دیوار گر گئی اب معاشرے کا رویّہ کیا ہے؟ انتظامیہ کے صدر یا سیکریٹری کو ذمّہ دار قرار دے کر پلّہ جھاڑ دیتا ہے یامعاشرے کا کوئی فرد اعلان کردیتا ہے کہ وہ دس بورے سیمنٹ، کوئی ۱۰۰؍عدد اینٹ اور کوئی مزدوری ادا کرنے کیلئے آگے بڑھتا ہے۔ معاشرے کا عنصر جُڑنے کے بعد تعلیمی نظام مخمّس نما بن گیا۔ 
یہاں تک تو سب ٹھک ٹھاک تھا مگر اُس مخمّس میں ایک چھٹا عنصر جُڑ گیا اور اس طرح ہمارا تعلیمی نظام مسدّس نما بن گیا البتہ یہی ضلع و زاویہ سب سے خطرناک ثابت ہورہا ہے اور اُس کا نام ہے: حکومت۔ جی ہاں جب سے حکومت نام کا عنصر اس تعلیمی نظام میں جُڑ گیا تب سے سارا نظام تہہ وہ بالا ہوگیا۔ طلبہ کتنی ہی بڑی اُڑان کا قصد کریں، اساتذہ اپنی تمام تر تخلیقی و اختراعی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں، والدین اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھائیں، معاشرہ اپنی بھرپوربیداری کا ثبوت دے البتہ گورنمنٹ کا ایک حکمنامہ(جی آر ) آجاتا ہے اور سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ اس ضمن میں بیسوں مثالیں دی جاسکتی ہیں :
(۱) دنیا بھر کے تعلیمی و معاشرتی نظام میں ہمیشہ ہی سے معلّم کو ایک اعلیٰ وارفع مقام حاصل رہا ہے۔ ہمارے پیغمبرؐ نے اپنے آپ کو راہ نما، راہ بر وغیرہ کہنے سے پہلے معلم قرادیا تھا۔ ایک معلم کا وقار اس سے عیاں ہے۔ دوسروں کے یہاں بھی گُرو، گُروکُل اورگُرو دَکشِنا جیسے اصطلاحات عام ہیں۔ قصّوں کہانیوں اور قلمی تصویروں میں بھی ہم نے دیکھا ہے کہ راجہ مہاراجائوں نے اپنے گُرو یا اُستاد کے کھڑائوں سیدھے کئے ہیں۔ جب سرکاری ماہرینِ تعلیم نے طے کر لیا کہ اساتذہ کے بجائے طلبہ و والدین کو خوش کیا جائے تب حکم نامہ یہ جاری ہوا کہ خبردار جو اساتذہ نے کوئی ایسی بات کہی جس سے طلبہ میں ذہنی تنائو پیدا ہوجائے۔ عجب بات یہ ہے کہ یہ سارے سرکاری ماہرینِ تعلیم’ ذہنی تنائو‘کی تعریف بیان نہیں کرپائے۔ والدین کے ساتھ ساتھ طلبہ نے بھی اس ناکامی کے خوب مزے لوٹے کہ ہوم ورک نہ کرنے پر ڈانٹ اور غیر حاضر رہنے پرسرزنش حتّیٰ کہ کسی بد تمیزی پر ناپسندیدگی کا اظہار بھی اساتذہ کی جانب سے طلبہ کو ذہنی تنائو میں مبتلا کرنا ثابت کیا جانے لگا۔ حکومت نے سختی کے ساتھ اعلان کردیا کہ اسکول میں تاریخ، جغرافیہ، سائنس، حساب پڑھائو اور نکل جائو۔ اخلاقیات، ڈسپلن، نظم و ضبط وغیرہ سکھانے میں وقت ضائع نہ کرو، ورنہ قانون کے شکنجوں سے نکل نہیں پائو گے۔ افسوس کہ ہمارے والدین نے اسے من و عن قبول کرلیا۔ 
(۲) حکومت کے ملک کے تعلیمی نظام میں بے جا، بے تُکی اور بے مقصد مداخلت ہی کی بناء پر ۲۰۰۹ء میں ایک نئی پالیسی عمل میں آئی تھی کہ آٹھویں جماعت تک کوئی امتحان نہیں لیا جائے گا۔ اس ضمن میں سرکاری ماہرینِ تعلیم بڑی دُور کی کوڑی یہ لے آئے کہ امتحان ہی ساری خرابیوں کی جَڑ ہے اور امتحان کے نام سے طلبہ میں ذہنی تنائو پیدا ہوتا ہے۔ ہم اپنے کالموں میں اِن احمقانہ دلائل پر مسلسل بحث کر چکے ہیں کہ:
 (الف) امتحان اس کائنات کے نظام کی بنیاد ہے۔ ہم سبھی امتحان گاہ میں امتحان دے رہے ہیں۔ (ب) تعلیمی نظام میں اگر امتحان نہ ہو تو طلبہ نے کیا پڑھا؟ یا اساتذہ نے کیا پڑھایا؟ اُس کو ناپنے کا بیرو میٹر کیا ہے؟ (ج) آٹھویں تک کوئی امتحان نہیں یعنی نویں جماعت سے بچّہ گنتی وہ پہاڑے شروع کرے گا۔ اس قدر شدید تعلیمی نقصان کا ذمہ دار کون ہے؟ (د)ذہنی تنائو تو کسی کا روبار وغیرہ کے نقصان سے بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ بچّوں کو امتحان کے نام ہی سے کوفت ہورہی تو اُن کے من کو بھانے والا کوئی نام اُسے دیا جائے؟لگ بھگ ۱۶؍برس تک ابتدائی تعلیم کے نظام کو درہم برہم کرنے کے بعد ازخرابیٔ بسیار کچھ ہوش آیا تو چند روزقبل ہی پانچویں اور آٹھویں جماعت میں دوبارہ امتحانی سلسلہ جاری کرنے کا خیال آیا ہے۔ 
(۳) رائٹ ٹو ایجوکیشن کی کھوکھلی پالیسی مرتّب کرنے سے پہلے حکومتی ماہرینِ تعلیم اس کلیدی نکتے کو بھول گئے کہ کسی بھی نظام کی بنیاد ہوتی ہے : جواب دہی ! اب اس کیلئے رائج یہ ہواکہ اساتذہ خود اپنی کارکردگی لکھیں گے کہ اُنھوں نے کلاس روم میں کیا کیا۔ لہٰذا ہر روز ڈائریاں بھر بھر کر اساتذہ اپنی کارکردگی لکھنے اورخود ہی اُن کی تصدیق کرتے رہے اور اس طرح اچھے خاصے سند یافتہ، ڈِگری یافتہ اورکچھ اچھے اساتذہ فُل ٹائم کلرک بھی بن کر رہ گئے۔ اس میں لطف کی بات یہ بھی ہے کہ اساتذہ کو اپنی کارکردگی لکھنے کیلئے لگ بھگ ۳۰۰؍جملے بالکل تیار کر کے ایک ڈائری میں دیئے گئے۔ وہ جملے یہ تھے : طالب علم بہتر کر رہا ہے، طالب علم میں بہتری کے آثار لگ رہے ہیں، طالب علم بہتر کرے گا، طالب علم بہتری کی طرف بڑھ رہا ہے وغیرہ۔ جی ہاں ! طالب علم کی کارکردگی کے بارے میں زمانۂ ماضی، حال اور مستقبل ہر زمانے کے جملے! جی ہاں اس سرکاری مشنری نے اساتذہ کو کچھ اس حد تک احمق سمجھ رکھا ہے کہ طالب علم میں کیا تبدیلی آرہی ہے اُس کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ اس لئے ریڈی میڈ چند جملوں سے اُنھیں خانہ پُری پر مامور کردیا گیا ہے۔ 
(۴)تعلیمی نظام سے سیاست یا حکومت کے جُڑنے سے بڑا نقصان یہ بھی ہوا کہ تعلیم کی مکمل نجکاری (پرائیویٹائزیشن)کا سفر شروع ہوا اور اس طرح دھنّا سیٹھوں کو تعلیمی ادارے کھولنے کی اجازت مل گئی۔ جس کا ایک ہی منتر تھا کہ جس کے پاس روپیہ پیسہ ہے وہ پڑھے، باقی سب اعلیٰ تعلیم کو بھول جائیں۔ اس طرح خصوصاً انجینئرنگ اور فارمیسی وغیرہ کالجوں کے نام پر دکانیں اور کارخانے کھل گئے۔ اوّل تو اُن میں سے اکثر کا معیار گھٹیا اور دوم یہ کہ ڈیمانڈ سے زیادہ سپلائی شروع ہوگئی اور لاکھوں کی تعداد میں صرف ڈِگری یافتہ انجینئرس کی فیکٹری کھُل گئی اور پھر وہ اپنی فیلڈ کے علاوہ ہر جگہ دکھائی دینے لگے لہٰذا انجینئرس بینکوں میں کلرک بننے کی قطار میں بھی دکھائی دینے لگے اور پیزا اور پاستہ ڈیلیوری کرتے بھی نظر آنے لگے اور کچھ تو سیاست دانوں کے ہتّھے چڑھ کر اُن کی پارٹی کے آئی ٹی سیل میں شامل ہوکر جمہوریت و اخلاقی قدروں کا مذاق اُڑانے اور اُس سے غلط کمائی بھی کرنے لگے۔ اس طرح فارغ انجینئرس کی ایک بڑی تعداد شدید مایوسی، فرسٹریشن اور ڈِپریشن کا بھی شکار ہوگئی۔ ہمارا تعلیمی نظام اس درجہ پست کیوں کر ہوگیا کہ وہ طلبہ کو ڈِگری کے ساتھ ساتھ افسردگی، اضمحلال اور ڈِپریشن کی سوغات بھی بانٹ رہا ہے ؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK