یتیم خانے ہماری تعلیم گاہوں سے کم اہمیت کے حامل ادارے نہیں ہیں۔ ہمیں اِن کو کردار سازی اور زندگی سازی کے مثالی اداروں میں تبدیل کرنا ہے۔
EPAPER
Updated: March 09, 2025, 2:06 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai
یتیم خانے ہماری تعلیم گاہوں سے کم اہمیت کے حامل ادارے نہیں ہیں۔ ہمیں اِن کو کردار سازی اور زندگی سازی کے مثالی اداروں میں تبدیل کرنا ہے۔
رمضان میں ہمارے معاشرے میں یتیم خانوں پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے البتہ یہ ادارے ہماری مستقل توجہ کے مستحق ہیں کیوں کہ معاشرے کی ہمہ جہت ترقی میں یہ کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔
جب بھی کبھی نادار، مسکین، بے سہارا اور بے آسرا انسانوں کی بات ہوتی ہے تب سب سے پہلے ذہن میں نام آتا ہے ’یتیم‘۔ یتیم سے زیادہ مستحق کوئی نظر نہیں آتا اور ہر کسی کے دِل میں سب سے زیادہ نرم گوشہ یتیم کیلئے ہی ہوتا ہے۔ ربِّ کائنات کی آخری کتاب میں یتیم کا ذکر ۲۲؍ آیات میں آیا ہے۔ اُس کے ساتھ حسنِ سلوک پر بے پناہ اجر اور اُس کے ساتھ نا انصافی پر وعید کااعلان کیا گیا ہے۔ ہماری قوم میں اِن یتیموں کیلئے سرائے و یتیم خانے کے انتظام کی بڑی طویل و احسن روایت رہی ہے اور آج بھی ہماری قوم میں بے شمار چھوٹے بڑے یتیم خانے جاری، ساری اور قائم ہیں۔
یتیم خانے کے ضمن میں البتہ ہماری رائے یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں دو قسم کے یتیم پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو باپ یا ماں یا دونوں کے وفات پاجانے کی بناء پر یتیم ہوگئے البتہ ہمارے یہاں دوسرے ایسے بھی یتیم پائے جاتے ہیں (الف)جن کے ماں و باپ دونوں حیات ہیں مگر وہ یہ اعلان کرتے ہیں کہ اُن کے بچّے یتیم ہیں۔ (ب) ایک وہ جو عسرت اور غربت کی بناء پر اپنے بچّوں کی تعلیم و تربیت درکنار اُن کی کفالت تک نہیں کرسکتے۔ (ج) ایک وہ بچّے جو زندہ تو ہیں مگر ہر قسم کی تربیت و ترقی کیلئے ضروری سارے لوازمات سے عاری۔ آج وقت آن پڑا ہے کہ ہمارے یہاں اِن سارے قسم کے یتیموں کو جینے اور وقار کے ساتھ جینے کے سامان مہیا کرنے والے یتیم خانوں کا ہم قیام کریں۔
ہم نے ملک بھر کے کئی علاقوں میں یتیم خانوں کا دورہ کیا اور کئی جگہوں پر ان کاانتظام بہت حد تک اطمینان بخش پایا ہے۔ بحسن و خوبی انتظام کی بناء پرآج صرف حقیقی یتیم بچّوں ہی کیلئے نہیں بلکہ تمام بے سہارا بچّوں کیلئے یتیم خانے محفوظ پناہ گاہیں اور عافیت گاہیں بن گئی ہیں۔ اس سلسلے میں مزید سنجیدگی کی اشد ضرورت ہے۔ ہم اپنے محلوں میں ، گلیوں میں، بستیوں میں آج بھی لاکھوں ایسے بچّے بے آسرا و بے سہارا گھومتے دیکھ رہے ہیں جو زندگی سے پوری طرح کٹے ہوئے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ دن بھر آوارہ پھر رہے ہیں، کھانے کی چیزوں کیلئے کچرے کے ڈھیر کا رُخ کرتے ہیں اور رات آتے ہی زمین کو بچھونا بنالیتے ہیں او ر اپنے سر پر آسمان کی چادر تان کر سو جاتے ہیں۔ اِن میں اکثر کسی نشے یا ڈرگس کے عادی بھی بن جاتے ہیں، اور اُنھیں زندگی کے اُجالوں سے اس درجہ اُکتاہٹ بلکہ نفرت تک ہوجاتی ہے کہ اگر اُنھیں کسی یتیم خانے میں داخل کیا جائے تو وہ پہلے تو وہاں سبھوں کا جینا حرام کردیتے ہیں اور پھر وہاں سے بھاگ بھی جاتے ہیں۔ اسکول میں داخلہ دلایا جائے تو وہ بستہ لے کر اسکول کے علاوہ کہیں بھی جاکر وقت گزاری کرتے ہیں۔ پورا دن اس اُدھیڑ بُن میں رہتے ہیں کہ کہیں سے دس بیس اور ممکن ہو تو پچاس روپے کمائے جائیں، پلاسٹک کی بوتلیں یا کچرا بیچ کر، ٹرین یا اسٹیشن پر کسی کی تھیلی اُچک کر یا تاش کے پتّوں کی چھوٹی موٹی بازی جیت کر وغیرہ۔ کیا ہمارا ضمیر پھر بھی نہیں جاگتا کہ ہم اِن قسم کے یتیم بچّوں کیلئے یتیم خانے تعمیر نہیں کرسکتے ہیں ؟
آج ہمارے یہاں جو یتیم خانے جاری ہیں اُن کو تھوڑی سی محنت اور ویژن کے ساتھ بہت زیادہ موثر اور مثالی بناسکتے ہیں۔ اس کیلئے ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم میں سے ہر فرد یہ سمجھے کہ وہاں جو بچّے پَل رہے ہیں وہ سبھی ہمارے اپنے بچّے ہیں۔ صرف اس صورت میں ہمارے یتیم خانے بھی ہمارے گھروں جیسے دکھائی دیں گے۔ ہمارے ہاں کچھ یتیم خانوں میں صرف دینی تعلیم کا نظم کیا جاتا ہے جب کہ اُن بچّوں کو عصری نظامِ تعلیم سے جوڑا جاسکتا ہے۔ کہیں دینی تعلیم یعنی عالمیت، فضیلت اور حفظ کے بعد چھوٹے موٹے کورسیز سے اُنھیں متعارف کیا جاتا ہے۔ پچھلے وقتوں میں ان کورسیز کے نام تھے، کارپینٹر، الیکٹریشین، ٹیلرنگ وغیرہ۔ اب یہاں چند کمپیوٹرس نصب کئے جاتے ہیں اور اُنھیں ڈیٹا اینٹری آپریٹرس بنایا جاتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ بچّے جو عا لمیت وفضلیت میں جوہر دکھانے کے علاوہ دنیا کی عظیم ترین اور ضخیم آخری کتاب کو زیر و زبر کی صحت کے ساتھ اپنے دل و دماغ میں محفوظ کرلیتے ہیں، جن کاحافظہ ۲۴؍کیریٹ کا ہوتا ہے، ہم اُنھیں صرف اس لائق سمجھتے ہیں کہ وہ بڑھئی بنیں یا ڈرائیور؟ ہم اگر اُن بچّوں کو واقعی اپنا سمجھتے ہیں تو ایک بریج کورس کے ذریعے اُنھیں زندگی کی دھارا سے جوڑ سکتے ہیں۔ ہمارے یتیم خانے صرف تین وقت کے کھانے اور دو جوڑی کپڑوں کے فراہمی والے ادارے نہ بن جائیں بلکہ اُن میں زندگی کے سارے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت موجود ہو اور اس سلسلے میں یتیم خانوں کے تمام ذمہ داران کو سرجوڑ کر بیٹھنے کاوقت آن پڑا ہے۔
ہمارے یہاں لڑکیوں کے یتیم خانے بھی موجود ہیں، کم و بیش دو ایسے اداروں سے وابستگی کی بناء پر ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اِن میں پلنے والی بچّیاں کسی لحاظ سے کم نہیں ہوتیں۔ لڑکیوں کے اِن یتیم خانوں کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ اُن بچّیوں کے سب سے بڑے مسئلے یعنی مناسب جگہ پر اُن کے نکاح سے اُن کے گھر بسانے میں بھی عملی مدد کی جاتی ہے۔ ایسی ہی دو یتیم بچّیوں کی نکاح کی تقریب میں ہم نے حاضرین سے مخاطب ہوکر کہا تھا کہ ’’ہر کوئی چاہتاہے کہ اُس کے گھر میں ایک اچھی، اچھے کردارکی مالک بہو آجائے جو ہمارے گھروں میں پلنے والی برائیاں جیسے حسد و جلن، لگائی بجھائی، کھوٹ کپٹ سب سے پاک ہو، تو اُسے کسی یتیم خانے کا رُخ کرنا چاہئے کیوں کہ وہاں وہ بچّیاں پلتی ہیں جن کے ذہن آلودہ نہیں ہیں۔ وہ گھریلو جھگڑے اور فتنوں سے پاک ہیں۔ ہمارے گھروں میں گھر کے افراد، رشتہ دار وغیرہ کے ذریعے جو غیبت، آپسی رقابت کے فتنے ۲۴؍گھنٹے جاری رہتے ہیں ، ہمارے یتیم خانے کے بچّیاں اِن سب سے پاک رہتی ہیں۔ آج بھی ہمارے یتیم خانوں میں موبائیل کی رسائی نہیں ہے، اسلئے اخلاق سوز مناظر سے وہ پاک ہیں لہٰذا اگر بہت باکردار بہو آپ کو چاہئے تو یتیم خانے کا رُخ کیجئے۔ ‘‘
بچّیوں کے یتیم خانے کے وارڈن کا کہنا ہے کہ الحمد اللہ ہمارے اُس خطاب کے بعد اچھے اچھے گھروں نے بھی بہو کی تلاش میں لڑکیوں کے اس یتیم خانے کا رُخ کرنا شروع کیا۔ ہمارے ٹوٹتے، بکھرتے معاشرے میں لڑکے کیا کر رہے ہیں ؟ نکّڑوں پر ہلّڑبازی، بائیک ریسنگ، علاقے میں دھونس اور بھائی گیری، مسجد کے سامنے تک پارکنگ کے نام پر جھگڑے، رات رات بھر محلوں میں اودھم مچاتے، دِن چڑھتے بڑی بیزاری سے جاگتے، اپنے ماں باپ کو اُن کی قربانیوں کا حساب کتاب سمجھاتے! التّہ یتیم خانوں میں پلنے والے لڑکے اِن ساری علّتوں سے پاک ہیں !
ہمارے یتیم خانے ہماری تعلیم گاہوں سے کم اہمیت کے حامل ادارے نہیں ہیں۔ ہمیں اِن کو کردار سازی اور زندگی سازی کے مثالی اداروں میں تبدیل کرنا ہے۔ ہمیں ہمارا یہ نظریہ بھی تبدیل کرنا ہوگا کہ یتیم خانے صرف ثواب کمانے کی مشینیں ہیں یا صرف ہمارے صدقات کی مستحق پناہ گاہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے گھروں میں اور اُس کے ماحول میں اب کچھ ایسا کرپشن، ایسی ملاوٹ اور ایسی کھوٹ رَچ بس رہی ہے کہ اب ہمارے معاشرے کے یتیم خانے متبادل اور مثالی گھر ثابت ہوسکتے ہیں۔