• Wed, 01 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

نااُمیدی کے بیچ چند عدالتی فیصلوں  نے اُمید جگائی

Updated: December 29, 2024, 3:41 PM IST | Asim Jalal | Mumbai

الیکٹورل بانڈ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیس اور بلڈوزر راج کیخلاف مقدمہ پر عدلیہ کے رُخ نے اُس پراعتماد کو بحال کیا ہے البتہ کچھ ججوں   کے متنازع رویے فکرمند ی کا باعث بھی بنے۔

Even in this critical period, if the public is seeing any ray of hope from anywhere, it is the Supreme Court. Photo: INN.
اس نازک دور میں بھی عوام کو اگر کہیں سے امید کی کوئی کرن دکھائی دے رہی ہے تو وہ سپریم کورٹ ہے۔ تصویر: آئی این این۔

 انگلینڈ کے لارڈ چیف جسٹس لارڈ وِسکاؤنڈ ہیوارٹ کا ۱۰۰؍ سال قبل یعنی ۱۹۲۴ء کا یہ مقولہ عدالتی نظام کیلئے ضرب المثل بن گیا ہے کہ ’’انصاف صرف ہونا نہیں  چاہئے بلکہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہئے۔ ‘‘ اس مفروضے کے کلیدی نکتےکو بنیاد بنا کر یہ بھی کہا جاسکتاہے کہ عدالتی نظام کیلئے صرف مبنی برانصاف، غیر جانبدار اور آزاد ہونا ہی کافی نہیں  ہے بلکہ اس کیلئے ایسا نظر آنا بھی ضروری ہے۔ نوٹ بندی کو صحیح ٹھہرانا ہو کہ آرٹیکل ۳۷۰؍ کے خلاف پٹیشن کو خارج کرنا یا پھر ای ڈی کے اختیارات کے خلاف اپیلوں کو مسترد کردینا، گزشتہ چند برسوں  میں  عدالتوں نے ایسے کئی فیصلے سنائے جن سے یہ عوامی تاثر قائم ہونے لگا تھا کہ عدالتیں عاملہ (حکومت) کے موقف پر بہت زیادہ سوال اٹھائے بغیر یا یہ کہیں  کہ شبہ کافائدہ دیتے ہوئے اکثر جوں  کا توں قبول کرلیتی ہیں۔ اس کی وجہ سے عوامی سطح  ہی نہیں   بلکہ سیاسی حلقوں  میں   بھی عدالتوں   کے تعلق سے ہلکی مایوسی محسوس کی جانےلگی تھی۔ ۲۰۲۴ء کے کئی فیصلوں  نے اس مایوسی کو زائل کرنے کی راہ ہموار کی مگر اس بیچ چند ججوں کے رویے نے فکرمندی میں اضافہ بھی کیا۔ 
۲۰۲۴ء میں سنائے گئے چند اہم فیصلوں  پر نظر ڈالیں تو سال کے آغاز میں  ہی فروری میں سنایاگیا  الیکٹورل بانڈ کی منسوخی کے فیصلے نے جو فضا قائم کی تھی وہ نومبر میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کیس میں  اور بلڈوزر راج کے خلاف فیصلے تک برقرار رہی۔ یہاں  ایسے تمام فیصلوں  کا احاطہ کرنا مشکل ہےجو ملک کے سماجی، سیاسی اور قانونی منظر نامہ میں   دیر پا اثر چھوڑیں گے تاہم اگر (مودی سرکار کی رضامندی سے) گجرات حکومت کے ذریعہ بلقیس بانو کے مجرمین کی معافی اوران کی رہائی کے خلاف عدالتی فیصلے اور اتر پردیش میں  مدرسہ بورڈ سے متعلق قانون کو غیر آئینی قرار دینے کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو بدلنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ نہ دیا جائے تو مناسب نہیں ہوگا۔ 
سپریم کورٹ نے الیکٹورل بانڈ کے حق میں  مودی حکومت کے تمام دلائل کو مسترد کرتے ہوئے ۱۵؍ فروری ۲۰۲۴ء کوجو فیصلہ سنایا وہ موجودہ حالات میں   ہندوستان میں  جمہوریت کی بقاکیلئے انتہائی اہم ہےا ور اس لحاظ سے سنگ میل کی حیثیت رکھتاہے۔ عدالت نے خفیہ چندہ وصول کرنے کی اِس پوری اسکیم کو ہی ’’غیر آئینی‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کیلئے انکم ٹیکس ایکٹ، عوامی نمائندگی قانون اور کمپنیز ایکٹ میں پارلیمنٹ کے ذریعہ کی گئی ترامیم کو کالعدم قراردیا۔ 
اس سے قبل بلقیس بانو کیس کے مجرموں  کو ۱۵؍ اگست کو عام معافی دیکر رہا کردینے کے سرکاری فیصلے کو جس طرح  عدالت نے سرزنش کرتے ہوئے بدلا اور خاطیوں  کو دوبارہ جیل بھیجنے کا حکم سنایا، وہ نہ صرف ملک کے مظلوم طبقات کیلئے اطمینان کا باعث ہے بلکہ ان لوگوں  کیلئے انتباہ بھی ہے جو’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کے اصول کو ملک میں   حقیقی طور پر نافذ کرنےکیلئے کوشاں  ہیں۔ 
اسی طرح اکتوبر میں آسام کے پس منظر میں  سنایا گیا سپریم کورٹ کی ۵؍ رکنی بنچ کا وہ فیصلہ بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے جس میں سٹیزن شپ ایکٹ ۱۹۹۵ء کے سیکشن ’۶؍ اے‘ کی آئینی حیثیت پر مہر لگادی گئی ہے۔ اس کے تحت اب یہ طے ہوگیا کہ آسام معاہدہ کے تحت ۲۵؍ مارچ ۱۹۷۱ء تک آسام میں  داخل ہونےوالے افراد ملک کے شہری ہیں۔ یہ آسام کی ہیمنت بسوا شرما سرکار کیلئے تازیانہ ہےجو ’’ آسامی شناخت‘‘ کے بہانے ہندوتوا کی سیاست کررہے اور ۱۹۵۱ء کے بعد آسام میں  داخل ہونے والے افراد کو شہریت سے محروم کردینے کی چال چل رہے تھے۔ 
اتر پردیش بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ ۲۰۰۴ء کی بحالی کا فیصلہ بھی کم اہم نہیں  ہے جسے الہ آباد ہائی کورٹ نے اس بنیاد پر کالعدم قراردیاتھا کہ یہ ’’سیکولرازم‘‘ کے کےمنافی ہے۔ سپریم کورٹ نے نومبر میں سنائے گئے اپنے فیصلے میں دوٹوک انداز میں  کہا کہ محض کسی قسم کی مذہبی تربیت یا ہدایت کی وجہ سے کوئی قانون غیر آئینی نہیں ہو جاتا۔ ا س فیصلے نے یوگی حکومت کے عزائم پرقدغن لگادی اور یوپی میں  مدرسہ بورڈ سے ملحق سیکڑوں  مدارس اور ان کے ہزاروں طلبہ کے مستقبل کو محفوظ کردیا۔ 
۱۹۶۷ء کے ’’عزیز پاشا بنام حکومت ہند‘‘ کیس میں   سپریم کورٹ کے ہی فیصلے کو نومبر میں  ۷؍ رکنی بنچ نے کالعدم قرار دے کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے تحفظ کی راہ میں  حائل بڑی رکاوٹ دور کردی اور یہ واضح کیا کہ محض قانون بنا دینے سے کسی ادارہ کی آئینی حیثیت نہیں چھینی جاسکتی بلکہ یہ دیکھا جائےگا کہ اس ادارہ کو قائم کس نے کیا ہے۔ امید ہے کہ یہ فیصلہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی آئینی حیثیت پر اٹھنےوالے سوالات کو دور کریگا اور ذیلی عدالت میں  فیصلہ سرسید کی خدمات کا اعتراف ہوگا۔ 
نومبر میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیس میں  تاریخی فیصلہ سنانے کے چند ہی دنوں  بعد دوسری بنچ نے اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ذریعہ شروع کئے گئے اس ’’بلڈوزر راج ‘‘پر روک لگادی جسے بی جے پی کے اقتدار والی تمام ہی ریاستوں  نے اپنا لیاتھا۔ عدالت نے بطور سزا کسی کے گھر کو منہدم کرنے کو قانون کے حکمرانی کے منافی اور رہائش کے بنیادی حقوق کے خلاف قراردیا۔ اس کی وجہ سے راحت ملنے کی امید تو ہے مگر عدالت کو اپنے اس فیصلے کے نفاذ پر نظر بھی رکھنی ہوگی کیوں کہ سنبھل میں  جامع مسجد کے سروے کی دھاندلی کے نتیجہ میں  تشدد کے بعد بلڈوزروں  کو جس طرح سنبھل میں  بے مہار چھور دیاگیا ہے وہ چور دروازے سے سپریم کورٹ کے مذکورہ حکم کی خلاف ورزی ہی ہے۔ 
ان مثبت فیصلوں  نے یقیناً عدالتی نظام کے وقار کو بلندکیا ہےمگر ذیلی اور ہائی کورٹ اوران کے چند ججوں   کے رویوں  نے فکرمندی بھی پیدا کی ہے۔ مثال کے طور پر سنبھل میں  جو کچھ بھی ہوااس کیلئے عدالت کاوہ فیصلہ ذمہ دار ہے جس میں  جامع مسجد پر دعویٰ کرتے ہوئے اپیل داخل کئے جانے کے چند ہی گھنٹوں  میں فریق مخالف کا موقف سنے بغیر بلکہ اسے خبر دیئے بغیر سروے کا حکم جاری کردیاگیا اور پھر چند گھنٹوں   میں   سروے کرابھی لیاگیا۔ یہیں  نہ رکھتے ہوئے جمعہ کو علی الصباح فجر کے وقت پھرکورٹ کمشنر کی قیادت میں   ایک ٹیم ’’جے شری رام ‘‘ کا نعرہ بلند کرنےوالوں  کے ساتھ دوبارہ سروے کیلئے پہنچ گئی۔ یہ خوش آئند ہے کہ بعد از خرابی ٔ بسیار مسجدوں  پر مندر ہونے کے دعوؤں  کی’’ وبا‘‘ پر سپریم کورٹ نے اپنے ۱۲؍ دسمبر کے فیصلے کے ذریعہ روک لگادی ہے۔ کورٹ نے واضح طور پر ہدایت دی ہے کہ اب اس طرح کی کسی بھی اپیل کو ذیلی عدالتی قبول نہ کریں  اور جو اپیلیں   قبول کی جاچکی ہیں ان پر اس وقت تک فیصلہ نہ سنائیں  جب تک کہ پلیس آف ورشپ ایکٹ سے متعلق سپریم کورٹ میں  زیر سماعت مقدمےکافیصلہ نہ آجائے۔ ویسے یہ’’ وبا‘‘ پھیلی بھی سپریم کورٹ میں  چیف جسٹس چندر چڈ کے ہی ایک مشاہدہ کی وجہ سے تھی جس میں  انہوں  نےکہاتھا کہ مذکورہ قانون کسی عبادتگاہ کی مذہبی حیثیت طے کرنے پر روک نہیں  لگاتا۔ اسی کو بنیاد بنا کریکے بعد دیگرے مقدمے دائر کئے گئے اور ذیلی عدالتیں   سروے کا حکم جاری کرتی رہیں۔ اس وقت ایسے ۱۸؍ معاملات مختلف عدالتوں میں  زیر التوا ہیں۔ 
ایک طرف جہاں  اوپر ذکر کئے گئے فیصلے امید میں  اضافہ کرتے ہیں وہیں سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے بار بار یہ کہنے کے باوجود کہ ’’ضمانت معمول ہے، جیل استثنیٰ ہے‘‘ عمر خالد، خالد سیفی، میراں  حیدر، گفشاں  فاطمہ، شرجیل امام اور ان کے ساتھ دیگر سیاسی محروسین کو ضمانت نہ ملنا یا ان کی اپیلوں  کو ’’تاریخ پہ تاریخ‘‘ کے چکرویو میں  پھنسا کر رکھنا، عدلیہ کے تئیں  عوام کے تاثر کو متاثر کو متاثر کرتاہے۔ اسی طرح اگر الہ آباد ہائی کورٹ کاایک سٹنگ جج وی ایچ پی کے پروگرام میں  شرکت کرے اور مسلمانوں  کیلئے ’’کٹھ ملا‘‘جیسے لفظ کا استعمال کرتے ہوئے وہ باتیں  کہے جو بھگوا عناصر کاخاصہ ہے تو عدالتوں  کی غیر جانبدار ہونے پر سوال اٹھنا فطری ہے، اس لئے کہ عدلیہ ججوں  کے بغیر اپنے آپ میں  کوئی اکائی نہیں  ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس تالاب میں جسٹس شیکھر کمار یادو کی شکل میں  صرف ایک ہی استثنیٰ ہے جسے نظر انداز کیا جاسکتاہے، اس سے قبل کرناٹک ہائی کورٹ کے ایک جج نے مسلمانوں  کی بستی کیلئے’’پاکستان‘‘ کا لفظ استعمال کرکے ان لوگوں   کو مایوس کیاتھا جو ان سے کسی امتیاز کے بغیر انصاف کی امید کرتے ہیں۔ سیاسی لحاظ سے دیکھیں  تویہی معاملہ کولکاتا ہائی کورٹ کے جسٹس ابھیجیت گنگوپادھیائے کا بھی ہے جنہوں  نے ہائی کورٹ کا جج رہتے ہوئے اپنے ساتھی جج پر ٹی ایم سی کی حمایت کا الزام لگایا اور پھر چند مہینوں  بعد خود استعفیٰ دے کر بی جےپی کے ٹکٹ پر لوک سبھا کیلئے منتخب ہوگئے۔ اس لئے ناامیدی کے بیچ ۲۰۲۴ء میں  سپریم کورٹ کے فیصلوں   نے امید کی جوت جلائی تو ہے مگر اسے آنے والے سال یعنی ۲۰۲۵ء میں   اس نظام میں  موجود ایسے عناصر کو نشانزد کرکے ان کا علاج کرنا ہوگا جو اچھے فیصلوں   کے باوجود عدالت کے تعلق سے اجتماعی تاثر کو خراب کرتے ہیں، اس لئے کہ عدلیہ کاصرف مبنی برانصاف، غیر جانبدار اور آزاد ہونا ہی کافی نہیں  ہے بلکہ اسے مبنی برانصاف، غیر جانبدار اورہر طرح کے امتیاز سے آزاد نظر بھی آنا چاہئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK