• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

آج کےحالات میں آگہی و بیداری کیلئےطلبہ کوتحریر، تقریر، نکڑ ڈرامے اور سوشل میڈیا کا سہارا لیناچاہئے

Updated: May 13, 2024, 12:54 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

عزیز طلبہ! موجودہ حالات میں نوجوانوں کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور اُنھیں کیسے احسن طریقے سے نبھائیں ؟

Nukad Natak for messaging is a successful medium, here Marathi and Bengali language have adopted this medium with great merit. Urdu people can also be active on this front. Photo: INN
پیغام رسانی کیلئے نکڑ ناٹک ایک کامیاب ذریعہ ہے، ہمارے یہاں مراٹھی اور بنگالی زبان نے اس میڈیم کو بڑی خوبی کے ساتھ اپنایا ہے۔ اردو والے بھی اس محاذ پر متحرک ہوسکتے ہیں۔ تصویر : آئی این این

عزیز طلبہ! موجودہ حالات میں نوجوانوں کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور اُنھیں کیسے احسن طریقے سے نبھائیں ؟
 (۱)آپ اپنی زندگی میں بڑی چھلانگ لگانے کا اُس وقت سوچ سکتے ہیں، جب آپ کے پیروں تلے زمین ہو، اسلئے آپ کی زندگی، اُس کے نصب العین اور اُس کے حصول میں بہر حال آپ کو سنجیدگی برتنی ہے کہ بطور طالب علم آپ کی سب سے پہلی ترجیح یہی ہونی چاہئے۔ 
 (۲)آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ اگر کسی نے مناسب تعلیم اور ذریعہ معاش کے بغیر فلاح انسانیت کیلئے کسی تحریک کا منصوبہ بنایا تو وہ اوندھے منہ گِر پڑتا ہے کیوں کہ اُس کے یہ سارے منصوبے بے بنیاد بلکہ بے معنی ہوکر رہ جاتے ہیں اسلئے اُس کا ذہن اپنے ہدف سے بھٹکتے بھی رہتا ہے۔ اپنی روزی روٹی تک کیلئے اُسے کئی سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں، کچھ اس حد تک کہ اُس کے سارسے منصوبے صرف کاغذی ثابت ہوجاتے ہیں اور وہ کبھی کسی کا رول ماڈل نہیں بن پاتا۔ اسی لئے دوستو!ہم کریئر کی منصوبہ بندی کی رَٹ مسلسل لگاتے رہتے ہیں کہ آپ کو پھرکسی فلاحی کام میں، اُس کے طریقہ کار میں، اُس کے حساب کتا ب میں خرد بُرد نہ کرنی پڑے۔ 
 (۳)نوجوانو!آپ کی کریئر پلاننگ کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ کہلائے گی کہ اُس کی روشنی سے دوسروں کی زندگی میں کتنا اُجالا ہورہا ہے؟ حالات کتنے ہی خراب ہوں، رشتہ دار، عزیز و اقارب کسی کا کتنا ہی دباؤ ہو، آپ اپنی زندگی کی منصوبہ بندی اس طرح ہرگز نہیں کریں گے جو صرف آپ و آپ کے رشتہ داروں کے اِرد گرد گھوم رہی ہو، کیونکہ انسان کو ساری مخلوقات میں سب سے افضل درجہ اگر حاصل ہے تو اُس کی وجہ یہی ہے کہ (الف) انسان تدبّر کرتا ہے (ب) دوسروں کے تئیں اپنی ذمہ داری کا بھرپور ادراک رکھتا ہے اور (ج) سماج کی خاطر کھپنے کیلئے کمیٹڈ ہے۔ 
 (۴)تعلیمی، سماجی، معاشی اور سیاسی بیداری کے سارے محاذ پر سارے طلبہ بالکل موزوں ہوں یہ ضروری تو نہیں البتہ اُن میں سے کسی بھی محاذ پر کچھ بھی کام نہ کرنے کا اِرادہ آپ نے کیا ہے تو یہ زندگی کے مکمل طور پر ناکام ہونے کی دلیل ہے۔ ایسی نفسا نفسی کی زندگی سے کیا حاصل؟ صرف نفع نقصان والی زندگی گزارنے والوں سے آپ پوچھ لیجئے کہ اُنھیں سکون کی نیند آنے کیلئے گولی کیوں کھانی پڑتی ہے؟

یہ بھی پڑھئے: طلبہ پر ایک اہم ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ عوام کو ملک کےحقیقی معاشی اور معاشرتی حالات سے واقف کرائیں

(۵)کبھی زندگی تعلیم، معاشرہ، معیشت، ادب و ثقافت وغیرہ پر آکر رُک جاتی تھی اور سیاست کو ایک شجر ممنوعہ سمجھا جاتا تھا بلکہ یہ بھی کہا جاتا رہا کہ سیاست شریفوں کی بستی نہیں ہے، اُس بستی سے گزرنا بھی تو آنکھیں بند کرکے ہی۔ پھر بچّے سے لے کر ماں باپ اور اسکول کے ہیڈ ماسٹر تک یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہیں یہی انگوٹھے چھاپ سیاستداں نصابی کتابوں میں کچھ ایسا شامل کردیئے کہ اُسے پڑھانے پر بچّے صرف ذہنی انتشار کا شکار ہوجائیں گے۔ سیاستدانوں نے ہی اُستاد کو شکشن سیوک بنادیئے اور اپنے دوستوں کو شکشن سمراٹ۔ ایسے منظر نامے میں پھر ہر کسی کو احساس ہوجاتا ہے کہ سیاست شجر ممنوعہ نہیں ہے، وہ زندگی کے ہر شعبے میں اور ہر سُو اثر انداز ہوتے رہتی ہے اور سیاست کے تمام تر پہلوئوں پر عوامی بیداری پیدا کرنے میں ناکام رہے تو وہ کسی بدمست ہاتھی کی طرح سے سارے نظام تہہ و بالا کردے گا۔ 
 موجودہ سیاست کے سارے مکر وہ چہرے، فریب، بدعنوانی وغیرہ کو دیکھ کر البتہ ہر سنجیدہ نوجوان سوچتا ہے کہ سیاست کوکریئر چاہے نہ بنائیں مگر اُس میں کسی قسم کا کوئی حصہ لیں یا نہ لیں۔ جواب یہ ہے کہ عوام النّاس کو دی جانے والی اذیت سے آنکھیں موندے رہنا کس طرح اور کیوں کر مناسب ہے؟اسلئے ہمارے کیمپس کے طلبہ چاہے وہ کسی فیکلٹی یا اسٹریم کے ہوں وہ صرف کولہو کے بیل بن کر ڈِگری کے اورسرٹیفکیٹ کے اِرد گر گھومتے نہ رہیں بلکہ اپنی سماجی ذمہ داری کو نبھانے کیلئے متحرک بھی رہیں۔ ان حالات میں طلبہ یہ سمجھ لیں کہ: 
 (۱) دنیا کے سارے بڑے انقلاب تحریر و تقریر ہی سے رونما ہوتے آئے ہیں اور ہمیشہ آتے رہیں گے۔ اسلئے ہر طالب علم اپنی بساط بھر تحریروں کے ذریعے عوام میں آگہی کا فریضہ ادا کرتا رہے۔ اس کیلئے آپ کا بہت اچھا ادیب یا صاحبِ قلم وغیرہ ہونا ضروری نہیں۔ آپ آسان اور عام فہم مگر مدلّل تحریر سے لوگوں کی ذہن سازی کرسکتے ہیں۔ 
 (۲) اپنے حلقہ احباب میں اور پھر اپنے علاقوں میں چھوٹی موٹی نشستوں کے ذریعے عوام کو حقائق سے آگاہ کرنے کا کام کرسکتے ہیں۔ 
 (۳)نوجوانو! سماج میں بیداری کا ایک مؤثر ذریعہ ہے نکڑ ناٹک۔ عالمی سطح پر قاہرہ اور نیویارک اسکوائر سے لے کر دلّی کے چاندنی چوک اور رام لیلا میدان بلکہ ہر گلی اور نکّڑپر جو مظاہرہ سب سے زیادہ مؤثر ثابت ہورہا ہے وہ یہی نکڑ ناٹک ہے۔ عام فہم زبان میں ہلکی پھلکی اسکرپٹ کے ساتھ تفریح کے ذریعے پیغام... عوام اُسے قبول کرتے ہیں۔ یہ عوامی ذریعہ ہے اپنی بات، اپنے پیغام کو احسن طریقے سے پہنچانے کا۔ آرٹس، فیکلٹی کے لڑکے اسکرپٹ لکھیں، سائنس و کامرس کے لڑکے اداکاری اور دوسرے شعبے سنبھالیں۔ ماس میڈیا کے طلبہکیلئے یہ سب بہت مفید تجربات بھی ہوں گے۔ یورپی ممالک میں ڈرامہ اور نکّڑ ناٹک عوام میں کافی مقبول ہیں اور اُن کے مثبت نتائج بھی برآمد ہورہے ہیں۔ ہمارے یہاں مراٹھی اور بنگالی زبان والوں نے اس میڈیم کو بڑی خوبی کے ساتھ اپنایا ہے۔ اردو والے بھی اس محاذ پر متحرک ہوسکتے ہیں اور اس کیلئے ہم اردو کے دو معروف ڈرامہ نگار مجیب خان اور اقبال نیازی سے استفادہ کرنے کا مشورہ بھی دیں گے۔ 
 سیاسی بیداری، حتّیٰ کہ سماجی بیداری کے محاذ پر کام کرنے کا مشورہ جب جب یونیورسٹی کے طلبہ کو دیتے ہیں، اکثر والدین اس کی نفی کرتے دکھائی دیتے ہیں اور اپنے بچّوں سے کہتے ہیں کہ وہ اس ’جھمیلے‘ میں نہ پڑیں۔ ڈِگری/ ڈپلومہ کے اِرد گرد گھومیں، ملازمت حاصل کرنے کی فکر کریں اور بس!سماج، معاشرہ اور ملک کے تئیں اپنی ذمہ داری کی فکر کرکے کیا فائدہ ہے؟ یہ ایک طرح کی بے حسی ہے۔ اس کی وجہ سے ہمارے نوجوان سیاسی محاذ پر دو حصوں میں بٹے دکھائی دیتے ہیں۔ نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ سیاستدانوں کا آلہ کار بنا ہوا ہے، وہ الیکشن کے بوتھ پر بیٹھنے کو اپنی شان سمجھتا ہے، سیاستداں اُنھیں کرکٹ کے ٹورنامنٹ کیلئے یا موٹر بائیک خریدنے کیلئے روپے بھی دیتے ہیں۔ پولیس اسٹیشن میں جاکر اپنی ’ٹیم‘ کو متعارف کراتے ہیں کہ اُن پر سگنل توڑنے یا دکان والے کو دھمکانے وغیرہ پر کوئی ایکشن نہ لے۔ یہ نوجوان آگے چل کر جُرم کی فیکٹری کے کُل پُرزے ہی بن جاتے ہیں۔ 
 ہم البتہ ایک اچھے کریئر کو اپنانے والے سنجیدہ، محنتی اور ذمہ دار طلبہ کو سماجی و سیاسی بیداری کیلئے کام کرنے کی خاطر تیار کرنا چاہیں گے۔ تحریر، تقریر نکّڑ ڈرامے، سوشل میڈیا پرویڈیوز وغیرہ کے ذریعے بیداری پیداکرکے یہ طلبہ بہت اہم فریضہ ادا کرسکتے ہیں اور اُنھیں یہ کرناہی ہے۔ نفسا نفسی اور خود اپنے یا اپنے کریئر کے اِرد گرد گھومتے رہ کر زندگی کٹ تو سکتی ہے مگر ایسے نوجوان سب سے بڑی دولت یعنی سکونِ قلب سے محروم رہیں گے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK