جب بیلٹ پیپر کے ذریعے ووٹنگ ہوتی تھی تو کمیشن۱۱؍ بجے تک حتمی اعداد و شمار جاری کردیا کرتا تھا، لیکن اب جبکہ گنتی مشینوں سے ہوتی ہے اور کیلکولیٹر ہر موبائل فون میں ہوتے ہیں، حتمی اعداد و شمار ووٹوں کی گنتی سے ایک دن پہلے تک آتے رہتے ہیں، ایسا کیوں ہے؟
ہریانہ میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے نتائج کو ہضم کرنا ہراُس شخص کیلئے مشکل ہے جس نے زمین پر جا کر وہاں کے حالات کا جائزہ لیا تھا۔ بی جے پی حکومت کے خلاف عوام میں زبردست برہمی تھی۔ پھر بھی بی جے پی جیت گئی۔ حیرت اس پر نہیں ہے بلکہ اس بات پر ہے کہ کانگریس کی تنظیم سے لے کر حکمت عملی تک ’باشعور طبقے‘ کی جانب سے تنقیدیں ہونے لگیں۔ یہ بھی کہا جانے لگا کہ یہ کارنامہ آر ایس ایس کی مضبوط تنظیم نے انجام دیا ہے اور یہ کہ آر ایس ایس کے کارکنان گھر گھر گئے اور ممکنہ شکست کو جیت میں بدل دیا۔
ایسا کہنے والوں سےکسی نے نہیں پوچھا کہ دس سال کی غلط حکمرانی کے حق میں ’سنگھ‘ کے کارکنوں نے کیا دلیل دی ہوگی کہ لوگوں نے بی جے پی کو ووٹ دے دیا؟ بی جےپی ساڑھے۹؍ سال تک وزیر اعلیٰ رہنے والے منوہر لال کھٹر کو اپنا چہرہ بنانے کی ہمت نہیں کر سکی، پھر ان کے کہنے پر عوام نے بی جےپی کو ووٹ کیسے دیا؟ بی جےپی حکومت کے وزراء کو بھی گائوں سے بھگایا جا رہا تھا، مودی کی ریلی میں بھیڑ نہیں ہوتی تھی، لیکن ووٹنگ کے دن ہی لوگ بی جے پی کو ووٹ کیلئے ٹوٹ پڑے، کیوں ؟
میڈیا نے ان تمام اہم سوالات کو گول کردیا تھا لیکن ’ووٹ فار ڈیمو کریسی‘ (وی ایف ڈی) کی رپورٹ نے اس راز کا پردہ فاش کردیاہے۔ اس رپورٹ سے جو تصویر سامنے آئی ہے، وہ خوفناک ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اختیارات، وسائل اور الیکشن کمیشن جیسے آئینی اداروں کے غلط استعمال نے جمہوریت کو لوٹ مار کے حوالے کر دیا ہے۔ ملک میں ایک ایسا طریقہ کار کام کر رہا ہے جو عوام کی مرضی کے خلاف انتخابی نتائج کا اعلان کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس رپورٹ میں ہریانہ میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہریانہ میں ۵؍ اکتوبر یعنی ووٹنگ کے دن کی شام۷؍ بجے سے یعنی۷؍اکتوبر کو رات ۸؍ بج کر ۴۵؍ منٹ تک ووٹنگ کی شرح میں ۶ء۷۱؍ فیصد کا اضافہ کیا گیا۔ مجموعی طور پر۱۳؍ لاکھ ووٹ بڑھے، جس کا مطلب ہے کہ فی اسمبلی حلقے میں اوسطاً۱۵؍ ہزار ووٹوں کا اضافہ ہوا۔ الیکشن کمیشن نے ووٹوں کی گنتی شروع ہونے سے۱۲؍ گھنٹے قبل تک ووٹوں کی کل تعداد میں ہونے والے اس اضافے کی کوئی قابل فہم منطق نہیں پیش کی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ ہریانہ میں کتنے ووٹ ڈالے گئے، صرف ووٹنگ کا فیصد بتایا گیا ہے۔
ایک زمانے میں الیکشن کمیشن بوتھ لوٹے جانے کے تئیں بہت حساس تھا۔ اس وقت ووٹنگ بیلٹ پیپر کے ذریعے ہوتی تھی، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ای وی ایم کے ذریعے جو کچھ ہو رہا ہے وہ بوتھ پر قبضہ کرنے سے کئی گنا زیادہ برا ہے۔ اس پورے معاملے میں الیکشن کمیشن کی خاموشی بھی کم حیران کن نہیں ہے اور اس الزام کی تصدیق کرتی ہے کہ وہ بی جے پی کی حکمت عملی کے مطابق فیصلے کرتا ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ جب بیلٹ پیپر کے ذریعے ووٹنگ ہوتی تھی تو کمیشن۱۱؍ بجے تک حتمی اعداد و شمار جاری کردیا کرتا تھا۔ اس میں تبدیلی کی گنجائش بہت کم ہوتی تھی، لیکن اب چونکہ گنتی مشینوں سے ہوتی ہے اور کیلکولیٹر ہر موبائل فون میں ہوتے ہیں، حتمی اعداد و شمار ووٹوں کی گنتی سے ایک دن پہلے تک آتے رہتے ہیں۔ آخر اس عمل پر کس کا کنٹرول ہے؟
کیا یہ سوال نہیں پوچھا جانا چاہئے کہ الیکشن کمیشن کل ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد بتانے سے کیوں ڈر رہا ہے؟ یہی نہیں، ووٹنگ کا علاقہ وار ڈیٹا کے بجائے وہ ضلع وار ڈیٹا کیوں جاری کرتا ہے؟ دراصل یہ طریقہ شفافیت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ ہریانہ کے کئی اضلاع میں ووٹوں کی کل تعداد میں ۱۰؍ فیصد سے زیادہ کا اضافہ دیکھا گیا ہے، بشمول پنچکولہ اور چرخی دادری، جہاں بی جے پی قریبی مقابلے میں پھنسی ہوئی تھی۔ بی جے پی نے ان علاقوں میں حیران کن کامیابی حاصل کی۔ وہ معمولی فرق سے جیتنے میں کامیاب رہی۔ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ دس اضلاع میں بی جے پی کو کافی کامیابی ملی ہے۔ وہ وہاں پر ۴۴؍ میں سے ۳۷؍ سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی جبکہ باقی۱۲؍ اضلاع میں اس کی کارکردگی بہت خراب رہی جہاں وہ۴۶؍ میں سے صرف۱۱؍ سیٹیں ہی جیت سکی۔ ایک حیران کن بات یہ بھی ہے کہ ہر ضلع میں ووٹنگ کے حتمی اعداد و شمار میں اضافہ ہوا جبکہ ایک ضلع میں ووٹنگ کے اعداد و شمار کم ہوئے۔ وہ ضلع میوات ہے جہاں اقلیتوں کی آبادی بہت زیادہ ہے۔
وی ایف ڈی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا انتخابات میں بھی ایسا ہی ابہام دیکھا گیا تھا، جس کا نتیجہ بی جے پی کے حق میں تھا۔ ڈیٹا میں ہیرا پھیری کا یہ تسلسل الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری اور آزادانہ انتخابات کرانے کی صلاحیت پر شکوک پیدا کرتا ہے۔ ہریانہ میں اعداد و شمار میں ہیرا پھیری کا اثر خاص طور پر اُن۱۷؍ حلقوں میں محسوس کیا گیا جہاں بی جے پی کی جیت کا فرق ۵؍ ہزار ووٹوں سے کم تھا۔ انڈین نیشنل لوک دل جیسی پارٹیوں کو بہت کم فائدہ ہوا۔ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ اس جوڑ توڑ سے بی جے پی کو اضافی۲۴؍ سیٹیں جیتنے میں مدد ملی ہے۔ وی ایف ڈی کی رپورٹ کہتی ہے کہ ایک ایماندار انتخابی نظام شفافیت پر منحصر ہے۔ صرف اس کے ذریعے ہی ڈیٹا میں چھیڑ چھاڑ، غلط حساب کتاب اور ہیرا پھیری کو روکا جا سکتا ہے۔ واضح، درست اور شفاف ووٹنگ کے عمل کو یقینی بنا کر ہی انتخابی نتائج کو قابل اعتبار بنایا جا سکتا ہے، جو جمہوریت کی صحت کیلئے ضروری ہے۔ بوتھ وار ڈیٹا اکٹھا کرنے اور وی وی پی اے ٹی کی تصدیق جیسے عمل کو اپنا کر انتخابی نظام پر اعتماد بڑھایا جا سکتا ہے۔ ویڈیو شواہد اور پولنگ افسر کا احتساب اس شفافیت کو مزید تقویت دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ الیکشن کمیشن کی ان اقدامات سے بے حسی معمول کی بات نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اس نے فارم۱۷؍ (سی) کو عام کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے جو پولنگ اسٹیشن پر ڈالے گئے کل ووٹوں کی معلومات دیتا ہے۔ اُس نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرتے ہوئے کہا کہ قانون کے مطابق ایسا کرنا ضروری نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن شاید بھول گیا ہے کہ وہ حکومت کو نہیں ملک کے عوام کو جوابدہ ہے۔ ٹی این سیشن جیسے الیکشن کمشنر کے دور کو لوگ بھولے نہیں ہیں جب حکومتوں پر بھی کمیشن کا چابک چلتا تھا۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ کمیشن مکمل طور پر مرکزی حکومت کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا ہے۔ بی جے پی جس ریاست میں جب اور جتنے مرحلوں میں انتخابات چاہتی ہے، کمیشن نہ صرف اس کے مطابق پروگرام بناتا ہے بلکہ پہلے سے اعلان کئے گئے پروگرام کو بھی وہ بدل دیتا ہے۔
وی ایف ڈی کی رپورٹ میں، تکنیکی مطالعہ کرنےوالوں میں پنجاب یونیورسٹی، چنڈی گڑھ کے شعبہ طب کے سابق ڈین ڈاکٹر پیارے لال گرگ، آئی آئی ایم احمدآباد کے پروفیسر سیباسٹین مورس اور آئی آئی ٹی کانپور سے سبکدوش ڈاکٹر ہریش کارنک جیسے اسکالرز کے نام ہیں۔ انہوں نے ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا انتخابات سے متعلق ڈیٹا کا بھی مطالعہ کیا تھا اوراُس وقت بھی کمیشن پر کچھ سنگین سوالات اٹھائے تھے۔
ہندوستانی آئین کے دفعہ۳۲۴؍ کے تحت الیکشن کمیشن کو انتخابی عمل کو چلانے اور اسے کنٹرول کرنے کے مکمل اختیارات حاصل ہیں۔ اس میں انتخابی عمل کو پوری طرح سے شک و شبہ سے بالاتر رکھنے کی ذمہ داری بھی شامل ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کمیشن اس کردار سے مکمل طور پر لاتعلق نظر آتا ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مودی حکومت نے چیف جسٹس کو الیکشن کمشنر کی سلیکشن کمیٹی سے ہٹا کر وزیر اعظم کے ماتحت کام کرنے والے ایک جونیئر وزیر کو ممبر بنانے کا قانون اسی لئے بنایا ہے؟ اس سے سلیکشن کمیٹی میں قائد حزب اختلاف کی موجودگی بے معنی ہوجاتی ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ حکومت کی خواہش کے مطابق تعینات ہونے والے الیکشن کمشنر حکومت کی خواہشات سے ہٹ کر کچھ سوچنے اور سمجھنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کے عوام، رائے عامہ کی اس سطح کی اور اس حد تک لوٹ مار کو کب تک برداشت کر یں گے؟ پڑوسی ملک بنگلہ دیش کی مثال بھی دیکھ لینی چاہئے جہاں شیخ حسینہ الیکشن کے بعد بے ایمانی سے الیکشن جیت رہی تھیں لیکن آخر کار انہیں ملک سے بھاگنا پڑا۔ ہندوستان کو ایسا منظر نہ دیکھنا پڑے، اس کی فکر حکومت کو نہیں ہے لیکن الیکشن کمیشن کو ضرور ہونی چاہئے۔