کائنات کی تشکیل کی تھیوری سے پہلے قرآن نے (سورۃ بنی اسرائیل میں) پیش کی ہے اُس پر مزید تحقیق مغربی سائنس داں آرنوینز باز اور رابرٹ ولسن نے کی اور ۱۹۶۵ء کا نوبل پرائز بھی حاصل کیا۔ (ب) زمین کا تین چوتھائی حصّہ پانی ہے یا انسانی جسم کا ۷۰؍فیصد حصہ پانی ہوتا ہے۔ یہ قرآن نے بتایا اور پانی کے تعلق سے آگے کی ساری تحقیق غیر مسلم سائنس دانوںنے کی۔
ہمارے کچھ طلبہ سائنس کے ضمن میں اس تذبذب میں مبتلاپائے جاتے ہیں کہ یہ اسکولی نصاب کا ایک مضمون ہے جسے اُنھیں اگلے درجات میں پہنچنے کیلئے پڑھنا ہے اور اُس سے ملازمتوں کو یقینی بنانا ہے۔ عزیز طلبہ! حقیقت یہ ہے کہ سائنس نام ہے کائنات کے وہ تمام رازجوسربستہ رکھے گئے ہیں اُن کو کھول دینے کا اور نظامِ حیات کے تمام رموز و اسرار سے آشنا ہونے کا۔ زمین و آسمان اور اُن کے درمیان ساری مخلوقات کے وجود کے حقائق کاادراک ہونا اور جذباتی فکر اپنی جگہ پر البتہ سائنس ہی کے ذریعے منطقی و عقلی فکر اور سوچ کے نِت نئے زاویوں کی تخلیق بھی ہوتی ہے۔
عزیز طلبہ! سائنسی پیش رفت اگراس قدر اہمیت رکھتی ہے تو پھر جدید سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے محاذ پر ہماری قوم اتنی پسماندہ کیوں ہے؟اس کی پسماندگی پر حیرت و ندامت اسلئے ہورہی ہے کہ آج اس کرّہ ارض پر ۵۷؍مسلم ممالک ہیں جن کا کُل رقبہ تین کروڑ مربع کلومیٹر سے کم نہیں ہے۔ سارے عالم کے معدنی تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر کے تین چوتھائی حصّے کے مالک یہی ممالک ہیں البتہ جدید علوم اور ٹیکنالوجی کے مد میں یہ جملہ ممالک جتنا خرچ کرتے ہیں اُس کا چار گنا خرچ ایک چھوٹا سا جزیرہ جاپان کرتا ہے۔ اب اُس کا لازمی نتیجہ یہ سامنے آتا ہے:
(الف) آج بھی لگ بھگ سارا عالمِ اسلام یورپ، مغربی ممالک اور جاپان وغیرہ کا صرف صارف بن گیا ہے۔ جی ہاں وہ ترقی یافتہ ممالک جو ایجاد یا تخلیق کرتے ہیں، مسلم ممالک اُن کی مارکیٹنگ کرتے ہیں ۔ مثلاً یورپی ممالک نِت نئی قسم کی تکنیک والی گاڑیاں بناتی ہیں ۔ مسلم ممالک کے تاجران اسی بات پر جشن مناتے ہیں جب اُن گاڑیوں کی ایجنسی اُنھیں حاصل ہوجاتی ہے۔ اُن ممالک کے حکمراں تو اُن مہنگی گاڑیوں کو خرید کر ہی سرشار و سرفراز ہوجاتے ہیں ۔
(ب) آج بھی دنیا بھر میں ہر سال (آف لائن /آن لائن) دو لاکھ سے زائد سائنسی کتب شائع ہوتی ہیں اور بیس لاکھ سے زائد تحقیقی مقالات جب کہ مسلم ممالک میں وہ تعداد ایک ہزار سائنسی کتب اور اُتنی ہی تعداد میں سائنسی مقالات پر مشتمل ہے۔ اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں ۹۰؍ لاکھ سے زائد سائنس داں تحقیق میں مصروف ہیں جبکہ مسلم ممالک میں یہ تعداد صرف ۴۰؍ہزار ہے۔
(ج) اس غفلت کا نتیجہ یہ ہے کہ کئی مسلم ممالک پر بموں کی بارش کرکے اُنھیں بے چراغ کرنے والی سپر پاور کے سربراہ یا اقلیتوں سے مسلسل اور منصوبہ بند نا انصافی کرنے والے ملک کے پردھان سیوک کو اپنے ملک کے سب سے بڑے اعزاز سے مسلم ممالک نوازتے رہتے ہیں ۔ وہ مجبور ہیں کیوں کہ ٹیکنالوجی (جیسے میزائل) اُس سپر پاور سے ملنے والی ہے اور اُن کیلئے مین پاوَر یا ماہرین پردھان سیوک کے بھگوا بریگیڈ سے۔ اسی بنا پر یہ’ اسلامی ممالک‘ جب ان ممالک سے کوئی سمجھوتہ کرتے ہیں تو اُس ایم او یو کی دستاویزات پر آخری صفحے پر یہ لکھا رہتا ہے کہ وہ ساری ٹیکنالوجی اور مین پاوَر اُن ممالک کو اسی شرط پر فراہم کریں گے کہ جب وہ ممالک اپنے اہم شہروں اور مقامات پر بُت خانوں کی تعمیر کی اجازت دیں گے۔ بے بس مسلم حکمران سرجھکاکر اُن پر دستخط کردیتے ہیں ۔
(د) ان سب کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ جہاں جہاں مسلم نوجوان ظلم کے خلاف میدان میں اُترتے ہیں اُن کے ہاتھ میں صرف پتھر دکھائی دیتے ہیں ۔ وہاں کچھ بڑے بزرگ یہ خواب بھی دیکھتے ہیں کہ وہاں کے نوجوانان غلیل سے اسکڈ میزائل کو مار گرائیں ۔
سائنس، ریاضی، نفسیات، طب، منطق، ریاضی اور فلسفے جیسے علوم پر ایک وقت تھا، جب ہمیں دسترس حاصل تھا لیکن لگ بھگ بارہویں صدی میں مسلمانوں میں فکری و علمی رجحان میں زوال اُس وقت شروع ہوا جب اُنھوں نے ’دین ‘ اور ’دنیا‘ کے الگ الگ سائن بورڈ لگادیئے۔ اس کا نتیجہ آگے چل کر یہ نکلا کہ ’ہمارا مذہب‘ اور ’تمہاری سائنس‘ جیسی اصطلاحات وجود میں آگئیں ۔ اُس دَورمیں سب سے روشن کردار امام غزالی ؒ نے اپنے ’احیاء العلوم‘ کے ذریعے ادا کیا جب اُنھوں نے طب و ریاضی جیسے ’غیر شرعی‘ علوم کو فرض کفایہ قراردیا۔ امام غزالی ؒ نے اپنے دَورکے بعض اہم فنون جیسے نشترزنی (موجودہ سرجری)، کاشتکاری (زراعت)، پارچہ بانی (ٹیکسٹائل) وغیرہ تک کو فرض کفایہ میں شمار کیا اور فرمایا کہ اُن علوم و فنون کا تعلق براہِ راست شریعت سے نہیں مگر اُن سے بے اعتنائی یا لاتعلق ہونا معاشرہ میں خرابی اور انسان کی محتاجی کا باعث بن سکتا ہے۔ بدبختی سے اِ س بیش قیمت رہنمائی کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیااور امام غزالیؒ کے صرف تین صدیوں بعد ممتاز تاریخ داں ابن خلدون نے اپنی مشہور تاریخ کے مقدّمے میں لکھا کہ ’’ہم نے سنا ہے کہ فرنگیوں کے ملک بحرِ ہ روم کے شمالی علاقوں میں علوم ِ طبعی کا چرچا ہے لیکن ہم اتنا جانتے ہیں کہ طبیعات کے مسائل ہمارے دینی معاملات سے کوئی علاقہ نہیں رکھتے اور نہ اُن کی کوئی اہمیت ہے، اسلئے ان علوم طبیعی سے ہمارا دُور رہنا ہی بہتر ہے۔ ‘‘ملاحظہ فرمایا آپ نے، ابن خلدون جیسے عالمِ بے بدل کو بھی ذراسا تجسّس نہیں ہوا علم طبیعات کے تعلق سے! اس سے پانچ سو سال پہلے مسلمانوں کے ذوق و شوق کا یہ عالم تھا کہ وہ علم کی تلاش میں یونانی اور نصرانی چشموں سے فیض یاب ہونے کیلئے شاہ پوراور حران جا پہنچے۔ اُنھوں نے بغداد، قاہرہ اور دوسرے شہروں میں اعلیٰ درجے کے بین الاقوامی دارالعلوم قائم کئے۔ شمیسہ نامی کئی تجربہ گاہیں بنائیں جہاں عالم اسلام کے کئی سائنس داں جمع ہوتے تھے!
غفلت، کوتاہیاں اور قنوطیت جب طاری ہوئی تب ہمارازوال شروع ہوا۔ اُس کا اثر بد بختی سے پہلے بھی قائم تھا اور بڑی حد تک آج بھی قائم ہے: (الف)کائنات کی تشکیل کی تھیوری سے پہلے قرآن نے (سورۃ بنی اسرائیل میں ) پیش کی ہے اُس پر مزید تحقیق مغربی سائنس داں آرنوینز باز اور رابرٹ ولسن نے کی اور ۱۹۶۵ء کا نوبل پرائز بھی حاصل کیا۔ (ب) زمین کا تین چوتھائی حصّہ پانی ہے یا انسانی جسم کا ۷۰؍فیصد حصہ پانی ہوتا ہے۔ یہ قرآن نے بتایا اور پانی کے تعلق سے آگے کی ساری تحقیق غیر مسلم سائنس دانوں نے کی۔ (ج)پروفیسر کیتھ مور نے سورۃ العلق کا مطالعہ کرتے ہی کہا کہ یقیناً اللہ کی طرف سے وحی ہوگی البتہ ہماری صفوں میں ابھی بھی کچھ بدبخت بندے موجود ہیں جو اس ربّانی کلام میں یقین نہیں رکھتے۔ (د)پرنٹنگ پریس کی ایجاد پندرہویں صدی میں ہوئی مگر اُسے ہماری قوم نے قبول نہیں کیا کہ مغرب کی مشینوں سے قرآن پاک کی پرنٹنگ کتنی جائز ہے؟ عیسائیوں نے اُسے قبول کیا اور تیز رفتاری سے بائبل کو شائع کرنا شروع کی۔ تین صدیو ں بعد ہماری قوم نے پرنٹنگ پریس کو قبول کیا۔ (و) لائوڈ اسپیکر کر شیطانی آلہ قرار دیا گیااور ایک عرصے تک یہ قوم اُس سے دُور رہی۔ (ہ) بجلی کی رفتار سے زیادہ تیز سٹیلائٹ شعاعوں سے دین کی تبلیغ کی جائے یا نہیں، اس پر ابھی تک اتفاق رائے نہیں ہوپارہی ہے۔ نوجوانو! یہ سب افسوسناک حقائق ہیں۔