• Fri, 21 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

جے پی سی کا تماشہ، حکومت ہرمحاذ پر من مانی کرنے پر آمادہ

Updated: February 16, 2025, 2:56 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

وقف ایک مسلمان کی زندگی کا اٹوٹ حصہ ہے اور اس کی مذہبی آزادی کا بھی حصہ ہے، کچھ لوگوں کی بدعنوانی اور خراب مینجمنٹ کی وجہ سے وقف کے پورے ادارہ کو کمزور نہیں کیا جا سکتا۔

The uproar that erupted when the Waqf Amendment Bill was introduced in Parliament makes it clear that the government`s only goal is its own arbitrariness. Photo: INN.
وقف ترمیمی بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرتے وقت جتنا ہنگامہ ہوا، اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سرکار کا مقصد صرف اپنی من مانی ہے۔ تصویر: آئی این این۔

جمہوری نظام کی بنیاد عوام ہیں ۔ ان کی اجتماعی بیداری اور فطری شعور دونوں جمہوریت کی بقا کے لئےضروری ہیں۔ اگر عوام کو بے حس کر دیا جائے تو انہیں ہجوم میں تبدیل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ آزادی کی جدوجہد اسی لئے تھی کہ عوام کو بیدار رکھا جائے تاکہ وہ ہجوم نہ بنیں۔ ہجوم میں بدل جانے والا احتجاج صرف انتقام بن کر رہ جاتا ہے۔ گاندھی جی نے بھی جب چوری چورا واقعہ دیکھا تو فوراً عدم تعاون تحریک روک دی کیونکہ ہندوستان کو جمہوریت بننا تھا، ہجوم کی حکمرانی نہیں۔ لیکن آج دنیا بھر کے جمہوری ممالک عوام کو ہجوم بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ سرمایہ دارانہ اجارہ داری اور سیاسی اقتدار کا گٹھ جوڑ عوامی شعور کو مفلوج کر رہا ہے۔ ہر واقعہ کو سنسنی اور تفریح میں بدل دیا جاتا ہے۔ آج ہندوستان میں مذہب کی بنیاد پر قوم پرستی کو فروغ دیا جا رہا ہے لیکن حقیقت میں یہ قوم پرستی نہیں بلکہ ہجوم پرستی ہے جہاں عوامی شعور ختم کر کے انہیں کنٹرول کیا جا سکے اور حکومتی سطح پر ہر طرح سے من مانی کی جائے۔ جہاں بغیر سوال کئے حکم ماننے کو حب الوطنی سمجھا جائے۔ طاقت کے حد سے زیادہ ارتکاز سے اقلیتوں اور کمزور طبقات کے خلاف جبر بڑھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گاندھی جی نے چھوٹے چھوٹے دیہی جمہوری نظام کی حمایت کی تاکہ جمہوریت کو مقامی سطح پر مضبوط رکھا جا سکے۔ اس پورے تناظر میں اگر ہم گزشتہ دنوں پارلیمنٹ میں پیش کئے گئے وقف ترمیمی بل کو دیکھیں تو اس پر بھی یہی بات صادق آتی ہےکہ حکومت اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے معاملے میں بھی من مانی کرنا چاہتی ہے اور اس کے لئے بھی وہی طریقے اپنارہی ہے جو ہجوم کو کنٹرول میں رکھنے کے لئے استعمال کئے جارہے ہیں۔ وقف ترمیمی بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرتے وقت جتنا ہنگامہ ہوا اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سرکار کا مقصد صرف اپنی من مانی ہے۔ 
یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ مرکزی وقف کونسل یاریاستی وقف بورڈس کے پاس ایک انچ بھی ملکیت نہیں ہے۔ وقف بورڈ صرف اوقاف کی دیکھ بھال کرتے ہیں، جو کبھی بطور عطیہ دیے گئے۔ صدیوں کے دوران مختلف مذاہب کے بادشاہوں کے ذریعہ مساجد، درگاہوں، قبرستانوں، عیدگاہوں اور مذہبی امور کے لئے ’انعام‘ کی شکل میں بڑی تعداد میں زمینیں دی گئیں اور یہی وقف ملکیتوں کا بڑا حصہ ہے۔ ۸ء۷؍ لاکھ جائیداد ایک نظر میں حیران کن معلوم ہوتی ہے لیکن اگر کوئی دیگر طبقات کی ملکیت والی یا ان کی مذہبی سرگرمیوں سے جڑی زمینوں کا موازنہ کر کے دیکھے تو یہ نمبر آبادی کے تناسب میں ہی ہوگا۔ مثال کے طور پر صرف تلنگانہ، تمل ناڈو اور کرناٹک میں ہندو مذہبی بورڈ مجموعی طور پر تقریباً ۱۱؍ لاکھ ایکڑ زمین کا مینجمنٹ کرتے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ وقف بورڈس کے ذریعہ پابندی والی ملکیت کی جانکاری کو ڈیجیٹائز کر کے زیادہ شفافیت لانا چاہتی ہے لیکن یہ تو پہلے ہی ہو چکا ہے۔ اقلیتی امور کی وزارت نے اس تعلق سے ایک بیان بھی جاری کیا ہے۔ ریاستی حکومتوں کے ذریعہ مقرر وقف کے سروے کمشنرس کے ذریعہ سروے کے بعد حاصل کردہ پورا ڈیٹا ریاستی حکومتوں نے گزٹ میں بھی ڈالا۔ اسی کام کیلئے ایک اور پورٹل شروع کرنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ ایک سیکولر ملک میں کسی بھی شعبہ میں کسی بھی مذہب کے منتظم کی تقرری کی جا سکتی ہےلیکن ملک بھر کی ریاستوں میں ہندو بورڈ، مندر ٹرسٹ وغیرہ کے کام کو کنٹرول کرنے والے قوانین میں واضح طور سے تذکرہ کیا گیا ہے کہ صرف ہندو ہی گورننگ بورڈ یا ٹرسٹ کا رکن ہو سکتا ہے۔ جب ایسا ہے تو وقف بورڈ کا کام دیکھنے کیلئے الگ پیمانہ کیوں استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ یہ کام بھی مذہبی امور سے متعلق ہے اور اسے وہی دیکھ اور سمجھ سکتا ہے جو اس مذہب کا ماننے والا ہو۔ ملک کےمعروف قانون داں اور لاء پروفیسر فیضان مصطفیٰ نے وقف ترمیمی بل کے کچھ نکات پر گفتگو کی ہے۔ ان کے مطابق وقف بل ظاہری طور پر تو ملک کے وقف بورڈس کی مبینہ بدعنوان روایتوں سے نمٹنے کی ایک کوشش ہے لیکن اسے باریکی سے دیکھنےپر کئی دقتوں والے التزامات سامنے آتے ہیں جو وقف مینجمنٹ کو برباد کر سکتے ہیں، اور اُن وقف جائیدادوں کو پھر سے حاصل کرنا عملی طور پر ناممکن بناتے ہیں جہاں ان پر قبضہ حکومت نے کر رکھا ہو۔ فیضان مصطفیٰ کہتے ہیں کہ یہ غلط بات پھیلائی گئی ہے کہ وقف بورڈ کسی بھی ملکیت کو وقف قرار دے سکتا ہے۔ اس کا سچائی سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ سبھی وقف جائیدادیں عطیہ دینے سے پہلے ذاتی جائیدادیں ہوتی ہیں۔ ترامیم میں کچھ اچھی باتیں بھی ہیں۔ اس کی دفعہ ۳؍ اے کہتی ہے کہ صرف ایک جائز مالک ہی وقف بنا سکتا ہے۔ اسلام بھی یہی حکم دیتا ہے۔ حالانکہ۱۹۵۴ء اور۱۹۹۵ء میں بنائے گئے وقف ایکٹ میں صرف مسلمانوں کو ہی اوقاف بنانے کی اجازت تھی لیکن ۲۰۱۳ء کی ترمیم نے اس غیر واجب اور غیر ضروری پابندی کو ہٹا دیا تھا مگر ۲۰۲۴ء کے بل نے اس دفعہ کو ہٹا کر اسے مزید سخت بناتے ہوئے پہلے کی اس پابندی کو واپس لا دیا ہے جس میں زور دیا گیا ہے کہ صرف وہی شخص وقف بنا سکتا ہے جو ۵؍ سال سے مسلمان ہو(یعنی وقف کے پورے معاملےکو صرف مسلمانوں سے متعلق کیاجارہا ہے)۔ یہ دفعہ غیرمسلموں کے مالکانہ حقوق کی خلاف ورزی بھی ہےکیونکہ انہیں اپنی ملکیت کے ساتھ جو چاہے کرنے کی آزادی ہونی چا ہئے۔ 
حکومت کا مقصد اگر واقعی نیک ہوتا اور وہ من مانی نہیں کرنا چاہتی تھی تو وہ ان خرابیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتی جو افراد کی کوتاہیوں اور بدعنوانی کی وجہ سے در آئی ہیں۔ اس کے لئے پورے وقف مینجمنٹ کو برباد کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ اصل میں یہاں مسئلہ نظریہ کا بھی ہے۔ اگر سرکار وقف کو مسلمانوں کے اثاثے کے طور پر دیکھتی تو اس کے پاس ایک مکمل ڈیٹا ہوتا جس کی مدد سے وہ مسلمانوں کی ترقی کے اقدامات کرسکتی تھی۔ ماضی میں بھی یہی بات اٹھتی رہی ہے کہ اگر مسلمانوں کی وقف جائیدادوں کا درست طریقہ سے انتظام اور دیکھ ریکھ کی جائے تو اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے ہی اس ملک کے مسلمانوں کے سیکڑوں مسائل دور ہوسکتے ہیں۔ انہیں حکومت کے آگے ہاتھ پھیلانے یا حکومتی امداد کی بہت کم ضرورت رہ جائے گی۔ مودی حکومت کے پاس بہت بڑا موقع تھا کہ جو کام گزشتہ ۷۰؍ سال میں نہیں ہو سکا وہ اب کرکے دکھاتی اور بتاتی کہ وقف کے ذریعے مسلمانوں کے بہت سے مسائل حل کئے جاسکتے ہیں لیکن شائد حکومت کی منشا ہی نہیں ہے کہ وہ وقف کے سلسلے میں مسلمانوں کو کوئی فائدہ پہنچائے۔ اسے صرف بہت سی جائیدادیں نظر آرہی ہیں جن پر قبضہ کرنا اس کا مقصد ہے۔ 
وقف کا استعمال اگر پوری ایمانداری اور اسی جذبے کے تحت کیا جائے جس کے تحت کسی زمین کو وقف کیا گیا ہے تو اس سے واقعی وہ فوائد حاصل ہو سکتے ہیں جو مطلوب ہیں لیکن اس معاملے میں حکومت کی نیت پر پہلے دن سے ہی شبہ کیا جارہا ہے اور سابقہ کئی معاملات کو دیکھتے ہوئےاس شبہ کو غلط نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ وقف ایک مسلمان کی زندگی کا اٹوٹ حصہ ہے اور اس لئے اس کی مذہبی آزادی کا بھی حصہ ہے۔ کچھ منتظمین کی بدعنوانی اور خراب مینجمنٹ کی وجہ سے وقف کے پورے ادارہ کو کمزور نہیں کیا جا سکتا اور نہ اسے نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ کیا اس حکومت میں کوئی بدعنوان نہیں ؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK