اکثریتی طبقے کو جس طرح سے انہوں نے بیٹیوں کی حفاظت کا پاٹھ پڑھایا وہ انھیں ایک شاعر سے زیادہ زعفرانی بریگیڈ کا ایک رکن ثابت کرتا ہے۔
EPAPER
Updated: December 29, 2024, 3:01 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
اکثریتی طبقے کو جس طرح سے انہوں نے بیٹیوں کی حفاظت کا پاٹھ پڑھایا وہ انھیں ایک شاعر سے زیادہ زعفرانی بریگیڈ کا ایک رکن ثابت کرتا ہے۔
جھارکھنڈ اسمبلی کی انتخابی مہم میں وزیر اعظم نے اپوزیشن کو ہدف بناتے ہوئے’ بیٹی اٹھا لے جائیں گے ‘کا جو غیر شائستہ فقرہ اچھالا تھا، وہ اب ان تعصب زدہ لوگوں کیلئے پسندیدہ محاورہ بن گیا ہے جو سماج میں مذہبی منافرت کوبڑھاوا دے کر شہرت، دولت اور رتبہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم کے بعدبی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں کے کئی نیتا اس فقرے کے ذریعہ سیاسی روٹیاں سینکنے میں پیش پیش رہے۔ سیاسی لیڈروں کے علاوہ ان نام نہاددانشوروں اور سماجی و مذہبی شخصیات نے بھی اس فقرے کا استعمال اپنے فائدے کیلئے کیا جنھیں عوامی مقبولیت حاصل ہے۔ اس کڑی میں اب ایک اور نام کمار وشواس کا جڑ گیا ہے۔ انھوں نے گزشتہ دنوں ہندو سماج کو جس طرح بیٹیوں کی حفاظت کا پاٹھ پڑھایا وہ انھیں ایک شاعر سے زیادہ زعفرانی برگیڈ کا رکن ثابت کرتا ہے۔ وزیر اعظم اور کمار وشواس جیسے وہ دیگر افراد جو اپنی شہرت و مقبولیت اور فائدے کے لیے اس طرح کی غیر شائستہ بیان بازی کرتے ہیں انھیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایسے بیانات نہ صرف سماج میں تعصب اور نفرت کا دائرہ وسیع کرتے ہیں بلکہ اس سے ان بیٹیوں کے عز و وقار پر بھی حرف آتا ہے جن کی حفاظت کے لیے وہ فکر مندی ظاہر کرتے ہیں۔
اکیسویں صدی کی لڑکیوں کے متعلق ایسی روایتی اور غیر معقول سوچ وہی رکھ سکتا ہے جو اب بھی مرد مرکوز سوسائٹی کے تصور پر یقین رکھتا ہے۔ ایسے لوگ لڑکیوں کو زندگی میں آگے بڑھتے دیکھ کر ایک عجیب قسم کے احساس میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ احساس ان کے باطن کو ایک نفسیاتی کجی کے دائرے میں مقید کر دیتا ہے لیکن ظاہری طور پروہ جنسی مساوات کی حمایت کا دعویٰ بھی کرتے رہتے ہیں۔ لڑکیوں کے متعلق ایسے نازیبا بیانات دراصل اسی تصادم کا نتیجہ ہیں۔ اب بیٹیوں کو اٹھا لے جانے والا دور نہیں رہا۔ اس طرح کے معاملات قدیم سماجی نظام میں اس لیے رونما ہوتے تھے کہ فہم و دانش پر مردوں نے خود ساختہ اجارہ داری قایم کر رکھی تھی۔ اب یہ تصویر بدل چکی ہے بلکہ زندگی سے وابستہ بعض معاملات میں یہ تصویر برعکس صورت اختیار کر چکی ہے۔ لڑکیاں، ان تمام شعبوں میں نمایاں کارکردگی انجام دے رہی ہیں جو شعبے ترقی یافتہ اور خوشحال سماج کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ملک و معاشرہ کی ترقی میں اپنی فہم و فراست کے ذریعہ فعال کردار ادا کرنے والی ان لڑکیوں کے متعلق ایسی غیر شائستہ بیان بازی یہ ظاہر کرتی ہے کہ مہذب سماج میں زندگی بسر کرنے والے یہ افراد تہذیب و شائستگی کی پاسداری سے قاصر ہیں۔ کمار وشواس نے اپنے بیان میں اگرچہ نام کسی کا نہیں لیا لیکن ان کے بیان کے بین السطور میں سوناکشی سنہاپر طنز کو صاف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ظہیر اقبال سے سوناکشی کی شادی کونام نہاد مذہب کے ٹھیکیدار گوارہ نہیں کر پارہے ہیں۔ اس شادی کی وجہ سے ان کے پیٹ میں رہ رہ کر درد ہوتا رہتا ہے۔ کمار سے قبل مکیش کھنہ نے بھی سوناکشی کو ہدف تنقید بنایا تھا۔ مذہبی منافرت کے زعم میں یہ دانشور قسم کے لوگ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ شادی کسی بھی انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔ ملک کا قانو ن بھی ہر بالغ ہندوستانی شہری کو اپنی پسند اور مرضی سے شادی کرنے کا حق دیتا ہے لیکن ملک میں ان دنوں مسلمانوں سے نفرت کا جو کاروبار گرم ہے اس کو مزید ہوادینے کی غرض سے ایسے بیہودہ بیانات سوناکشی اور ظہیر کی شادی کے متعلق دئیے جارہے ہیں۔
۲۰۱۴ء کے بعدملک میں جس دھرم آمیز سیاست نے زور پکڑا اس نے ہندوستانی مسلمانوں کی امیج ایک ایسے ویلن کی بنا دی ہے جو ہندوؤں کی خوشحالی اور تہذیبی شناخت کیلئے خطرہ ہے۔ بھگوا سیاست کا یہ پروپیگنڈہ سماجی زندگی کے مختلف امور پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ اس کذب اساس تشہیر نے ہر عمر اور ہر طبقہ کے متعصب ہندوؤں کو اپنے حصار میں جکڑ لیا ہے۔ اس تشہیر نے اس سماجی صداقت کو بھی مفروضہ بنا دیا ہے جوامور زندگی میں تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ افراد کے درمیان امتیازکی پاسداری کو ترجیح دیتی ہے۔ مسلمانوں سے نفرت اور عناد کے جذبے نے اس امتیاز کو عبور کر کے ان لوگوں کوبھی اپنے حصار میں لے لیا ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور فہم و فراست کے معاملے میں انفرادی شناخت رکھتے ہیں ۔ کمار وشواس بھی اسی گروہ کے ایک فرد ہیں جو مسلمانوں سے تعصب کا مظاہرہ کھلے طور پر بھلے ہی نہ کرتے ہو ں لیکن یہ تعصب ان کے خمیر میں شامل ہے۔
بیٹیوں کی تضحیک والے بیان پر اہم شخصیات کا رد عمل سامنے آنے کے بعد اپنے دفاع میں کمار وشواس نے جو کچھ کہا وہ اس بیان سے بھی زیادہ متنازع ہے۔ اس دفاعی بیان میں سابقہ بیان کو ایک ’عام بات‘کہہ کر وہ اس موضوع کی حساسیت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے دو قدم آگے بڑھ کر انھوں نے یہ شوشہ بھی چھوڑ دیا کہ اس ملک کی تہذیبی روایت کے خلاف جو نفرت پیدا کی گئی ہے اسے یوں ہی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بیان ان کی تعصب زدہ ذہنیت کو اجاگر کرتا ہے۔ فسطائی عناصر کے ذریعہ ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی جو فضا پروان چڑھی ہے اس میں مزید آلودگی گھولنے کا کام اس طرح کے بیانات کرتے ہیں۔ کمار اور ان جیسے دیگر متعصب افراد کو بھی بخوبی اس بات کا اندازہ ہے اسی لئے وہ اپنی طاقت لسانی کا مظاہرہ کچھ اس انداز میں کرتے ہیں کہ ’سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے‘۔ جہاں تک ہندوستان کی تہذیبی و ثقافتی روایتوں کا معاملہ ہے تو اس حوالے سے دنیا کے نقشہ پر یہ ایسا ملک ہے جو مشترکہ تہذیب و ثقافت کی تابندہ روایت کا امین رہا ہے۔ یہاں کی سماجی زندگی میں لازمی جزو کی حیثیت رکھنے والی اس روایت نے اسے عالمی سطح پر ممتاز اور نمایاں شناخت عطا کی ہے۔ دائیں بازو کی سیاست نے اس شناخت کو کسی حد تک دھندلا دیا ہے لیکن اسے مکمل طور پر معدوم نہیں کیا جا سکتا۔
کمار وشواس کو عوامی شناخت اور مقبولیت عطا کرنے میں انا ہزارے کی بدعنوانی مخالف اس مصنوعی تحریک کا اہم رول رہا ہے جو تحریک سے زیادہ دائیں بازو کی سیاست کے فروغ کا وسیلہ تھی۔ ملک ان دنوں سماجی اور معاشی سطح پر جن مسائل اور خرابیوں سے دوچار ہے اس سے لا تعلق ہو کر انا نے گوشہ نشینی اختیار کرلی ہے اور کمار اب اس مہم کا حصہ بن گئے ہیں جس کا مقصد ملک میں شدت پسند ہندوتوا پر مبنی افکار کو رائج کرنا ہے۔ انھوں نے ابھی اگرچہ باقاعدہ طور پر بھگوا سیاسی جماعت کی رکنیت حاصل نہیں کی ہے لیکن ملک و معاشرہ کے متعلق وہ جن خیالات کا اظہار کرتے ہیں اس میں اکثر زعفرانی رنگ کا عکس دیکھا جا سکتا ہے۔ عام آدمی پارٹی سے علاحدگی کے بعد ہی سے وہ اس مہم میں مصروف ہیں۔ انھوں نے شاعری کے علاوہ اب کتھا سنانے کا پیشہ بھی اختیار کر لیا ہے لہٰذا اس طرح کے بیانات اب تواتر کے ساتھ ان کی زبان سے اداہونے لگے ہیں۔
کمار وشواس جیسے لوگ ان مذہبی و سیاسی افراد سے کم خطرناک نہیں ہیں جوہندوستانی مسلمانوں کے خلاف منافرت آمیز بیان بازی کرتے رہتے ہیں۔ ہندوستانی بیٹیوں کے متعلق بازیبا بیان بازی کے بعد میرٹھ کے ایک پروگرام میں انھوں نے اسلام الدین کا نام جس تمسخر آمیز انداز میں لیا وہ ان کی مسلمان دشمنی کو ظاہر کرتا ہے۔ رتبہ اور شہرت کی ہوس میں سماجی نفرت کو بڑھاوا دینے والی باتیں کرنے والے کمار جیسے افراد امن و آشتی کی فضا کو آلودہ کرتے رہتے ہیں۔ وطن عزیز کی فضا میں یہ آلودگی انڈیلنے کے ساتھ ہی وہ حسب ضرورت و موقع خو د کو مشترکہ تہذیبی روایت کا نمائندہ بھی بتاتے ہیں۔ اسی لئے انھیں ایسے ادبی و ثقافتی پروگراموں میں مدعو کیا جاتا ہے جن کے انعقاد کا مقصد ہندوستان کی مشترکہ تہذیب و ثقافت کی تابندہ روایت کو محکم بنانا ہوتا ہے۔ اس طرز کے پروگراموں کے منتظمین بھی اکثر اس بہروپ کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں جس کا فائدہ اٹھا کر تعصب زدہ افکار کے حامل کمارجیسے لوگ ان پروگراموں کے ذریعہ مالی منفعت سے فیض اٹھاتے ہیں اور جب کہیں کتھا سنانے والے اسٹیج پر براجمان ہوتے ہیں تو وہاں اسی طرز کی باتیں کرتے ہیں جو شدت پسند ہندوتوا کا پسندیدہ موضوع ہے۔ یہ نام نہاد قسم کے پڑھے لکھے لوگ سماجی نفاق میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں اور مجموعی طور پر سماجی مسائل کی پیچیدگی میں اضافہ کرتے ہیں۔