رام دیو نے سپریم کورٹ میں معافی مانگ کر یہ ثابت کر دیا کہ انھوں نے گمراہ کن اشتہارات کے ذریعہ کورونل کا بیوپار بڑھایا۔
EPAPER
Updated: April 07, 2024, 1:19 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
رام دیو نے سپریم کورٹ میں معافی مانگ کر یہ ثابت کر دیا کہ انھوں نے گمراہ کن اشتہارات کے ذریعہ کورونل کا بیوپار بڑھایا۔
ملک کی تاریخ میں گزشتہ دس برس نہ صرف سیاست بلکہ دیگر کئی حوالوں کے سبب یادگار رہیں گے۔ ان دس برسوں کے دوران ہندوستان کے عوام کو جن حالات و مسائل کا سامنا کرنا پڑا ان میں کچھ کی حیثیت فطری رہی جو کاروان وقت کی متعینہ رفتار کے زائیدہ ہیں اور کچھ خود عوام کی ناعاقبت اندیشی کے سبب ان کے گلے کا ہار بن گئے۔ وہ مسائل جو عوام کی کج فہمی کے سبب سنگین صورت اختیار کر گئے، ان میں کووڈ ۱۹؍ جیسی مہلک وبا سے تحفظ کیلئے کئے گئے وہ اقدامات رہے جن کا میڈیکل سائنس سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ دنیا کے بڑے سائنسی ادارے آج بھی اس پر حیرت زدہ ہیں کہ کورونا وائرس پر قابو پانے کیلئے تھالی پیٹنے اور روشنی کرنے میں کیا حکمت پوشیدہ تھی ؟ شخصیت پرستی کے دھن میں عقل و خرد کو بالائے طاق رکھ دینے سے یہی کچھ ہوتا ہے جو نہ صرف جان و مال کے نقصان کا سبب بنتا ہے بلکہ جگ ہنسائی بھی ہوتی ہے۔ ان حالات کا فائدہ اٹھانے والوں میں بابا رام دیو کا نام بھی شامل ہے۔ رام دیو نے اقتدار کی حمایت کے دم پر عوام کے درمیان گمراہ کن باتیں پھیلا کر اربوں کی دولت جمع کی اور بہ ظاہر ایسا طرز حیات اختیار کیے رہے جس سے یہ لگے کہ وہ سادہ زندگی جینے پر یقین رکھتے ہیں۔ رام دیو نے دھرم کا سہارا لے کر پتنجلی کو جس بلندی پر پہنچا دیا وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس ملک کے عوام زبانی طور پر جدید فکر کے حامل ہونے کا جو بھی دعویٰ کریں ان کی بڑی تعداد آج بھی توہمات میں مبتلا ہے اور رام دیو جیسے لوگ اسی فکری نقص کا فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: لوک سبھا انتخابات کے سلسلے میں غیر شائستہ بیان بازی کا آغاز
گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے ر ام دیو کی سرزنش جس سخت لہجے میں کی وہ ان لوگوں کیلئےبھی عبرتناک ہے جو پتنجلی کی دوا ’کورونل‘ کو کووڈ ۱۹؍ سے دفاع کیلئے کارگر سمجھتے تھے۔ عوام کا جو طبقہ کورونل پر ایسا عقیدہ رکھتا تھا وہ پتنجلی کے ہر پروڈکٹ کا استعمال مذہبی فریضہ سمجھ کر کرتا رہا ہے اور عدالت عظمیٰ کے ایسے سخت تیور کے باوجود رام دیو اور پتنجلی پر ان کا وشواس اسی طرح برقرار ہے۔ یہ طبقہ سوشل میڈیا پر رام دیو کیلئےدفاعی مہم بھی چلا رہا ہے اور اس کو دھرم سے اس طرح مربوط کر دیا ہے کہ سپریم کورٹ کے اقدام کو دھرم مخالف رنگ دیا جا سکے۔ عوام کے اسی طبقہ کی اندھی حمایت کے سبب ان عناصر کو تقویت حاصل ہوئی جنھوں نے ملک کو کئی محاذپر سنگین مسائل میں مبتلا کردیا ہے۔
یہ طبقہ شخصیت پرستی میں عقل و ہوش سے بیگانہ ہو چکا ہے۔ اپنی پسندیدہ شخصیت کے ہر عمل کو آمناصدقنا تسلیم کر لینا اس کی سرشت کاحصہ بن گیا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک طرف دنیا اکیسویں صدی کی ان مہمات کو سر کرنے میں لگی ہے جو سائنس و تکنیک کے ذریعہ عالمی افق پر فہم و دانش، حکمت و منطق کے ایک نئے سورج کی نوید ثابت ہو سکتی ہیں اور دوسری جانب عوام کا وہ طبقہ ہے جو زندگی کے حقائق کا تجزیہ اس مذہب آلود نظر سے کرنے پر زور دیتا ہے جس سے وہ عارضی طور پر جذباتی تسکین تو حاصل کر سکتا ہے لیکن اس سے مسائل کا تدارک نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہندوستانی سماج میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ ان کی بڑھتی ہوئی تعداد رام دیو جیسے لوگوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے لیکن وسیع تناظر میں یہ صورتحال ملک کے وفاقی جمہوری نظام کے لیے بالآخر نقصان دہ ثابت ہوگی۔
رام دیو نے سپریم کورٹ میں معافی مانگ کر یہ ثابت کر دیا کہ انھوں نے گمراہ کن اشتہارات کے ذریعہ بیوپار بڑھایا۔ رام دیو نے بڑی چالاکی سے مذہب کا سہارا لے کر ان پروڈکٹس کی تشہیر ایسے انداز میں کی جس سے ان کی خرابیوں یا کمیوں پر عوام کی نظر نہ جا سکے۔ لیکن کووڈ جیسی مہلک وبا سے فائدہ اٹھانے والا اقدام رام دیو کی اس ہوس کو ظاہر کرتا ہے جو صرف اپنے مالی مفاد کو ترجیح دیتی ہے، بھلے ہی اس کے عوض میں ہزاروں کی جان چلی جائے۔ عدالت عظمیٰ نے رام دیو کی معافی کو مسترد کر دیا ہے اس لئے ۱۰؍اپریل کی شنوائی میں رام دیو، آچاریہ بال کرشن اور پتنجلی کے خلاف سخت قانونی کارروائی کے امکان کوخارج نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت عظمیٰ نے یہ سخت تیور اس لئے دکھائے کہ نومبر ۲۰۲۳ء میں اس کے انتباہ کے باوجود رام دیو نے گمراہ کن اشتہارات کی تشہیر کا سلسلہ ترک نہیں کیا۔ ان کی یہ دیدہ دلیری ظاہر کرتی ہے کہ اقتدار کی حمایت کے سبب وہ عدلیہ کو بھی ہیچ سمجھ رہے تھے۔
رام دیو کا تنازعات سے پرانا رابطہ رہا ہے۔ کووڈ کی وبا کے دوران انھوں نے میڈیکل سائنس کے متعلق کئی مضحکہ خیز بیانات جاری کئے تھے۔ ان کے بیانات سے زیادہ مضحکہ خیز حقیقت یہ تھی کہ پتنجلی کی کورونل کو رام دیو نے اس وقت کے مرکزی وزیر برائے صحت ڈاکٹر ہرش وردھن اور نتن گڈکری جیسے قدآور لیڈروں کی موجودگی میں لانچ کیا تھا۔ ان لیڈروں کے علاوہ وزیر اعظم سمیت کئی دیگر بڑے لیڈروں سے رام دیو کے روابط نے انھیں یہ حوصلہ دیا کہ وہ جھوٹی تشہیر کے ذریعہ عوام کی جانوں کا سودا کریں۔ رام دیو کی کمپنی نے اقتدار کی کرم فرمائیوں کے سبب جس طرح دن دونی رات چوگنی ترقی کی ہے اس سے بھی ظاہرہوتا ہے کہ ان میں دولت جمع کرنے کی ہوس کس قدر ہے۔ اس وقت پتنجلی کا سالانہ ٹرن اوور ۱۰؍ہزار کروڑ سے زیادہ ہے اور ایسی بڑی کمپنی پر مالکانہ حق رکھنے والے رام دیو خود کو فقیر کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پتنجلی کے ذریعہ ملک کی خدمت کر رہے ہیں۔
یہ وہی رام دیو ہیں جن پر کمیونسٹ لیڈر نے یہ الزام لگایا تھا کہ وہ اپنی دواؤں میں انسان اور جانوروں کی ہڈیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ ورندا کے اس الزام پر کچھ دنوں تک میڈیا میں شور و غوغا ہوا اور پھر یہ معاملہ سرد خانہ میں چلا گیا۔ اس کے بعد اناہزارے کی نام نہاد بدعنوانی مخالف مہم نے رام دیو کو عوامی ہیرو کی حیثیت عطا کر دی اور پھر ملک کا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہونے پر ان کے رتبہ میں بتدریج اضافہ ہوتا چلاگیا۔ انھوں نے اتراکھنڈ کے ہری دورا میں پتنجلی یوگ پیٹھ ٹرسٹ کے نام پر جو سامراج کھڑا کیا ہے اس کے متعلق بھی بارہا یہ خبریں آتی رہی ہیں کہ بزنس میں منافع کمانے کی غرض سے رام دیو نے ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی کی اور ٹرسٹ کی توسیع کیلئے زمینوں پر ناجائز قبضہ کیا۔ اتراکھنڈ کی کانگریس حکومت نے ان کے خلاف ۸۰؍ سے زیادہ کیس درج کیے تھے۔ لیکن اب ملک گیر سطح پر سیاسی منظرنامہ تبدیل ہونے سے رام دیو کو یہ موقع مل گیا کہ وہ اس طرح کے تمام معاملات کو پس پشت ڈال کر پوری آزادی کے ساتھ اپنے مفاد کی راہ ہموار کرتے رہیں۔ سپریم کورٹ کے ذریعہ نومبر ۲۰۲۳ء میں نوٹس جاری ہونے کے بعدبھی رام دیو یہی رویہ اختیار کیے رہے جو بالآخر ان کی ہزیمت کا سبب بنی۔
اس وقت اگر عوام اپنے اطراف کا ذرا باریک بینی سے مشاہدہ کریں تو رام دیو جیسے کئی عناصر سماج میں اپنی دکان سجائے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہ عناصر دھرم کا سہارا لے کر عوام کو نہ صرف فریب دے رہے ہیں بلکہ ان کی جان و مال کے نقصان کا سبب بھی بنتے ہیں۔ عو ام جب تک دھرم آمیز افکار کے دام سے خود کو آزاد نہیں کریں گے تب تک ان کی دکانیں چمکتی رہیں گی۔ سماجی اور معاشی مسائل کا تجزیہ اور ان کے تدارک کیلئے منطق و استدلال پر مبنی فکر عام کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام جب اس طور سے زندگی کے حقائق و مسائل کا مشایدہ و تجزیہ کرنے لگیں گے تو سماج سے رام دیو جیسے عناصر خود بخود غائب ہو جائیں گے۔ لیکن فی الوقت عوام پر شخصیت پرستی کا جو جنون طاری ہے اس کے پیش نظر یہ کہنا کہ حالات میں ایسی مثبت اور خوشگوار تبدیلی جلد ہی واقع ہوگی، حقیقت حال سے چشم پوشی کے مترادف ہوگا۔ یہ ضرور ہے کہ عدلیہ کے کچھ حالیہ فیصلوں نے اس امید کو باقی رکھا ہے کہ حالات میں تبدیلی ہوگی اور پھر ان تمام لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی جنھوں نے عوام کو مسلسل دھوکے میں رکھ کر ان کی جان و مال کے ساتھ کھلواڑ کیا۔