۲۶؍ دسمبر کو ہندوستان نے اپنا ایک مایہ ناز سپوت کھودیا۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے انتقال کے بعد پورے ملک نے اُن وہ کامیابیاں اور وہ خدمات یاد کیںجنہیں بھلا کر ۲۰۱۴ء کے الیکشن سے قبل میڈیا کے توسط سے انہیں ویلن تک بنانے کی کوشش کی گئی۔ ڈاکٹر سنگھ نے میڈیا کے رویے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہاتھا کہ تاریخ ان کے ساتھ نرمی کا مظاہرہ کرے گی۔ا
ڈاکٹر منموہن سنگھ؛ تصویر: آئی این این
۲۶؍ دسمبر کو ہندوستان نے اپنا ایک مایہ ناز سپوت کھودیا۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے انتقال کے بعد پورے ملک نے اُن وہ کامیابیاں اور وہ خدمات یاد کیں جنہیں بھلا کر ۲۰۱۴ء کے الیکشن سے قبل میڈیا کے توسط سے انہیں ویلن تک بنانے کی کوشش کی گئی۔ ڈاکٹر سنگھ نے میڈیا کے رویے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہاتھا کہ تاریخ ان کے ساتھ نرمی کا مظاہرہ کرے گی۔ ان کی یہ بات بھی ان کی آنکھیں بند ہوتے ہی صحیح ثابت ہوئی۔ ملک کے تمام اخبارات نے انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ یہاں چند غیر اردو اخبارات کا جائزہ لیتے ہیں :
منموہن سنگھ ملک میں معاشی اصلاحات کیلئے یار رہیں گے
ہندی اخبار’’ یشو بھومی‘‘ نے ۲۸ دسمبر کو اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ ’’سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ہر ہندوستانی کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ ڈاکٹر سنگھ نے پوری زندگی کسی کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچائی۔ ویسے تو وہ کانگریس کے کوٹہ سے راجیہ سبھا کے ذریعے پہلے وزیر مالیات اور پھر پی ایم بنے۔ لیکن ان کی مقبولیت اور شہرت صرف کانگریس تک محدود نہیں تھی بلکہ ہر پارٹی میں ان کے چاہنے والے موجود تھے۔ ان پر یقین کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد تھی جو اُن سے اختلاف رائے رکھنے کے باوجود ان کا احترام کرتی تھی۔ اگر کسی نے مخالفت بھی کی تو سیاسی طور پر، ذاتی طور پر ان کی کسی سے رنجش نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دنیا سے رخصت ہوجانے اور آخری دیدار کیلئے آنے والے بیشتر رہنماؤں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ویسے تو ڈاکٹر سنگھ کم گو تھے لیکن کم بول کر اتنا کچھ بیان کر جاتے تھے کہ اس کا گھنٹوں مطلب سمجھا جاسکتا تھا۔ انہیں ہندوستان میں معاشی اصلاحات کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ وزیراعظم کے طور پر ان کے۱۰؍ سال معاشی اصلاحات کے حوالے سے سنہرے اور یادگار ہیں۔ ان کے دور میں نیشنل ایمپلائمنٹ گارنٹی اسکیم، فوڈ سیکوریٹی ایکٹ، حق تعلیم، حق معلومات اور منریگا کے تحت مزدوروں کو ۱۰۰ دن کام کی ضمانت جیسے کئی نمایاں قانون اور منصوبوں کا نفاذ عمل میں آیا۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: ایئر ہوسٹس کو فون پر باتوں میں الجھاکر۱۰؍لاکھ روپے کا پرسنل لون اپنے کھاتے میں ٹرانسفر کروالیا
کروڑوں ہندوستانیوں کو غربت سے نکالنے میں مدد کی
انگریزی اخبار ’’دی انڈین ایکسپریس‘‘ ۲۸؍ دسمبر کے اداریہ میں لکھتا ہے کہ ’’عظیم طاقتوں کے ساتھ بڑی رکاوٹیں آتی ہیں۔ سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ غیر منقسم پنجاب کے ایک گاؤں سے پڑھائی کرکے آنے والے نرم لب ولہجہ کے مالک اس شخص نے معیشت کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہونے کے بعد وزیراعظم کی کرسی ترقی کی۔ ان میں طاقت کے ساتھ ملک کو چلانے کا جذبہ تھا۔ ان میں حکمت، شائستگی، وقار اور سب سے بڑھ کر عاجزی تھی۔ ڈاکٹر سنگھ کے کیرئیر کے دو اہم لمحات میں پہلا ۱۹۹۱ ءاور دوسرا ۲۰۰۴ء کا زمانہ ہے۔ انہوں نے پی وی نرسہما راو کے دور حکومت میں پہلی بار وزیر مالیات کا عہدہ سنبھالا۔ اُس وقت ملک ادائیگیوں کے بحران کا سامنا کررہا تھا۔ دنیا معاشی بحران سے گھری ہوئی تھی مگر سنگھ صاحب نے اس کی آنچ ملک تک آنے نہیں دی۔ دوسری مرتبہ منموہن سنگھ وزیراعظم بنے۔ اس سے پہلے کانگریس کے پاس اتحادیوں کے ساتھ حکومت کرنے کا یعنی مخلوط حکومت چلانے کوئی تجربہ نہیں تھا۔ ڈاکٹر سنگھ کا بیک گراونڈ بھی کوئی سیاسی نہیں تھا، وہ ۱۹۹۹ء میں دہلی لوک سبھا سے الیکشن ہار چکے تھے۔ تاہم سونیا گاندھی نے انہیں اپنے ’’ ضمیر کی آواز‘‘پر وزیراعظم بنایا اور اس طرح ۱۹۸۴ میں سکھوں کے قتل عام کا الزام جھیلنے والی کانگریس نے ملک کو پہلا سکھ وزیراعظم دیا۔ ۱۹۹۱ءکی اصلاحات کے ساتھ انہوں نے چار دہائیوں پرانی معیشت کو پٹری پر لاتے ہوئے صنعتی لائسنسنگ اور ریاستی قیادت کی عمل داری کو ختم کردیا۔ ملک میں عالم کاری کی نئی شروعات کی۔ انہوں نے جو اصلاحات نافذ کیں ان سے کروڑوں لوگوں کو غربت سے نکالنے میں مدد ملی۔
یہ بھی پڑھئے: کے ڈی ایم سی کی ۵۸ ؍عمارتوں کی انہدامی کارروائی پر ۳ ؍فروری تک روک
’’آدھار کارڈ بھی منموہن کے دور حکومت کی پہنچان ہے‘‘
مراٹھی اخبار’’سکال‘‘نے بھی ڈاکٹر منموہن سنگھ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ۲۸؍ دسمبر کے اپنے شمارے میں اداریہ لکھاہے۔ اخبار بطور وزیر مالیات ملک کی معیشت کو نئی رخ دینے کے حوالے سے ڈاکٹر سنگھ کی پزیرائی کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے پرانے عقائد، مفروضوں، طے شدہ نظریات کے خلاف جاکر معاشی اصلاحات کے نفاذ کی راہ اختیار کرتے ہوئے ہزار مخالفتوں کا سامنا کیامگرثابت قدم رہے۔ ۱۹۹۱ء میں جب نرسمہا راؤ وزیر اعظم تھے تب مرکزی وزیر مالیات کے طور پر ڈاکٹر سنگھ کا پیش کردہ بجٹ ملک میں نئے دور کا آغاز تھا۔ انہوں نے بینکنگ سسٹم، ٹیکس کے نظام، مانیٹری پالیسی اور مالیاتی خدمات میں بنیادی تبدیلیاں شروع کیں۔ اس سے سست رفتار اقتصادی ترقی میں تیزی آئی اورملک کے کروڑوں لوگوں کو غربت سے نکالنے میں مدد ملی۔ منموہن سنگھ کا نام ان لوگوں میں کافی نمایاں ہے جن کی کامیابیوں نے ہندوستان کو خود پر انحصار کا احساس دلایا۔ ۲۰۰۴ء سے ۲۰۱۴ء تک وزیراعظم کی حیثیت سے انہوں نے معاشی اصلاحات کی راہ ہموار کرنے کیلئے انتھک کوششیں کیں۔ لہٰذا، اپنی وزرات عظمی کے آخری مرحلے میں انہوں نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ `میڈیا میری کیسی ہی تصویر پیش کرے، تاریخ میرے ساتھ نرمی کا معاملہ کرےگی۔ ‘‘ وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے سے قبل ڈاکٹر سنگھ جن عہدوں پر فائز رہے وہ ملک کے مالیاتی ادارہ جاتی فریم ورک میں خاصی اہمیت رکھتے تھے۔ ریزو بینک کے گورنر، پلاننگ کمیشن کے وائس چیئرمین، مرکزی حکومت کے اقتصادی مشیر، وزیر خزانہ اور پھر وزیراعظم۔ اگر کوئی ڈاکٹر منموہن سنگھ کے سیاسی کیرئیر کی تعریف کرنا چاہتا ہے تو ان کے مقابلے کا آئینہ رکھنا ضروری ہے۔ ایک طرف انہوں نے نجکاری اور لبرلائزیشن کا راستہ اپنایا دوسری جانب فلاحی اسکیمیں بھی متعارف کروائیں۔ ۲۰۰۸ء میں کسانوں کا ۷۱؍ ہزار کروڑ کے قرض کی معافی، ودربھ کے کسانوں کا علاحدہ پیکیج، منریگا اسکیم، یہ سب ان کے ہی دور میں ممکن ہوا۔ آدھار کارڈ بھی ان کے دور حکومت کی پہچان ہے۔ ‘‘
ہم پانچویں بڑی معیشت ہیں تو یہ منموہن سنگھ کی وجہ سے ہے
مراٹھی اخبار `پربھات ` لکھتا ہے کہ’’دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا رخصت ہو جانا ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ ایسی ہی شخصیت کے مالک تھے جن کا دنیا سے چلے جانا ایک عظیم نقصان ہے۔ منموہن سنگھ میدان ِ سیاست میں باہری آدمی تھے، اس کے باوجود انہوں نے انمٹ نقوش چھوڑے۔ ان کی قسمت میں ہندوستان کیلئے کچھ نیا اور بڑا کرنا لکھا تھا۔ ان کا عزم تھا کہ وہ آسانی سے ہار نہیں مانیں گے اور وطن عزیز کیلئے بہتر سے بہت بہتر کریں گے۔ ریزو بینک آف انڈیا کے گورنر کے عہدہ پر فائز ڈاکٹر سنگھ اچانک ہندوستان کے سیاسی منظر نامے میں داخل ہوئے۔ یہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب پورا ملک معاشی بدحالی کا شکار تھا۔ ۱۹۸۰ کی دہائی میں راجیو گاندھی کے انتقال کے بعد کچھ ناقابل فہم تجربات شروع ہوگئے۔ چند مہینوں میں غیر معقول حکومتیں دیکھنے کو ملیں۔ ہندوستان کی معیشت تقریبا دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچ چکی تھی۔ سونا گروی رکھنے کی نوبت آگئی تھی۔ اُس وقت نرسہما راو نے اپنی حکومت یا ملک فائدے کیلئے کوئی کام کیا تھا تو یہ کہ انہوں نے ڈاکٹر سنگھ کو وزیر خزانہ بنا دیا۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ کس طرح منموہن سنگھ نے ایسے تاریخی فیصلہ لئے جس سے دنیا بھر کے سرمایہ کاروں نے ہندوستان کا رخ کیا۔ جب ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہندوستان دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے اور جب ہم پورے اعتماد سے کہتے ہیں کہ جلد ہی ہماری معیشت تیسرے نمبر پر پہنچ جائے گی تو اس کا سہرا منموہن سنگھ کے سر ہی بندھتا ہے۔