چھتیس گڑھ وقف بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر سلیم نے گزشتہ دنوں خطبۂ جمعہ سے متعلق جو فرمان جاری کیا ہے،اس کا مقصد حکومت کی خوشامد نہیں تو اور کیا ہے؟
EPAPER
Updated: December 01, 2024, 4:06 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
چھتیس گڑھ وقف بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر سلیم نے گزشتہ دنوں خطبۂ جمعہ سے متعلق جو فرمان جاری کیا ہے،اس کا مقصد حکومت کی خوشامد نہیں تو اور کیا ہے؟
ملک میں شدت پسند ہندوتواکی ترویج کو اپنے سیاسی ایجنڈے میں شامل کرنے والی پارٹی نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کو سماجی اور معاشی سطح پرایسے پیچیدہ مسائل میں مبتلا کردیا ہے جن کے سبب مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں نئے پیچ و خم پیدا ہو گئے ہیں ۔ اس صورتحال کے سبب قوم پر محرومی اور مایوسی کی کیفیت طاری ہو گئی ہے جو اس کی سماجی اور معاشی زندگی کو مزید مشکلات اور نئے مسائل سے دوچار کررہی ہے۔ اس ملک میں مسلمانوں کی زندگی سے وابستہ اس تلخ حقیقت کو فراموش یا نظر انداز وہی لوگ کر سکتے ہیں جو اَب بھی اس خوش فہمی میں جی رہے ہیں کہ جمہوری طرز سیاست کے بنیادی اصولوں کی رو سے انھیں دیگر شہریوں کی مانند مساوی حقوق حاصل ہیں ۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران اقتدار کی جانب سے بعض ایسے اقدام کئے گئے جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ اصولی طور پر جمہوریت کی پاسداری کرنے والی حکومت مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنے کو معیوب نہیں سمجھتی۔ اگر معاملہ مذہب سے متعلق ہو تو اقتدار کا امتیازی رویہ پوری طرح عیاں ہو جاتا ہے۔ اس مایوس کن صورتحال کے باوجود ان نام نہاد مسلمانوں کے درمیان اقتدار کی قربت حاصل کرنے کی ایک ہوڑ سی مچی ہے جو دولت و حشمت کی خاطر قوم کے وقار کا سودا کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
چھتیس گڑھ وقف بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر سلیم راج نے گزشتہ دنوں خطبۂ جمعہ سے متعلق جو فرمان جاری کیا ہے وہ دراصل اقتدار کی چاپلوسی میں سر فہرست رہنے کی ان کی خواہش کا زائیدہ ہے۔ یہ فرمان ایک سیاسی فرد کے ذریعہ مذہبی امور میں بیجا مداخلت ہے جو مسلمان مخالف عناصر کو مزید شر انگیزی کا موقع فراہم کر سکتا ہے۔ سلیم راج نے یہ بیان ریاست کی بی جے پی حکومت کی ایما پر ہی جاری کیا ہے، اگر چہ وہ اس کے دفاع میں یہ کہتے ہیں کہ متولیوں نے مساجد کو سیاسی اکھاڑہ بنا دیا ہے جس سے سماجی اتحاد اور بھائی چارگی کے ماحول کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ وقف بورڈ کے چیئرمین کی حیثیت سے وہ اپنے حقوق اور حدودسے بخوبی واقف ہوں گے اور وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ اس طرح کا حکم جاری کرنا شرعی اعتبار سے ان کے دائرہ ٔ اختیار میں نہیں آتا۔ اس کے باوجودانہوں نے اقتدار کی خوشنودی میں یہ حکم نامہ جاری کر کے متنازع وقف بل کے نفاذ کی راہ کو اپنے طور پر آسان بنانے کی کوشش کی ہے۔ بھگوا عناصر وقف بل کے نفاذ کیلئے پوری شدت کے ساتھ سرگرم ہیں اور عوامی سطح پر متواتر ایسے بیانات دئیے جار ہے ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وقف بورڈوں کی مبینہ بدعنوانیوں کو ختم کر کے اس کے طرز عمل میں شفافیت کو یقینی بنانے کیلئے حکومت اس بل کو نافذ کرنا چاہتی ہے۔ اس بل پر تنازع پیدا ہونے کے بعد جے پی سی کے ذریعہ غور وفکر کی خانہ پری بھی کر لی گئی ہے اورخدشہ ہے کہ پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں یہ بل پاس بھی ہو جائے گا۔
ایک طرف اقتدار کی مسلمانوں کیلئے ایسی نام نہاد فکر مندی ہے جو قوم کے مالی وسائل اور خوشحالی و بہبود کے ذرائع کو محدود سے محدود تر کرنا چاہتی ہے اور دوسری طرف سلیم راج جیسے نام نہاد مسلمان ہیں جو اپنے منصب اور رسوخ کے ذریعہ اقتدار کی ایسی کوششوں کو تقویت عطا کرتے ہیں ۔ اس وقت مسلمان خارجی اور داخلی سطح پر قومی وقار کے تحفظ اور اپنی سماجی اور معاشی حیثیت کو معتبربنائے رکھنے کیلئے مسلسل جد و جہد میں مصروف ہیں ۔ یہ جد و جہد کامیابی کے کسی نشان پر پہنچنے سے قبل ہی ان نام نہاد ہمدردوں کی عیاری کا شکار ہو جاتی ہے جو اپنے مفاد کیلئے قومی وقار کو داؤ پر لگا دیتے ہیں ۔
چھتیس گڑھ وقف بورڈ نے مساجد میں خطبہ جمعہ ادا کرنے کیلئے ائمہ مساجد کو ایسے حدود و قیود کا پابند بنانے کا فرمان جاری کیا ہے جو صریح طور آئین کی دفعہ ۲۵؍ کے تحت ہندوستانیوں کو حاصل مذہبی آزادی کے برعکس ہے۔ مساجد میں خطبۂ جمعہ یا اس کے بعد ہونے والی تقاریر میں قوم کی اخلاقی ترقی، مذہبی بیداری اور سماجی امور کے تئیں حساس و ذمہ دار بنانے والی باتیں ہی بیشتر کی جاتی ہیں ۔ ان باتوں کے درمیان ان حقائق کا ذکر بھی ہوتا ہے جو سماجی اور سیاسی نظام کا جزو ہیں ۔ کوئی بھی قوم معاصر سیاسی و سماجی نظام سے یکسر علاحدگی اختیار کر کے قومی دھارے میں شامل نہیں رہ سکتی اور نہ ہی اس نظام کی ان کوتاہیوں اور خرابیوں سے صرف نظر کیا جا سکتا ہے جو قوم کے اجتماعی کردار اور وقار کو متاثر کرتی ہیں ۔ ائمہ مساحد کو اقتدار کی مدح سرائی کا پابند بنانے والا یہ فرمان عدل و دیانتداری کے اس تصور کو بھی مجروح کرتا ہے جسے شریعت میں بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔
چھتیس گڑھ وقف بورڈ کے فرمان نے ایک بار پھر یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ سلیم راج یا ان جیسے دیگر افراد آخر کب تک اپنے فائدے کیلئے قوم کی تضحیک کا سبب بنتے رہیں گے؟سلیم راج جیسے کئی لوگ قوم میں موجود ہیں جو صرف اپنے فائدے کو پیش نظر رکھتے ہیں خواہ اس کے سبب قوم کے اجتماعی مفاد کو چاہے جتنا نقصان اٹھانا پڑے۔ ایسے مردہ ضمیر لوگ ان فرقہ پرست عناصر کے ہاتھوں کا کھلونا ہوتے ہیں جن کا حتمی مقصد ملک کو ایک مخصوص مذہبی شناخت کا حامل بنانا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران ملک میں دائیں بازو کی سیاست کے فروغ میں ان خود غرض اور مفاد پرست نام نہاد مسلمانوں کا تعاون بھی شامل رہا ہے۔ اس وقت مسلمانوں کی سماجی زندگی جن مسائل سے دوچار ہے اس میں ایک بڑا مسئلہ ان کے خلاف نفرت اور تشدد کے رجحان میں وہ اضافہ ہے جو ان کو ہمہ وقت خوف اور مایوسی کی نفسیات میں مبتلا رکھتا ہے۔ قوم کی اس حالت زار کا سبب فرقہ پرست عناصر کی شر انگیزی اوران نام نہاد مسلمانوں کی سنگ دلی اور ریاکاری ہے جواپنے سماجی رتبہ اور مالی مفاد کیلئے قوم کی بے توقیری کے اسباب مہیا کرتے ہیں ۔
اب سے تین برس قبل جتندر نرائن سنگھ تیاگی(وسیم رضوی) نے بھی اپنی مذموم حرکتوں سے مسلمانوں کے قومی جذبات کو مجروح کیا تھا۔ سابقہ وسیم رضوی اور موجودہ ٹھاکر جتندر نرائن سنگھ تیاگی کا تعلق بھی اتر پردیش کے سینٹرل شیعہ وقف بورڈ سے رہا ہے۔ قوم کے اجتماعی بہبود اور خوشحالی کیلئے قائم کئے گئے اداروں اور تنظیموں میں کوئی امتیازی منصب حاصل کرنے والے یہ نام نہاد مسلمان جب دولت اور شہرت کی ہوس میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو اقتدار کی چاپلوسی میں ایسی غیر منطقی اور لایعنی باتیں کرنے لگتے ہیں جو اُن کے ذہنی دیوالیہ پن کو نمایاں کرتی ہیں ۔ ان نام نہاد مسلمانوں کو مذہبی امور کی مبینہ خرابیاں گزشتہ دس برسوں کے دوران کچھ زیادہ ہی نظر آنے لگی ہیں ۔ ان کی آنکھوں میں یہ مثالی بینائی اسلئے اتر آئی ہے کہ انھیں یہ معلوم ہو گیا ہے کہ موجودہ نظام میں کوئی عہدہ یا منصب اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے جبکہ اقتدار کے ان اقدامات کی تائید اور توثیق کی جائے جن کا مقصد مسلمانوں کو عدم تحفظ اور ذلت کے احساس میں مبتلا رکھنا ہے۔ ایسے نام نہاد مسلمان فرقہ پرستوں کے ایجنڈے کی سماجی تعمیل کیلئے ایسا آلہ ٔ کار بن جاتے ہیں جو اپنی قوم کو ہی ہدف ملامت بناتا رہتا ہے۔ اس بے ضمیری کے عوض میں انھیں جو کچھ حاصل ہوتا ہے اس کی حیثیت محض تلچھٹ کی سی ہوتی ہے۔
اس وقت مسلمانوں کے قومی تشخص کو پامال کرنے کا ایک سلسلہ سا چل پڑا ہے۔ اس کے تحت ملک گیر سطح پر مسجدوں اور مسلمانوں کے دیگر مذہبی مقامات کے خلاف ایسا محاذ کھول دیا گیا ہے جوان کے وجود کیلئے خطرہ بن گیاہے۔ شدت پسند ہندوتوا کی ترویج و تشہیر میں سرگرم اداروں اور تنظیموں کی جانب سے کاشی اور متھرا کی مساجدکا مطالبہ مسلسل جاری ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے مختلف علاقوں میں سیکڑوں برس پرانی مساجد، درگاہوں اور قبرستانوں پر غیر قانونی تعمیرات کا لیبل چسپاں کر کے منہدم کیا جا رہا ہے ۔ اس ضمن میں شملہ، اتر کاشی، سنبھل اور ملک کے دیگر علاقوں کی مساجد کے خلاف شدت پسند ہندوتوا عناصر کی شرانگیزی ابھی حال ہی کی بات ہے۔ اس کے علاوہ گجرات کے ضلع گر سومناتھ میں واقع سیکڑوں برس پرانی مسجد، قبرستان اور کئی درگاہوں کو جس طرح منہدم کر دیا گیا اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ بھگوا گروہ اپنی مذہبی فضیلت کو یقینی بنانے کیلئے قانون اور آئین کے ضابطوں کی مطلق پروا نہیں کرتا۔ ایسے حالات میں نام نہاد مسلمانوں کی ضمیر فروشی مسائل کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔ n