دردمندانِ قوم اس بات سے اختلاف نہیں کریں گے کہ مسلمانوں کیلئے اجتماعی نظام زکوٰۃ جتناضروری ہے، وقف املاک کی تنظیم بھی اتنی ہی ضروری ہے۔
EPAPER
Updated: April 06, 2025, 2:25 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai
دردمندانِ قوم اس بات سے اختلاف نہیں کریں گے کہ مسلمانوں کیلئے اجتماعی نظام زکوٰۃ جتناضروری ہے، وقف املاک کی تنظیم بھی اتنی ہی ضروری ہے۔
وقف بل کے تعلق سے فی الحال اتنا ہی کہنا کافی ہےکہ اسے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں منظور کرکےصدر کے پاس بھیجا جا چکا ہےاورایسا کوئی امکان نہیں ہےکہ صدر کی جانب سے اسے منظوری نہ ملے۔ یعنی اس پر جو قانون حکومت کوبنانا تھا، بنا دیا اورجو ترامیم کرنی تھیں، کرلیں۔ مسلمان حسب روایت احتجاج کی راہ پر ہیں۔ غور کیاجائے تویہ معاملہ طلاق ثلاثہ کے معاملے سے کچھ مختلف نظر نہیں آتا۔ اس وقت بھی مسلم تنظیموں، لیڈروں اور نمائندوں کے احتجاج کے باوجود اس پر قانو ن سازی روکی نہیں جا سکی۔ اسے شریعت میں مداخلت قراردیاگیالیکن یہ حکومت اس طرح کی باتوں کا کوئی اثر نہیں لیتی اور ایسے کسی بھی احتجاج سے ہر مرتبہ مسلمانوں کی بے وقعتی کی ہی تصدیق ہوتی ہے۔ صرف سی اے اے اور این آر سی کے خلاف شاہین باغ کا احتجاج اس سے مستثنیٰ ہے جو مسلم خواتین کا نہ صرف ایک منظم احتجاج تھا بلکہ غالباًپہلی مرتبہ دیکھا گیاکہ اس احتجاج کا باقاعدہ نتیجہ سامنےآیا۔ حالانکہ سی اے اے کو بھی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں منظوری مل چکی ہےلیکن اس قانون کے اطلاق ونفاذکی حدود ہیں جن سے مسلمان براہ راست متاثر نہیں ہوتے۔ اس کے باوجودشاہین باغ کے احتجاج کو ہندوستان میں ایک تاریخی حیثیت مل چکی ہےاورہرحق وانصاف پسندفردوسماجی کارکن نے اس احتجاج کی حمایت کی ہے۔ اس وقت بہت سوں نے احتجاج کے مقام پر پہنچ کرمسلم خواتین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا تھا۔
وقف بل ہے کیا؟اس پر تنازع کیوں ہے؟ وقف بورڈ کیا ہے؟ایک عام مسلمان وقف املاک اوروقف بورڈ سے کتنا واقف ہے؟عام اورغریب مسلمانوں کووقف املاک سے کتنا فائدہ ملا ہے؟اس کے علاوہ خود وقف املاک سےمسلمانوں کی بہبودکیلئے کیاگیا ہے؟یہ سارے اہم سوالات ہیں اورمعلوم ہوتا ہےکہ اوقاف کے منظم پلیٹ فارم پرآنے سےان سارے سوالوں کے جوابات بھی سامنے آئیں گے!وقف کے منظم پلیٹ فارم پرآنے کی بات وضاحت طلب ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ دانشوران اوردردمندانِ قوم اس بات سے اختلاف نہیں کریں گے کہ مسلمانوں کیلئے اجتماعی نظام زکوٰۃ جتنا ضروری ہے، وقف املاک کی تنظیم بھی اتنی ہی ضروری ہے۔ یہ تنظیم نہ ہونے کی صو رت میں شرپسندوں اور ارباب اقتدارکو موقع ملتا ہےکہ وہ اپنے طور پر کھڑے ہوں، کوئی دعویٰ کردیں، پارلیمانی اکثریت کاسہارالیں اورکوئی قانون متعارف کردیں۔ وقف کے تعلق سےیہ جو قانون سازی ہوئی ہے، اس میں مسلمانوں کیلئےوقف کی تنظیم کاہی موقع چھپا ہوا ہے۔
حکومت کے اقدام کو جانے دیں۔ اس کا ایک مقصدپولرائزیشن کی سیاست ہےجس سے انکار نہیں ہے لیکن اتنا ضرورہوا ہےکہ وقف بل سے وقف املاک اوروقف بورڈ پر نئےسرے سے بحث کی راہ کھل گئی ہے۔ وہ املاک جولاکھوں کروڑوں میں ہوسکتی ہیں۔ وہ املاک جن سےمسلم نوجوانوں کو ملازم سے مالک بنایاجاسکتا ہے، وہ املاک جن سےتعلیم، طب اورٹیکنالوجی کے نئے ادارےقائم کئےجاسکتےہیں۔ وہ املاک ہیں جن سےمسلمان اقلیت میں ہوتے ہوئے اکثریت کو متاثرکرنے کے فیصلےکرسکتے ہیں۔
وقف بورڈ پرحکومت کا اعتراض کیا ہےاور کس وجہ سے یہ صورتحال یہاں تک پہنچی کہ وقف بل میں ترامیم کی ضرورت پیش آئی۔ اقلیتی امور کی وزارت کے مطابق یہ کچھ ۱۰؍ نکات ہیں جووقف بل میں ترمیم کی بنیاد بنے ہیں۔
(۱)وقف املاک کے ا نتظام وانصرام میں شفافیت کی کمی(۲)وقف کی زمینوں کا نامکمل سروےاوران میں تبدیلی (۳)وقف میں خواتین ورثاء کے حقوق کیلئےمناسب قواعد کا فقدان (۴) قبضہ جات کے بڑھتے ہوئے معاملات، ۲۰۱۳ء میں اس تعلق سے۱۰۳۸۱؍ زیرالتوا مقدمات تھے جواب بڑھ کر۲۱۶۱۸؍ تک پہنچ چکے ہیں۔ (۵)کسی پراپرٹی کو اپنی تحقیقات کی بنیاد پروقف پراپرٹی قراردینے کاوقف بورڈ کو حاصل اختیار(۶)بڑی تعداد میں سرکاری زمینوں کووقف کی زمینیں قراردینے کے معاملات(۷)وقف املاک کی واضح گنتی اور ان کے حساب کتاب کامعاملہ (۸)وقف املاک کو سنبھالنے کا ناقص نظم(۹)ٹرسٹ پراپرٹیوں کے ساتھ غیر مناسب سلوک (۱۰)مرکزی وقف کونسل اورریاستی وقف بورڈوں میں تمام فریقوں اورشراکت داروں کی غیر مناسب نمائندگی۔ (ڈیٹا : بشکریہ پریس انفارمیشن بیورو)
اقلیتی امور کی وزارت کی اس ریلیز میں وقف بل کو وقف املاک کی جدید کاری کرنےوالا بتایا گیاہےاور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہےکہ یہ ثقافتی ورثے کے تحفظ اوران کااستعمال سماجی بہبودکیلئے کرنا اس بل سے مقصود ہے۔ ریلیزمیں کچھ ریاستوں کے معاملات کا بھی تذکرہ کیاگیا ہےجن میں یہ بتایاگیا ہےکہ ان ریاستوں کے وقف بورڈکے ذریعےسرکاری زمینوں کے وقف املاک ہونے کے دعوے کئےگئے ہیں۔ مثال کے طورپرتمل ناڈوکاذکر کیاگیا ہے جہاں تھروچینتھورائی نامی گاؤں میں ایک کسان اس لئے اپنی زمین فروخت کرنے سے قاصر تھا کیونکہ اس کی زمین پر وقف بورڈ نے دعویٰ کررکھا تھا۔ بتایا گیا ہےکہ کسان زمین بیچ کراپنی بیٹی کی شادی کیلئے لیا گیا قرض چکانا چاہتا تھا۔ ایک معاملہ بہار کے گووند پورگاؤں کا ہے۔ بتایا گیاکہ اگست ۲۰۲۴ء میں بہار سنی وقف بورڈ نے پورےگاؤں پر دعویٰ کردیا تھاجس کے سبب ۷؍ خاندان متاثر ہوئے تھے۔ اس پرپٹنہ ہائی کورٹ میں ایک کیس داخل کیاگیا۔ یہ معاملہ فی الحال عدالت میں ہے۔ اس کے علاوہ اتر پردیش میں ریاستی وقف بورڈ کے تعلق سے کئی شکایتیں اور کرپشن کے الزامات ہیں۔ واضح رہےکہ یہ سارے نکات اور حوالے اقلیتی امور کی وزارت کے بیان کردہ ہیں۔
ان معاملات کی چھان بین کی جائے گی۔ جو دعوے ہیں ان میں کتنی صداقت ہے، یہ تحقیقات کے بعدسامنےآئے گی لیکن ایک بات جو ان دعوؤں اور معاملات کے درمیان سے نکل کر آتی ہےوہ کہیں زیادہ اہم ہے۔ ملک میں چھوٹے بڑےبینکوں کی ایک تاریخ رہی ہے۔ آج ایسے بہت سے بینک ہیں جن میں عہدیداروں کی تقرری کیلئے باقاعدہ الیکشن ہوتے ہیں۔ بورڈکے انتخابات ہوتے ہیں۔ مینجمنٹ کے الیکشن ہوتےہیں۔ انتخاب جمہوری نظام میں ایک ناگزیر عمل ہے۔ وقف بورڈز میں ہمیں اس طرح کے انتخابات کے بارے میں سننےاور دیکھنے کو نہیں ملتا۔ ممکن ہےانتخابات ہوتے بھی ہوں، لیکن یہ چیزسامنے نہیں آپاتی۔ بینکوں کے انتخابات کی باقاعدہ تشہیر ہوتی ہے، امیدواروں کی تصاویر جاری کی جاتی ہیں۔ جس بینک کے بورڈ یا مینجمنٹ کاالیکشن ہو، اس بینک کے باہر الیکشن اور امیدواروں کا بینراورپوسٹر لگا ہوتا ہے۔ یعنی آج چھوٹے بڑے مالیاتی اداروں میں یہ بات یقینی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ سب کچھ منظر عام پر رہے، ان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی تشہیر ہو، اس لحاظ سے وقف بورڈ تو بہت بڑی چیز ہےلیکن حقیقت ہےکہ بورڈ میں جو کچھ ہورہا ہوتا ہے، اس سے عام مسلمان عام طورپرواقف نہیں ہوتے۔ کسی ریاست کے کتنے مسلم نوجوان اپنی متعلقہ ریاست کے وقف بورڈ کے کام کاج کے طریقوں سے واقف ہوں گے؟بورڈ میں تقرری کا طریقہ کیاہے، اس کے عہدوں کی نوعیت کیا ہےوغیرہ، یہ کتنے مسلمان جانتے ہوں گے؟مسلم نوجوانوں میں بے روزگاری کی صورتحال سےکون واقف نہیں ہے! کیا وقف بورڈز میں مسلم نوجوانوں کی ملازمت کا انتظام نہیں کیاجاسکتا؟ اگر ایسا کیاجائےتو اس مسئلہ پر رونا ختم ہوسکتا ہے ؟ ممکن ہے صورتحال پیچیدہ ہولیکن کیا اسےگفتگو کے پلیٹ فارم پر بھی نہیں لایاجاسکتا؟یہ سب کچھ وقف املاک کے ایک عام پلیٹ فارم پر آنے سے ممکن ہوسکتا ہے اوروقف املاک، وقف بورڈ اور وقف بل جو ایک بار پھرموضوع بحث بنے ہیں، ممکن ہے ان میں انہی مذکورہ باتوں کیلئے مواقع چھپے ہوں۔ (اب تو سپریم کورٹ کے بھی بہت سے امور ومعاملات بشمول ججوں کی تنخواہیں ویب سائٹ پر ظاہر کرنے کا فیصلہ ہوچکا ہے)۔ ایک پراپرٹی جو وقف کی گئی ہے وہ بلا شبہ وقف ہے لیکن اس کا استعمال پھر قانون کے دائرے میں ہی آئےگا، یہ دیکھا جائےگاکہ اس کا کیسے استعمال ہوگااورپھر مفاد میں شراکت داری کیسی اور کتنی ہوگی اور مالیات کا حساب کتاب کیسے ہوگا!ممکن ہے وقف کی اب جوتنظیم و تجدید ہو، اس میں واقعی مسلمانوں کی معاشی زبوں حالی کا حل نکل آئے۔ فی الحال یہ دیکھنا ہے کہ وقف املاک کو منظم کرنے کیلئے کیا کیاجاسکتا ہے؟یہ حکومت مداخلت سے تو باز نہیں آئے گی لیکن اپنی سطح پروقف کو سمجھنا، سمجھانا، اس سے تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کو جوڑنااور وقف املاک کا استعمال غریب مسلمانوں کی فلاح کیلئے کرنا، یہ سب تو وقف کی ذمہ داریاں ہیں اور ہماری اپنی ذمہ داریاں ہیں ؟