عزیز طلبہ ! سائنس (یا کسی بھی علم )سے رقابت سے کبھی کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوتا اور دُشمنی رکھنا بھی کیوں ؟ کہاں کوئی سائنس داں یاریاضی داں ہمیں شکریہ اداکرنے یا اُس کا احسان مند رہنے کیلئے کہہ رہا ہے؟
EPAPER
Updated: November 18, 2024, 3:38 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai
عزیز طلبہ ! سائنس (یا کسی بھی علم )سے رقابت سے کبھی کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوتا اور دُشمنی رکھنا بھی کیوں ؟ کہاں کوئی سائنس داں یاریاضی داں ہمیں شکریہ اداکرنے یا اُس کا احسان مند رہنے کیلئے کہہ رہا ہے؟
سائنس سے دوستی بنائے رکھیں :
عزیز طلبہ ! سائنس (یا کسی بھی علم )سے رقابت سے کبھی کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوتا اور دُشمنی رکھنا بھی کیوں ؟ کہاں کوئی سائنس داں یاریاضی داں ہمیں شکریہ اداکرنے یا اُس کا احسان مند رہنے کیلئے کہہ رہا ہے؟ ہم لوگ جب گزشتہ ۱۲۰؍ برسوں کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ واضح طور پر دکھائی دیتا ہے کہ ۱۹۰۰ء کے بعد سائنس اور سائنسی علوم نے ہماری دنیا میں کتنی آسانیاں پیدا کردیں :
(۱) لگ بھگ ساری مہلک بیماریوں اور وبائوں کے ٹیکے ایجاد ہوئے۔ (۲) نفسیاتی وراثت اگلی نسلوں میں کیسے منتقل ہوتی ہے، اِس کا علم ہوا۔ (۳) جینیاتی بیماریوں کا علاج ممکن ہوا۔ (۴) بِگ بینگ تھیوری سے معلوم ہوا کہ اس کائنات کا وجود کیسے عمل میں آیا؟ حالانکہ پہلے اس کا جواب صرف اسلام کے پاس تھا۔ (۵) ایٹم (جس کا مطلب ہی ہے کہ ناقابل تقسیم شئے) تقسیم ہوا۔ اس پر بڑا ہنگامہ تو ہوا البتہ اُسی تقسیم کی بناء پر توانائی کا ایک بڑا متبادل حاصل ہوا۔ (۶) راکٹ ، جیٹ اور معلوماتی سیّاروں نے تو کائنات کو جیب میں لاکر رکھ دیا۔ (۷) کمپیوٹر، روبوٹ اور مصنوعی ذہانت نے ایسے پیادے تخلیق کئے جو بادشاہوں سے زیادہ طاقتورہیں۔ (۸)نظریہ اضافیت میں وقت کے تصوّر کی تفہیم سے جی پی ایس سسٹم وجود میں آیا۔ (۹) ایم آرآئی مشین نے انسان کی لگ بھگ ساری بیماریوں کی تہہ تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کی۔
یہ ہے ایک مختصر سا جائزہ گزشتہ لگ بھگ سوا صدی کا جس میں سائنسی علوم نے انسان اور انسانیت کو مالا مال کردیا۔
رشتہ سائنس اور آرٹس کا !
پتہ نہیں کس بناء پر سائنس اور علم فنیات یعنی آرٹس کے ماننے والے برسر پیکار رہتے ہیں۔ اس ضمن میں کچھ دلچسپ حقائق دیکھ لیجئے۔ سائنس کا مطلب ہوتا ہے ’علم‘، سائنس داں یعنی عالِم اور اُس کی جمع ہے ’علماء‘۔ اب ہمارے ہاں یہ اصطلاح شاید چند لوگوں کو قابل قبول نہ ہو۔ ایک دلچسپ بات یہ بھی سُن لیجئے کہ سائنسی لغت کے مطابق سائنس داں وہ ہوتا ہے جو مشاہدہ کرتا ہے اور سوچ کر کوئی نتیجہ اخذ کرتا ہے۔ اب سائنس کی اس روسے تو ہر ادیب، شاعر اور نقّاد بھی سائنس داں ہی ہوتا ہے کیوں کہ وہ بھی مشاہدہ کرتا ہے اور پھر بغور سوچ سمجھ کر کسی نتیجے پر پہنچتا ہے۔ ہم آج یہ قصّہ اسلئے چھیڑ رہے ہیں کہ کلاس روم میں ، اسٹاف روم میں ، تعلیمی ادارے کے کیمپس میں ان دونوں شعبوں کے اساتذہ میں جو بلاوجہ کی سرد جنگ چھڑی رہتی ہے، وہ بڑی رُکاوٹ ہے، اڑچَن ہے، ہماری تعلیمی پیش رفت میں۔ ہمیں اور ہمارے اساتذہ کو یاد یہ رکھنا ہے کہ (الف) جب کسی آرٹ یا فن کا مطالعہ منظّم انداز میں ہو تو وہ آرٹ، سائنس بن جاتا ہے۔ (ب) جب کوئی ثقافتی، ادبی، تہذیبی سرگرمی مفید، دلکش اور منفرد انداز میں پیش کیا جائے تو وہ ثقافتی سرگرمی سائنس کا تجربہ بن جاتی ہے۔
دوستو! سائنسی علوم کا قصّہ سُن لیجئے۔ موٹے طور پر اس کی دو قسمیں ہیں : خالص سائنس اور نفاذی سائنس۔ اس کی ذیلی درجہ بندی (الف) علوم فطریہ یا نیچرل سائنس (ب)معاشرتی علوم یا سوشل سائنس اور (ج) قیاسی علوم جیسے ریاضی، شماریات وغیرہ اور اِن سارے علوم کا زندگی سے براہِ راست تعلق ہے۔
سائنسی علوم سِکھانے کے اُصول :
(ا) سائنسی علوم کے تعلق سے سب سے پہلا اور بنیادی اُصول یہ ہے کہ ہمیں ہمارے طلبہ کو سائنس پڑھانا نہیں ہے بلکہ سکھانا ہے۔
(۲) ہمارے اساتذہ کو مدارس میں صرف نصاب پورا نہیں کرنا ہے بلکہ طلبہ کے ذہن کے راستے دِلوں میں سائنس کو اُتارنا ہے۔
(۳) آج ہمارے معاشرے کا منظر نامہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں گھروں میں مکالمہ بند ہےکیونکہ کچھ لوگ اُسے بدتمیزی سمجھتے ہیں۔ کلاس روم میں سوال پوچھنے پر بنچ پر کھڑا ہونے کی سزا تک دی جاسکتی ہے لیکن سائنس کا اُصول یہ ہے کہ طالب علم کو سوال پوچھنے دیجئے۔ اُسے سوال پوچھنے پر آمادہ کیجئے حتّیٰ کہ آپ کے تشفی بخش جواب پر بھی اُسے مزید سوال پوچھنے دیجئے۔
(۴) اکثر سائنسی مضامین طلبہ کا ذہن تجزیاتی بنادیتے ہیں اور یہی مقصد ہے سائنس کی تدریس کاکہ طالب علم بین السطور کو پڑھ سکے۔
(۵) سائنس کی تدریس جس پر منحصر ہے وہ ہے لیباریٹری یا تجربہ گاہ کہ سائنس نام ہے عملی کام کا۔ اب کیا کوئی یقین کرسکتا ہے کہ اس قدر بیدار، ترقی یافتہ اور سائنسی ماحول میں بھی آج کئی اُردو میڈیم ہائی اسکولوں میں لیباریٹری کا وجود ہی نہیں ہے۔ جی ہاں ! ہم نے اردو کے درجنوں ایسے ثانوی اسکول دیکھے ہیں جہاں سائنس کی تجربہ گاہ ہی نہیں ہے۔ تجربہ گاہوں کے تعلق سے یہ ’تجربہ‘ ہمیں سب سے پہلے مہاراشٹر کے شہر پونے میں ہوا۔ جہاں ہم نے دیکھا کہ چند اُردو ہائی اسکولوں میں لیب ندارد ہے، حالانکہ سائنس کا عملی کام کم از کم پانچویں جماعت ہی سے شروع ہوتاہے۔ اُن اسکولوں میں ہم نے دیکھا کہ پانچویں تا نویں جماعت کے طلبہ سائنس میں کوئی عملی کام، کوئی تجربہ کئے بغیر ہی دسویں جماعت تک پہنچ رہے ہیں۔ تو پھر دسویں جماعت کے سائنسی تجربوں کی کیا سبیل؟ سُن لیجئے۔ پونے میں ہم نے دیکھا کہ جس سنگھ پریوار کو گالی دیتے ہم نہیں تھکتے وہ ایسے اسکولوں کیلئے چلتا پھرتایا موبائیل لیب کا انتظام کرتے ہیں جس میں وہ ایک وین گاڑی میں سائنسی تجربات کے سارے آلات لے کر اسکول در اسکول جاتے ہیں اور ہمارے طلبہ کو عملی کاموں سے روشناس کراتے ہیں اور اس طرح ہماری قوم کے طلبہ بورڈ کے امتحان میں شریک ہوتے ہیں۔ سائنس کی تجربہ گا ہوں کا یہ حال اُس قوم کا ہے جس کے ایک بیش قیمت سائنس داں جابربن حیّان نے لکھا تھا کہ ’’ایک سائنس داں کی عظمت اس بات میں نہیں کہ اُس نے کیا پڑھا بلکہ اُس کی عظمت اس میں ہے کہ اُس نے تجربے کے ذریعے کیا کیا ثابت کیا۔ ‘‘
(۶)سائنس میں دلچسپی پیدا کرنے کیلئے انتہائی لازم ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے (الف) سائنسی نمائش اور سائنسی میلے کا انعقاد کرنا شروع کریں (ب) کسی گائوں کے اسکول میں بھی سائنسی نمائش کا انعقاد ممکن ہے۔ (ج) سائنسی پروجیکٹ تیار کرنے میں والدین کو بھی آمادہ کیا جائے۔ اِن سائنسی منصوبوں پر والدین کالمس جادو کا کام کرتا ہے۔ (د)دوسری قوم کے طلبہ کی اسکولوں میں اپنے طلبہ کو بھیجنا چاہئے۔ ایسا کرنے سے آپ کے بچّوں کو بہت کچھ سیکھنے کو مل سکتا ہے۔
(۷) سائنسی مزاج پیدا کرنے کیلئے ہم اپنے بچّوں کو لازمی طو رپر نیشنل ٹیلنٹ سرچ امتحان، میتھس اینڈ سائنس اولمپیاڈاور سائنس / ریاضی کو ئز جیسے مقابلوں میں صحیح تیاری کے ساتھ شریک کرائیں۔
دوستو! سائنس کے محاذ پر ہم سپاہی نہیں ، کبھی سپہ سالار ہوا کرتے تھے۔ دوبارہ اس محاذ پر سرخروئی کیلئے ہمیں ایک بڑی قربانی دینی ہوگی اور وہ یہ ہمارے اساتذہ ہر جماعت میں ہر سال صرف دو بچّوں کی شناخت کریں جو سائنسی و اختراعی ذہن کے حامل ہوں۔ اُنھیں سائنس اولمپیاڈ جیسے امتحانات کیلئے تیار کرائیں۔ اسکول انتظامیہ سے اُن بچّوں کیلئے زائد سہولتیں طلب کریں، اُن کے والدین کو بُلاکر اس ضمن میں ذہن سازی کریں کہ وہ ان طلبہ کو سائنسی تحقیق کیلئے وقف کردیں۔ کسی ملازمت یا کاروبار کے بجائے سائنسی تحقیق میں اُن طلبہ کو ایک مشن کے طور پر راغب کریں۔ سائنس کے اساتذہ اگر ہر سال کم از کم اپنے دو طلبہ کو سائنسی مشن کیلئے تیار کریں تو اس کے دُور رس نتائج برآمد ہوں گے اور ہر بار کسی غزہ سے گزرنے والی اس قوم پر بڑا احسان بھی ہوگا۔