• Wed, 04 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اینٹی بائیوٹک کا کثرت سے استعمال پیچیدگیاں پیدا کر رہا ہے

Updated: December 01, 2024, 5:00 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

اینٹی مائکروبیل ریزسٹنس (اے ایم آر) یعنی اینٹی بائیوٹکس دوائیوں کا اثرکم ہو جانے سے یہ دوائیاں خطرناک بیکٹیریا، وائرس، فنگس اور پیراسائٹس پر اپنا اثر کھو رہی ہیں جو انسانی آبادی کیلئے بڑا خطرہ ہے۔

The discovery of antibiotics and its use has proved to be a great blessing for the human race, but its excessive use and indiscriminate use is proving to be a problem for the human race. Photo: INN
اینٹی بائیوٹک کی دریافت اور اس کا استعمال نسل انسانی کے لئے بہت بڑی نعمت ثابت ہوا ہے لیکن اس کا ضرورت سے زیادہ استعمال بلکہ اندھا دھند استعمال نسل انسانی کیلئے زحمت ثابت ہو رہا ہے۔ تصویر : آئی این این

گزشتہ دنوں اینٹی مائکروبیل ریزسٹنس (اے ایم آر) یعنی اینٹی بائیوٹکس دوائیوں کا اثر کم ہونے کے سلسلے میں ایک عالمی وزارتی کانفرنس سعودی عرب کے شہر جدہ میں منعقد ہوئی تھی جس میں اس پیچیدہ طبی مسئلے سے نمٹنے کیلئے ہر شعبے میں قابلِ عمل اقدامات سے متعلق اعلامیہ منظور کیا گیا تھا۔ اینٹی مائکرو بیل ریزسٹنس یا جراثیم کش ادویات کے خلاف مزاحمت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب یہ دوائیاں بیکٹیریا، وائرس، فنگس اور پیراسائٹس پر اپنا اثر کھو دیتی ہیں ۔ چونکہ ادویات کے خلاف مزاحمت اینٹی بائیوٹکس اور دیگر جراثیم کش علاج کو غیر موثر بناتی ہیں اور انفیکشن کے علاج کو مزید مشکل یا ناممکن بنا دیتی ہے جس سے سپر بگ پیدا ہوتے ہیں جن کو ادویات کے ذریعے روکا نہیں جا سکتا۔ نتیجتاً بیماری کے پھیلاؤ، اس کی شدت میں اضافے، معذوری اور موت کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ اس کانفرنس میں جس تشویش پر بات کی گئی اس میں یہ بھی شامل تھا کہ’ سپر بگ‘ انفیکشن کی وجہ سے محض لوگوں کے مرنے کا خطرہ نہیں ہے بلکہ ہر سال ۱۳؍ لاکھ اموات اسی وجہ سے ہو رہی ہیں۔ اس بارے میں ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس نے کہا کہ اے ایم آر کے خلاف ایکشن بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ موسمیاتی تبدیلی کے تعلق سے کارروائی ضروری ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے کہا کہ اے ایم آر کی ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ جراثیم کش ادویات کے نامناسب استعمال سےبھی پھیلتی ہے اور ضرورت سے زیادہ اینٹی بائیوٹک دوائیاں کھانے سے بھی بڑھتی ہے۔ اے ایم آر زندگی کے تمام پہلوؤں پر گہرا اثر ڈالتی ہے اور صحت عامہ، معاشی استحکام اور عالمی سلامتی کیلئے بھی یہ براہ راست خطرہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً ۷۰؍ فیصد اینٹی بائیوٹکس مویشیوں کی پیداوار، آبی زراعت اور پودوں کی پیداوار میں استعمال ہو رہی ہیں۔ اگر ہم اے ایم آر کے مسئلے پر قابو پانا چاہتے ہیں تو ہمیں اسے جڑ سے قابو کرنے کی ضرورت ہے۔ 
 یہ تو ہوئی وسیع تر تناظر میں ہونے والی پیش رفت کی بات لیکن اگر عام شہریوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو گزشتہ دنوں ممبئی کے مشہور فورٹس اسپتال نے ممبئی میں ایک سروے کرکے اسی جانب توجہ دلائی ہے کہ مریض از خود اینٹی بائیو ٹک دوائیاں خرید رہے ہیں اور اپنا علاج خود تجویز کررہے ہیں جس کی وجہ سے سیکڑوں لوگوں میں ان دوائیوں کا ریزسٹنس بڑھ رہا ہے۔ اس جانب ڈاکٹرس بھی کافی عرصے سے توجہ دلارہے ہیں لیکن یہاں مسئلہ از خود دوا تجویز کرنے یا ٹھیک ہوجانے کا نہیں ہے بلکہ دوائیوں کے تعلق سے ادھوری معلومات اور اس معلومات پر مکمل بھروسہ کرنے کا ہے۔ عام طور پر جو مریض چھوٹی موٹی بیماریوں کیلئے از خود اینٹی بائیوٹک خریدتے ہیں وہ اپنے ہاتھ سے بڑی بیماریوں کو دعوت دے رہے ہیں کیوں کہ اینٹی بائیوٹک دوائیاں انسانی جسم میں موجود انفیکشن کے جراثیم کو ہی ختم نہیں کرتیں بلکہ وہ انسانی جسم کے لئے ضروری جراثیم کو بھی موت کےگھاٹ اتاردیتی ہیں۔ یہ دوائیاں اچھے جراثیم اور برے جراثیم میں فرق نہیں کرپاتیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ان کا استعمال محدود کیا جائے۔ 
 حال ہی میں منظر عام پر آئی ایک رپورٹ میں یہ بات درج تھی کہ گزشتہ کچھ دہائیوں میں اینٹی بائیو ٹک کا استعمال بڑھنے کی وجہ سے قبروں میں دفن اجسام کے مٹی میں تحلیل ہونے میں بہت وقت لگ رہا ہے۔ اس کی وجہ سے اینٹی بائیوٹک کو بتایا گیا کیوں کہ ان کے اثرات بلکہ عناصر مرنے کے بعد بھی انسانوں کی ہڈیوں اور رگوں تک میں موجود ہوتے ہیں اور یہ براہ راست طور پر ان جراثیم پر اثر ڈالتے ہیں جو انسانی جسم کو گھُلانے کاکام کرتے ہیں۔ بلاشبہ اینٹی بائیوٹک کی دریافت اور اس کا استعمال نسل انسانی کے لئے بہت بڑی نعمت ثابت ہوا ہے لیکن اس کا ضرورت سے زیادہ استعمال بلکہ اندھا دھند استعمال نسل انسانی کیلئے زحمت ثابت ہو رہا ہے۔ یہ دیکھا جارہا ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں میں ڈاکٹروں کی جانب سے بھی اینٹی بائیوٹک دوائیاں لکھنے کے واقعات میں اضافہ ہو رہاہے۔ حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ ڈاکٹرس بہت ناگزیر صورتحال میں ہی اس جانب متوجہ ہوتے ہیں کیوں کہ بہت سے مریض پہلے ہی اینٹی بائیوٹک سے اپنا ابتدائی علاج کرچکے ہوتے ہیں اور جب انہیں فائدہ نہیں ہوتا ہے تو وہ پھر ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں۔ ایسے میں ڈاکٹروں کے پاس اس سے کہیں زیادہ طاقتور اینٹی بائیو ٹک دوائیاں یا گولی تجویز کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔ اس صورتحال میں ضروری ہے کہ’سیلف میڈیسن ‘ کی ہر کوشش سے پرہیز کیا جائے، ڈاکٹروں کے مشورے کے بغیر اینٹی بائیوٹک تو کیا کوئی دیگر دوا بھی نہ لی جائے اور ڈاکٹروں کے مشورے پر بھرپور عمل کیا جائے کیوں کہ یہ صرف ایک یا دو انسانوں کی صحت کی بات نہیں ہے بلکہ اس کی زد میں اس وقت پوری انسانیت کے آنےکا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK