• Wed, 01 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

سیاسی لحاظ سے ۲۰۲۴ء کافی اتھل پتھل والا سال رہا

Updated: December 29, 2024, 3:45 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

ملک کی تاریخ میں پہلی بارکسی وزیراعلیٰ نے جیل سے حکومت چلائی توپہلی مرتبہ ہی راجیہ سبھا کے کسی صدر کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی اور نتیش کمار نے ’پلٹنے‘ کا ریکارڈ بھی بنایا ۔

Due to the increased strength of the opposition, the Modi government is not getting a chance to act arbitrarily this time. Photo: INN.
اپوزیشن کی طاقت بڑھ جانے کی وجہ سے مودی حکومت کو اس بار من مانی کا موقع نہیں مل پارہا ہے۔ تصویر: آئی این این۔

حال میں ماضی کے واقعات سے جو نتائج اخذ کئے جاتے ہیں، مستقبل کے مورخین کیلئے وہ بہت کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ ۲۰۲۴ء کا سال جو بس گزر جانے کو ہے، سیاسی لحاظ سے ایسے بہت سارے واقعات کا گواہ ہے جنہیں برسوں یاد رکھا جائے گا۔ 
بابری مسجد کی جگہ پر مندر کاافتتاح: سال کا آغاز بابری مسجد کی جگہ تعمیر کئے گئے مندر کے افتتاح سے ہوا۔ یہ واقعہ ۲۲؍ جنوری کو پیش آیا تھا۔ بی جے پی نے اسے ایک ایسے ایونٹ میں تبدیل کردیا تھا کہ کسی بھی سیاسی جماعت میں اس کی مخالفت کرنے کی ہمت نہیں رہ گئی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ گویارام مندر کے لہرپر سوار ہوکر مودی حکومت کی کشتی بغیر کسی رکاوٹ کے پار لگ جائے گی۔ اپوزیشن جماعتوں نےانتخابی عمل کے آغاز سے قبل ہی ایک طرح سے شکست قبول کرلیاتھا۔ 
نتیش کمار نے’ پلٹنے‘ کا ریکارڈ بنایا: اپوزیشن کے خیمے میں پائے جانے والے اسی خوف کا نتیجہ تھا کہ ’انڈیا اتحاد‘ کا خاکہ پیش کرنےوالے بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار ہی ’انڈیا اتحاد‘ سے الگ ہوگئے اور اُس اتحاد کا حصہ بن گئے جسے ختم کرنے کا انہوں نے عہدکیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک اتحاد چھوڑ کر دوسرے اتحاد میں جانے کے باوجودحسب سابق ان کی کرسی برقرار رہی۔ ۲۸؍ جنوری کو انہوں نے سیکولر محاذ سے استعفیٰ دیا اور اُسی دن بی جے پی کی مدد سے ۲۴؍ سال میں نویں مرتبہ وزارت اعلیٰ کا حلف بھی اُٹھا لیا۔ یہ تیسرا موقع تھا جب نتیش کمار نے آر جے ڈی کا ساتھ چھوڑ کر بی جے پی کا دامن تھاما تھا۔ 
ہیمنت سورین کا استعفیٰ: اسی مہینے کے آخر میں جھارکھنڈ میں ایک بڑا ’کھیلا‘ ہوا۔ ای ڈی کے دباؤ کی وجہ سے وزیراعلیٰ کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔ اس کے بعد ای ڈی نے انہیں گرفتار کرلیا۔ بعد ازاں جے ایم ایم نے ہیمنت کے ایک کابینی رفیق چمپئی سورین کو وزیرعلیٰ بنایا۔ 
اُس وقت جھارکھنڈ میں جو کھیل شروع کیاگیا تھا، وہ سال کے آخر تک جاری رہا۔ معاملہ عدالت میں گیا تو مرکزی حکومت اور ای ڈی کا کھیل بے نقاب ہوگیا اور اس طرح ہیمنت سورین کو ضمانت مل گئی۔ بعد ازاں ۳؍ مئی کو چمپئی سورین نے استعفیٰ دیا اور ہیمنت سورین ایک بار پھر وزیراعلیٰ بن گئے۔ بی جے پی نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چمپئی کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ نومبر میں اسمبلی کے انتخابی نتائج ظاہر ہوئے تو ایک مرتبہ پھر عوام نے ہیمنت سورین پر اپنے اعتماد کااظہارکیا۔ اس طرح ۲۸؍ نومبر کو انہوں نے چوتھی مرتبہ وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھایا۔ 
ہماچل پردیش میں ہلچل: فروری کے آخر میں ہماچل میں کانگریس حکومت کو اُس وقت بڑا جھٹکا لگا جب راجیہ سبھا کیلئے ہونےوالی ووٹنگ میں کانگریس کے ۶؍ ایم ایل ایز نے کراس ووٹنگ کردی۔ اس کے بعد ریاست میں کئی دنوں تک ہائی وولٹیج ڈراما جاری رہا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ سکھو حکومت بس چند دنوں کی مہمان ہے، البتہ کانگریس نے اس بحران پر قابو پالیا اور بی جے پی کی سازش بری طرح ناکام ہوگئی۔ 
نائیڈو کی این ڈی اے میں واپسی: نتیش کمار کے یوٹرن لینے کے بعد مارچ میں ٹی ڈی پی کے سربراہ چندرا بابو نائیڈو نے بھی این ڈی اے کا دامن تھام لیا۔ ۲۰۱۴ء میں بی جے پی اور ٹی ڈ ی پی نے ایک ساتھ مل کر الیکشن لڑا تھا لیکن ۲۰۱۸ء میں دونوں میں علاحدگی ہوگئی تھی۔ 
دیکھا جائے تو ۲۰۲۴ء کے انہیں دونوں واقعات (نتیش اورنائیڈو کی این ڈی اے میں واپسی) کے سبب ہی مودی حکومت تیسری بار اقتدار میں واپس آسکی ہے اور اس طرح ملک میں ۶۲؍ سال بعد کوئی پارٹی لگاتار تیسری بار اقتدار میں آئی ہے۔ 
ہریانہ میں سیاسی اتھل پتھل: ہریانہ کی سیاست کو سمجھنے والے یہ جانتے تھے کہ اس مرتبہ کھٹر حکومت واپس نہیں آسکے گی۔ یہ بات بی جے پی بھی جانتی تھی۔ اسی لئے وہاں پر حکومت کی اتحاد ی ’جے جے پی‘ نے جہاں حکومت سے علاحدگی اختیارکرلی، وہیں خود بی جے پی نے کھٹرکو ہٹا کر ان کی جگہ نائب سنگھ سینی کووزیراعلیٰ بنادیا۔ 
کیجریوال کی گرفتاری: مارچ ہی کے مہینے میں ملک کی تاریخ میں ایک اور باب کااضافہ ہوا جب کیجریوال کی صورت میں ایک وزیراعلیٰ کو گرفتار کرلیا گیا۔ ایسا ملک کی تاریخ میں پہلی بار ہوا جب جیل سے کوئی حکومت چلائی گئی۔ 
لوک سبھا الیکشن: اپریل مہینے میں ملک کی ۱۸؍ویں لوک سبھا کیلئے انتخابی عمل شروع ہوا۔ ۱۹؍ اپریل سے یکم جون تک ۷؍ مرحلوں میں ۵۴۳؍ لوک سبھا سیٹوں کیلئے ووٹ ڈالے گئے۔ اس دوران آندھرا پردیش، ادیشہ، اروناچل پردیش اور سکم میں اسمبلی انتخابات بھی ہوئے۔ 
رائے بریلی اور امیٹھی: اس مرتبہ لوک سبھا انتخابات کیلئے رائے بریلی اورامیٹھی کا معاملہ سرخیوں میں رہا۔ کانگریس کے ان روایتی سیٹوں سے کانگریس نے رائے بریلی سے راہل گاندھی اور امیٹھی سے کشوری لال شرما کو امیدوار بنا کر نہ صرف بی جے پی بلکہ پورے ملک کو چونکا دیا تھا۔ 
آئین انتخابی موضوع بنا: ملک کیلئے یہ شاید پہلا موقع تھا کہ آئین کا تحفظ انتخابی موضوع بنا۔ ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی اورگھمنڈ میں چور بی جے پی کا ’۴۰۰؍ پار کانعرہ‘ اس کیلئے سم قاتل ثابت ہوا۔ 
انتخابی نتائج: ۴؍ جون کو لوک سبھا کے انتخابی نتائج سامنے آئے تو ملک میں پہلی بار یہ نظارہ دیکھنے کو ملا کہ شکست خوردہ جماعتیں (کانگریس اور اس کی ساتھی جماعتیں ) کافی خوش نظر آئیں جبکہ جیتنے والی جماعت بی جے پی رنجیدہ دکھائی دی۔ جیسے تیسے این ڈی اے کی حکومت تو بن گئی لیکن بی جے پی کو اپنے بل بوتے پر اکثریت نہیں مل سکی۔ 
برسوں بعد ملک کو اپوزیشن لیڈر ملا: ۲۰۱۴ء کے بعد کانگریس کی جو حالت رہی، اس کی وجہ سے اس کیلئے اپوزیشن لیڈر کا عہدہ حاصل کرنا بھی مشکل ہوگیا تھا لیکن اِس مرتبہ کانگریس نے اپنی کارکردگی کافی بہتر کرنے میں کامیاب رہی۔ اس طرح مودی حکومت جس راہل گاندھی سے نجات کا راستہ تلاش کررہی تھی، اسی راہل گاندھی کو اپوزیشن لیڈر کا عہدہ دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ کانگریس کی اس بہترکارکردگی میں مسلم رائے دہندگان کا بڑا ہاتھ رہا۔ 
یوپی میں بڑا اُلٹ پھیر: اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ بی جے پی کو تنہا اکثریت حاصل کرنے سے روکنے میں اترپردیش کاکردار بہت اہم رہا۔ سماجوادی پارٹی اور کانگریس نے مل کر بی جےپی کو چاروں شانے چت کر دیا تھا۔ ریاست کی مجموعی ۸۰؍ نشستوں میں سے سماجوادی کو ۳۷؍ اور کانگریس کو ۶؍ نشستیں ملیں جبکہ بی جے پی کو محض ۳۳؍ سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا۔ 
آندھرا اور ادیشہ میں حکومتیں تبدیل: آندھراپردیش میں جگن موہن ریڈی اور ادیشہ میں نوین پٹنائک کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ یہ دونوں ہی حکومتیں اپنی اپنی ریاستوں میں خود کو مختار کل سمجھ بیٹھی تھیں۔ 
ضمنی انتخابات: لوک سبھا انتخابات کے بعد جولائی میں ملک کی ۷؍ ریاستوں میں ۱۳؍ انتخابی حلقوں کیلئے ضمنی انتخابات ہوئے۔ اس کے نتائج ایک بار پھر بی جے پی کیلئے پریشان کن ثابت ہوئے۔ ان ۱۳؍ میں سے ۱۰؍نشستوں پر انڈیا اتحاد نے قبضہ جمایا جبکہ بی جے پی کے حصے میں صرف ۳؍ سیٹیں ہی آسکیں۔ 
وقف ترمیمی بل: اگست میں لوک سبھا اجلاس کے دوران حکومت نے وقف ترمیمی بل پیش کیا۔ اس پر اپوزیشن نے سخت رد عمل کااظہار کیا۔ یہ شاید مودی حکومت کے دوران پہلا موقع تھا جب کوئی معاملہ اپوزیشن کے دباؤ کی وجہ سے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو سونپنا پڑا۔ 
ایک ملک ایک الیکشن: ’ون نیشن، ون الیکشن‘ کیلئے بنائی گئی کووند کمیٹی کی رپورٹ کوستمبر میں کابینہ سے منظور ی مل گئی۔ اس قانون کے نفاذ کے بعد ملک کی سیاست میں بہت کچھ الٹ پھیر ہوسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ملک کی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ہی عوام بھی اس تعلق سے خدشات میں مبتلا ہیں۔ 
ہریانہ اور جموں کشمیر میں الیکشن: اکتوبر میں ہریانہ اور جموں کشمیر میں اسمبلی انتخابات کے نتائج ظاہر ہوئے۔ جموں کشمیر میں ۱۰؍ سال بعد انتخابات ہوئے تھے جس میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس اتحاد کو کامیابی ملی جبکہ ہریانہ میں بی جے پی کی حکومت برقرار رہی۔ ہریانہ کے انتخابی نتیجے نے پورے ملک کو چونکایا تھا۔ 
مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں الیکشن: ۲۳؍ نومبر کو مہاراشٹر اور جھارکھنڈ کے ساتھ ہی ملک کی ۱۴؍ ریاستوں میں ۴۸؍ اسمبلی حلقوں کیلئے ضمنی انتخابات کے بھی نتائج ظاہر ہوئے۔ اس نتیجے پر بھی ملک بھر میں حیرانی ظاہر ہوئی۔ اس میں مہاراشٹر میں بی جے پی اتحاد کو یکطرفہ کامیابی ملی جبکہ جھارکھنڈ میں اسے شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ اترپردیش کے ضمنی انتخابات میں دھاندلی کی شکایتیں بھی سامنے آئیں۔ 
پرینکا گاندھی لوک سبھا پہنچیں: اسی دوران ضمنی الیکشن میں اپنے بھائی راہل گاندھی کی وائناڈ سیٹ سے پرینکا گاندھی لوک سبھا پہنچیں۔ یہ ان کا پہلا ٹرم ہے۔ 
دہلی سیاست کا مرکز بنا: دسمبر مہینے میں فی الحال دہلی سیاست کا مرکز بنا ہوا ہے جہاں عام آدمی پارٹی، کانگریس اور بی جے پی آپس میں متصادم دکھائی دے رہی ہیں۔ اسی دوران کرناٹک میں کانگریس نے ۲۶؍ دسمبر کو مہاتما گاندھی کی قیادت میں ہونے والی ستیہ گرہ کی ۱۰۰؍ویں سالگرہ کابھی اہتمام کیا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK