• Sun, 23 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

مودی کا دورہ ٔ امریکہ اور ٹرمپ سے ملاقات، بدلے بدلے سے سرکار نظر آتے ہیں

Updated: February 23, 2025, 3:00 PM IST | Asim Jalal | Mumbai

درآمدی ٹیکس ہو کہ تارکین وطن کے ساتھ غیر انسانی برتاؤ اور انہیں   زنجیروں  میں  جکڑ کر بھیجنے کا مسئلہ، یہ دورۂ وزیراعظم کیلئے سرخروئی کم اور پشیمانی کا باعث زیادہ نظر آتا ہے۔ کاروباری محاذ پربھی ایسا لگتا ہے کہ امریکی بالادستی کے آگے سرتسلیم خم کیا گیا ہے۔

Prime Minister Modi has the distinction of being the fourth foreign leader to visit Washington to meet Trump after he became president. Photo: INN.
وزیراعظم مودی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد ان سے ملاقات کیلئے واشنگٹن پہنچنے والےوہ چوتھے غیر ملکی لیڈر تھے۔ تصویر: آئی این این۔

وزیراعظم نریندر مودی جنہیں  ’’ڈیئر فرینڈ‘‘ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی تقریب حلف برداری میں  نہ بلا کر مایوس کیا تھا، کیلئے ۱۳؍ اور ۱۴؍ فروری کا دورۂ امریکہ اس تاثر کو بحال کرنے کا موقع تھا کہ مودی بھلے ہی حلف برداری میں شرکت نہ کرسکے مگر دوستی میں  کوئی کمی نہیں  آئی ہے۔ البتہ ٹرمپ جو ’’امریکہ مقدّم‘‘ اور ’’ میک امریکہ گریٹ اگین‘‘ کے نعرہ کے تحت الیکشن جیتنے کے بعد انتہائی جارحانہ انداز میں   اس پر پیش رفت کررہے ہیں، کے رویہ میں  وہ گرمجوشی نہیں تھی جو اُن کی سابقہ میعاد صدارت میں نظر آتی تھی۔ 
وزیراعظم مودی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد ان سے ملاقات کیلئے واشنگٹن پہنچنے والےوہ چوتھے غیر ملکی لیڈر تھے۔ ان سے قبل اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو، جاپان کے صدر شنگیرواِشیبا اور اردن کے صدر عبداللہ واشنگٹن میں ڈونالڈ ٹرمپ سے ملاقات کر چکے تھے۔ اس طرح کی اطلاعات بھی ہیں  کہ ٹرمپ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی کو بھی وہائٹ ہاؤس میں  مدعو کرنا چاہتے تھے مگر سیسی نے یہ کہتے ہوئے دعوت مسترد کردی کہ اگر غزہ سے فلسطینیوں کا انخلاء گفتگو کا موضوع ہوگا تو وہ وہائٹ ہاؤس کی میٹنگ میں   شریک نہیں ہونا چاہیں گے۔ 
بہرحال وزیراعظم مودی کے واشنگٹن پہنچنے سے پہلے ہی امریکہ نے جس طرح ایلومینیم اور اسٹیل کی درآمدات پر ڈیوٹی میں   اضافہ کرکے اسے ۲۵؍ فیصد کرنے کا اعلان کیا اور اس کی وجہ سے ہندوستان میں  جس طرح شیئر مارکیٹ دھڑام سے گرا، وہ اس بات کا مظہر تھا کہ وہ ٹرمپ جس کیلئے مودی نے کبھی امریکہ کی سرزمین پر ووٹ مانگے تھے، بدل چکے ہیں۔ وہائٹ ہاؤس پہنچنے پر ٹرمپ نے جس طرح  اسرائیلی اور جاپانی وزیراعظم نیز اُردن کے شاہ کا صدر دروازے پر پہنچ کر خیر مقدم کیا اوراپنے ساتھ لے گئے اس طرح  وزیراعظم مودی کا خیر مقدم نہ کرکے بھی امریکی صدر نے اشارہ دے دیاتھا کہ اب ان کا رویہ بدلا ہوا ہے۔ وہ ملاقات سے پہلے، ملاقات کے دوران اور ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں  پوری شدت کے ساتھ اس دھمکی کو دہراتے رہے کہ امریکہ ہندوستانی برآمدات اور اس کی مصنوعات پر جوابی ٹیکس لگائیں گے۔ یہ اس کے باوجود ہے کہ ہندوستان نے وزیراعظم مودی کے امریکہ روانگی سے قبل ہی کئی امریکی مصنوعات پر ٹیکس میں  تخفیف کرکے خیر سگالی کا مظاہرہ کیا اور وزیر مالیات نے آئندہ بھی اس سلسلے کو جاری رکھنے کا اشارہ دیا۔ 
دونوں لیڈروں  کی مشترکہ پریس کانفرنس سے بھی اسی بات کا اشارہ ملتا ہے کہ ٹرمپ وزیراعظم مودی کو بہت کچھ خریدنے کیلئے راضی (یا مجبور) کرنے میں  کامیاب ہوچکے ہیں۔ ہندوستان کے حق میں  ا س کانفرنس میں  جو ایک اعلان ہوا وہ یہ کہ تہور راناکو نئی دہلی کے حوالے کیا جائےگا مگر اس کا سہرا ٹرمپ کے سر نہیں امریکی عدلیہ سکے سر بندھتا ہے۔ اس کے علاوہ ’’مشن ۵۰۰‘‘ کے تحت دونوں ممالک کا آپسی تجارت کو ۲۰۳۰ء تک۵۰۰؍ بلین ڈالر تک پہنچانے کا عزم خیر مقدم کا متقاضی تو ہے مگر یہ ملحوظ رکھا جانا چاہئے کہ ٹرمپ کے مطابق یہ اس طرح  ہو کہ اگر ہندوستان امریکہ کو ۲۵۰؍  بلین ڈالر کی برآمدات کرے تو وہاں سے اتنے کی ہی درآمدات بھی کرے۔ یعنی تجارت میں توازن کے دباؤ کے پیش نظر ہندوستان کو بلا ضرورت بھی بہت کچھ خریدنا پڑ سکتا ہے۔ فی الحال دونوں  ملکوں  کے درمیان ۱۳۰؍ بلین ڈالر کی تجارت ہوتی ہے۔ اس میں  امریکہ ۴۵؍ بلین ڈالر کے خسارہ میں ہے یعنی ہندوستانی برآمدات درآمدات کے مقابلے میں   ۴۵؍ بلین ڈالر زیادہ ہیں  جسے ٹرمپ انتظامیہ برابر کرنے کے حق میں  ہے اوراس کیلئے وہ واضح طو رپر نئی دہلی پر دباؤ قائم کرنے میں  کامیاب نظر آرہا ہے۔ 
 وہ ہندوستان سے یہ وعدہ لے چکا ہے کہ امریکہ سے تیل اور گیس کی خریداری میں  اضافہ کرے گا نیزدفاعی سازو سامان بھی خریدے گا۔ اس کیلئے ہندوستان کو ایران سے خام تیل کی خریداری میں تخفیف کرنی پڑسکتی ہے جو امریکہ کے مقابلے اسے کافی کم قیمت پر فراہم کرتاہے۔ اسی طرح روس سے پیٹرولیم مصنوعات کی خریداری میں  بھی کمی کرنی پڑ سکتی ہے۔ 
مجموعی طو رپر یوں  معلوم ہوتا ہےکہ وزیراعظم مودی کو امریکہ بلا کر ٹرمپ انتظامیہ انہیں  بہت کچھ بیچ کر امریکی عوام کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ نئی دہلی پر اپنا دباؤ بنانے میں کامیاب ہے۔ 
تجارتی معاملات تو ایک طرف اخلاقی نقطہ ٔ نظر سے بھی ٹرمپ نے جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا اور وزیراعظم مودی نے جس طرح یاتو خاموشی اختیار کی یا پھر سرتسلیم خم کیا وہ افسوسناک ہے۔ مثال کے طور پرتارکین وطن کو زنجیروں   میں جکڑ کر ہندوستان بھیجنے کے معاملے میں   اتنی بھی رعایت نہیں کی گئی کہ جب وزیراعظم مودی امریکہ کی سرزمین پر موجود تھے کم از کم اس وقت وہاں سےہندوستانی تارکین وطن کو ہتھ کڑیاں او ر بیڑیاں  پہنا کر بھیجنے سے گریز کیا جاتاہے۔ حدتو یہ ہے کہ مشترکہ پریس کانفرنس میں   مودی سے تارکین وطن کے تعلق سے جب سوال کیاگیا تو وہ ٹرمپ کے موقف کی تائید کرتے نظر آئے اوراتنی بھی جرأت نہ کرسکے کہ تائید کے ساتھ یہ کہہ دیتے کہ اس کے باوجود تارکین وطن انسان ہیں  اس لئے ان کے بھی انسانی حقوق ہیں  ، وہ بھی کسی ملک کے شہری ہیں  اسلئے انہیں  بیڑیاں  پہنا کر نہیں  بھیجا جانا چاہئے۔ عین پریس کانفرنس کے دوران ’برکس ‘ جس کے بانی ممالک میں  ہندوستان شامل ہے، کے تعلق سے سوال پوچھے جانے پر جس طرح ٹرمپ نے انتہائی نخوت کے ساتھ اس کے’’ختم ‘‘ ہوجانے کادعویٰ کیا اور وزیراعظم خاموش رہے، وہ امریکی بالادستی کے سامنے سرتسلیم خم کردینے کے مترادف ہے۔ ہندوستان کیلئے وہ لمحہ بھی کم پشیمانی کا نہیں تھا جب وزیراعظم مودی تو وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور سرکاری عملہ کے ساتھ ٹرمپ کے معتمد خاص ایلون مسک سے ملنے پہنچے مگر مسک اپنی گرل فرینڈ، بچوں اوران کے آیا  کے ساتھ آئے۔ ۱۴۰؍ کروڑ آبادی والے ایک بڑے ملک کے سربراہ کے ساتھ ایلون مسک کا یہ رویہ نہ صرف یہ کہ قابل مذمت ہے بلکہ وزیراعظم مودی اوران کے پورے عملے کی توہین کے مترادف ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK