Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

قندیل

Updated: March 16, 2025, 2:29 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

طالب علم ہو یا اُستاد، وہ ہمیشہ ایک سوچتا اور مسلسل سوچتا ہوا ذہن کا حامل ہونا چاہئے اور اس سوچ اور فکرکا زندگی میں استعمال بھی ہونا چاہئے۔ نوجوانو! اپنی فکر، اپنے خیالات کو آپ اپنی بیاض، اپنی ورقی یا برقی ڈائری میں نوٹ بھی کرتے جائیں تاکہ اس فکر کو دوسروں میں بانٹ بھی سکیں۔ آج ہم یہاں پر ایسے ہی اپنے چند خیالات آپ کیلئے پیش کر رہے ہیں۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

۱۔ آدمی خطا و نسیاں کا پُتلا ہے۔ سب خطا کارہیں، سوچنا یہ ہے کہ ان میں سے دانستہ خطائوں سے ہم پرہیز کرتے ہیں یا نہیں۔ 
۲۔ ہم میں سے اکثر جب کبھی مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں تو (الف) سکتے میں آجاتے ہیں (ب) تقدیر سے شکوہ کرتے ہیں (جو ہمارا محبوب مشغلہ ہے) (ج) ہڑ بڑاہٹ اور بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر حالات کو مزید سنگین بناتے ہیں اور (د) بالآخر اپنی محتاجی کا اعلان کرتے ہیں۔ 
۳۔ بزدل کا سفینہ کنارے پر ڈوبتا ہے۔ صرف بہادر کی قسمت میں طوفان ہوتے ہیں، اس کا مقابلہ کرنے کی ہمت بھی اور بالآخر کنارہ بھی۔ 
۴۔ عقل و فہم کے علاوہ بھی اللہ نے انسان کو ایک اور وصف دیا ہے وہ ہے، شعور! وہ کیا ہے؟ انسان کی تیسری آنکھ، ۳۶۰؍درجہ کا احاطہ کرنے والی آنکھ، ایک وسیع تر زاویہ!
۵۔ شہرت کو ظفر مندی سمجھنے والا احمق ہے اور گمنامی کو ناکامی سے تعبیر کرنے والا بے وقوف۔ 
۶۔ ذہانت کوئی واحد اور مکمل مثبت قدر نہیں، ساتھ میں اخلاص اور دیانتداری بھی چا ہئے ورنہ ذہین و فطین افراد بھی منہ کے بل گرجاتے ہیں۔ 
۷۔ کامیابی سے اگر انسان سرشار و مسرور ہوسکتا ہے تو ناکامی سے اُسے مضبوط اور حوصلہ مند ہونا بھی سیکھنا چاہئے۔ 
۸۔ تنقید اچھی بات ہے، نکتہ چینی بُری اور عیب جوئی بدترین۔ 
۹۔ ہم اس بات کا اعتراف کیوں نہیں کرتے کہ ہماری اکثرناکامیوں کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے کمفرٹ زون سے باہر نہیں آتے۔ کمفرٹ زون دراصل سہل پسندی، سُستی، کاہلی اور خیالی پُلائو کیلئے گڑھی گئی اپنی ایک کالی کوٹھری کا نام ہے۔ 
۱۰۔ مصنوعی ذہانت کا چرچا ہونے کے بعد سے ہم ربِّ کائنات کے زیادہ مشکور ہوگئے کہ اُس نے کس قدر اہم اور طاقتور قدرتی ذہانت ہم انسانوں کو عطا کی ہے۔ 
۱۱۔ ہر قسم کی طاقت ہمیں گمراہ کرتی ہے، زیادہ طاقت زیادہ گمراہ کرتی ہے۔ 
۱۲۔ ہر معاشرے میں دانشور بڑا سرمایہ ہوتے ہیں البتہ سرکاری سقراط اور بقراط شدید زیاں رساں عناصر۔ 
۱۳۔ افراد ہوں یا قومیں، اکثر غلطیوں سے نہیں بلکہ غلطیوں کے حق میں جواز پیش کرنے، اُن پر بضدرہنے اور اپنی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرنے سے تباہ ہوجاتی ہیں۔ 
۱۴۔ اَن گِنت بیماریوں کی جڑ یہ ہے کہ ہماری قوم خرچ کرنے میں اوّل نمبر پر ہے اور کمانے میں دسواں نمبر بھی نہیں۔ 
۱۵۔ نوجوانو! گھڑی کے کانٹوں کو روک نہیں سکتے، اُن سے آگے نہیں جاسکتے، البتہ اُن کے ساتھ ساتھ تو چلو۔ 
۱۶۔ عام طور پر ہم روایت پسند بن گئے ہیں، ایک ہی جیسی غلطیوں کا اعادہ کرتے ہیں اور ایک ہی جیسے نتائج کا سامنا کرتے رہتے ہیں۔ 
۱۷۔ خدشات، وسوسے، اندیشے، تذبذب، اُلجھنیں .... نوجوانو! ٹھان لیجئے کہ آپ اِن میں سے کسی بیماری کے وارث بننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ 
۱۸۔ صبر اور حکمت دو درخت ایسے ہیں جن کے پھل ہمیشہ میٹھے ہوتے ہیں۔ 
۱۹۔ ہمارا نوجوان پیدائشی کسی سے نفرت نہیں کرتا، گھر، ماحول اور اب میڈیا اُسے نفرت سکھاتے ہیں۔ 
۲۰۔ ہمارے تعلیمی نظام میں اساتذہ طلبہ سے صرف خطاب کرتے ہیں، گفتگو نہیں کیوں کہ گفتگو بولنے اور سننے کا عمل ہے۔ 
۲۱۔ ہرعمارت اپنی بنیاد پر استوار ہوتی ہے، آہنی دیواروں اور پکّی چھتوں سے نہیں۔ 
۲۲۔ بچپن ہے، جوانی ہے اسلئے بڑھاپا بھی برحق ہے البتہ جب اعضا بوڑھے ہوجائیں وہ فطری بُڑھاپا ہے مگر جب جینے کی اُمنگ نہ رہے، وہ خود ساختہ بڑھاپا ہے۔ 
۲۳۔ نوجوانو! آپ کو یہ ضد ہونی چاہئے کہ آپ اپنے آپ سے جیتیں کیوں کہ حقیقی سکون اپنے آپ کو ہراکر ہی ملتا ہے۔ 
۲۴۔ سب کا غصّہ، غصّہ ہوتا ہے، ماں باپ کا غصّہ صرف پیار ہوتا ہے۔ 
۲۵۔ بے لوث خدمت کرنے کیلئے دیوانہ بننا پڑتا ہے، یہ دیوانگی ہر ایک کے حصّے میں نہیں آتی۔ وہ خدا کے منتخب بندے ہوتے ہیں، یہ خوبی اُنہی کو حاصل ہوتی ہے۔ 
۲۶۔ نوجوانو! دوڑنے سے پہلے چلنا سیکھو۔ 
۲۷۔ دوستو! زندگی کے ہر محاذ پر فتح نہ بھی نصیب ہومگر لڑائی پوری طاقت سے لڑو، لڑکر ہارنے میں بھی سکون ملتا ہے۔ 
۲۸۔ بے کَسی اور بے بسی قابل علاج ہے، بے حِسی ہرگز نہیں۔ 
۲۹۔ نوجوانو! دادی امّاں سے یہ سیکھ لیجئے کہ بغیر الارم کے اُن کی آنکھیں تہجد کیلئے کیسے کھُل جاتی ہیں، وہ بس نیت کرلیتی ہیں اور آنکھ کھُل جاتی ہے۔ 
۳۰۔ فضول خرچ کرنے والا ہمیشہ یہ کہتے ہوئے سُنائی دیتا ہے کہ اُس کی مرضی، اس کے پاس خوب خوب دولت ہے۔ کوئی اُسے سمجھائے کہ اُس کا یہ عمل سماج دشمنی کہلاتا ہے کیوں کہ اُس کی بناء پر سیکڑوں، ہزاروں افراد اُس کی نقل کرتے ہیں، خواہ اُس کے لیے قرض درقرض لینا پڑے یا اُس کی عزت نفس دائو پر لگ جائے۔ 
۳۱۔ بغیر کسی منصوبے کے ہمارے وہ کام جو ہم نے کل کیلئے چھوڑے ہیں وہ پرسوں بھی پورے نہیں ہوں گےبلکہ، وہ برسوں تک بھی پورے نہیں ہوں  گے۔ 
۳۲۔ دانشوروں، مفکرّوں، ادیبوں اورشاعروں کے تخیّل سے معاشرہ تشکیل پاتا ہے البتہ سیاستداں ان سب پر یک لخت پانی پھیر لیتے ہیں۔ 
۳۳۔ صبح طارق کانور اُن چہروں پر پھیلتا ہے جو علی الصباح جاگ اُٹھتے ہیں، لمبی تان کر سونے والوں پر نہیں۔ 
۳۴۔ میں اُسے اپنا دوست سمجھتا ہوں جو مجھے ایسی کتاب دے جو میں نے پڑھی نہیں۔ 
۳۵۔ برقی کتاب کے مقابلے مجھے آج بھی ورقی کتاب اسلئے پسند ہے کہ میں اُسے اپنے سینے سے لگاسکتا ہوں، اُس کے اوراق کے درمیان گلاب کا پھول رکھ سکتا ہوں اورمور پنکھ بھی۔ 
۳۶۔ نوجوانو! جن لوگوں نے کتاب سے رشتہ توڑا ہے، اُن سے رشتہ توڑلو، کچھ حاصل نہیں ہوگا اُن سے اور اُن کی صحبت سے۔ 
۳۷۔ برکت، لوگ اُسے صرف روپے پیسے، دھن دولت اورجائیداد سے ناپتے ہیں اور اُسے برکت قرار دیتے ہیں۔ گھر میں بچّے دین سے وابستہ ہیں، فرماں بردار ہیں، ملنسار ہیں، بڑوں کی عزّت کرتے ہیں، بزرگوں کا خیال کرتے ہیں، کسی لت کا شکار نہیں ہیں، اُسے گھر کی برکت کیوں نہیں سمجھاجاتا۔ حضرات صرف بینک بیلنس برکت نہیں ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK