ہمارے دین میں بھی ہمیں ہر سال ایک مہینے کی ٹریننگ کے دَور سے گزرنا پڑتا ہے، یہ اللہ کا مرتّب کردہ ایک مکمل نظام ہے۔ ہر اسلامی سال میں ایک مہینہ خالص تربیت کا ہوتا ہے جو ماہِ رمضان کہلاتا ہے۔
EPAPER
Updated: March 02, 2025, 2:52 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai
ہمارے دین میں بھی ہمیں ہر سال ایک مہینے کی ٹریننگ کے دَور سے گزرنا پڑتا ہے، یہ اللہ کا مرتّب کردہ ایک مکمل نظام ہے۔ ہر اسلامی سال میں ایک مہینہ خالص تربیت کا ہوتا ہے جو ماہِ رمضان کہلاتا ہے۔
ایک مہینے کی سخت ٹریننگ :
نوجوانو! آپ جب کالج یا اعلیٰ تعلیمی اِدارے کے کتابی حصولِ تعلیم کو ختم کرتے ہیں تو اُس کے بعد کچھ عرصے تک ایک ٹریننگ یا تربیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہمارے دین میں بھی ہمیں ہر سال ایک مہینے کی ٹریننگ کے دَور سے گزرنا پڑتا ہے، یہ اللہ کا مرتّب کردہ ایک مکمل نظام ہے۔ ہر اسلامی سال میں ایک مہینہ خالص تربیت کا ہوتا ہے جو ماہِ رمضان کہلاتا ہے۔ ایک مہینے کی سخت قسم کی ٹریننگ جو انسان کو اگلے کم از کم گیارہ(۱۱) مہینے اپنے نفس پر قابو رکھنے میں مدد کرتا ہے۔ اُن گیارہ مہینوں کے بعد؟ انسان کچّی مٹّی کا بنا ہے اسلئے کہیں وہ پھر بہک یا بھٹک نہ جائے اسلئے ۱۱؍مہینے کے بعد پھر تربیت کا مہینہ رمضان آجاتا ہے۔ دوستو!اس قسم کی سخت ٹریننگ کی مثال کسی مذہب، دھرم، اِزم یا فلسفے میں موجود نہیں ہے۔ جس میں صرف بھوک و پیاس پر مکمل قابو نہیں ہے بلکہ اپنے پورے نفس کو قابو میں رکھنا ہے۔
شخصیت سازی:
دوستو! آپ سبھی واقف ہیں کہ آج پرسنالٹی ڈیولپمنٹ یا شخصیت سازی کی خوب چرچا ہوتی ہے۔ عالمی سطح پر اب یہ کروڑوں ڈالر کا بزنس بن چکا ہے۔ اس کے ایک ایک سیشن میں ۱۰۔ ۲۰؍ہزار سے لاکھ دولاکھ روپے تک کی فیس چارج کی جاتی ہے۔ طلبہ سے لے کر افسران، منیجر اور انتظامیہ کے اعلیٰ ذمہ داران اپنی شخصیت سازی کیلئے ایسے کئی قلیل و طویل مدّتی کورسیز میں داخلہ لے کر اپنی شخصیت کو سنوارنے میں مصروف دِکھائی دیتے ہیں۔ عالمی سطح پر دھوم مچانے والی شخصیت سازی کی حقیقت کیا ہے؟ اس ضمن میں بے شمار کتابیں آج بھی شائع ہورہی ہیں اور آن لائن تو بے پناہ معلومات اَپ لوڈ کی گئی ہیں ؟ دراصل یہ شخصیت سازی قرآنی اصطلاح ہے اور قرآن نے اُس کا نام دیا ہے : تزکیۂ نفس۔ جی ہاں شخصیت سازی اور کچھ نہیں سوائے تزکیۂ نفس کے یعنی ہر قسم کی بُرائی سے دُور رہنااور ہر اچھائی کو اپنانا۔
آئیے آج اس کے مختلف پہلوئوں پر غور کریں :
(۱) شخصیت سازی میں سب سے کار آمد عنصر وہ ہے جس پر ابھی تک بیشتر ماہرین نے مکمل فکر نہیں کی ہے اور وہ ہے توحید، جی ہاں اس کائنات کا خالق صرف ایک ہے اور وہ ہے اللہ۔ وہ قادرالمطلق ہے یعنی ہر کام پر قدرت رکھنے والا ہے۔ یہ یقین، یہ عقیدہ ہر انسان میں ایک نئی قوت، نئی طاقت اور نئی انرجی کوبھر دیتا ہے، اس جذبے اور یقین سے اُس کی شخصیت میں نِکھار آنا خود بخود شروع ہوجاتاہے۔ توحید کا عقیدہ اس طرح شخصیت سازی کی بنیاد ہے۔
(۲)تنظیم اوقات یا ٹائم مینجمنٹ ایک بڑا موضوع ہوتا ہے شخصیت سازی کی ٹریننگ ہیں۔ اپنے آپ پر مکمل کنٹرول کرکے وقت کا پابند کیسے بناجائے، اس کیلئے کئی مثالیں دی جاتی ہیں اور ہمارے یہاں اللہ تعالیٰ نے دو نظام دیئے ہیں۔ اوّل: نماز اور دوم: روزہ۔ نماز پڑھو یہ کہیں قرآن میں درج نہیں بلکہ ہر جگہ حکم یہ دیا گیا ہے کہ نماز قائم کرو۔ صرف پڑھنے اور قائم کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور نماز کو قائم کرنا انسان کے اپنے حق میں ہے، اُس کی طہارت، ذہنی سکون اور نفس کے تزکیۂ کیلئے ضروری نہیں بلکہ لازمی ہے۔ انسان کی شخصیت سازی کیلئے جو دوسرا اہم نظام عطا کیا ہے اُس کا نام ہے: روزہ۔ ایک ماہ کے روزے ہم پر فرض کرنے کے حکم قرآن میں جو دیا گیا ہے اُس کا سبب بھی درج کیا گیا ہے کہ روزے سے اپنے اندر تقویٰ پیدا کرنا ہے۔ تقویٰ یعنی ہر بُرائی سے بہر حال بچنا اور نیک عمل کرتے رہنا۔ پرسنالٹی ڈیولپمنٹ کے سیشن میں بھی اپنے آپ پر، اپنے نفس پر قابو کرنے کے کئی فارمولے بنائے جاتے ہیں۔ نوجوانو! ہمارے پاس ایک آفاقی نظام ہے اور ہم ساری عبادتیں اللہ کی رضا کیلئے بھی کرتے ہیں اور اُن سے ہماری کردار سازی خود بہ خود ہوتی رہتی ہے۔
(۳)پرسنالٹی ڈیولپمنٹ پروگراموں میں آپ کو خود شناسی کے کچھ گُرسکھاتے ہیں۔ ہمارے دین میں اُسے احتساب کہا جاتا ہے۔ ہر بار اپنے ہر قول اور (اُس سے زیادہ) اپنے فعل کا جائزہ لینا اور مسلسل لیتے رہنا۔
(۴) شخصیت سازی کے پروگراموں میں آپ کو ارتکاز یا فوکس کرنے کیلئے کچھ عملی سرگرمیاں کراتے رہتے ہیں، کبھی سانس روک کر، کبھی آنکھیں بند کرکے وغیرہ اور ہمارے دین میں مکمل ذ ہنی یکسوئی کیلئے سب سے بڑا ہتھیار صرف نماز ہی ہے۔ ہماری نمازیں میکانیکی نہیں ہونی چاہئے کہ رُکوع سجدے برابر ہورہے ہیں، میکانیکی طور پر ہم آیتیں بھی پڑھ رہے ہیں مگر ذہن دنیا بھر میں بھٹک رہا ہے، ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ ہم کبھی رکعتیں نہیں بھولتے جب ہمارا مکمل ارتکاز یا فوکس نماز پر ہوتا ہے۔ نماز میں سب سے زیادہ ارتکاز اسلئے بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اس کائنات کے رب کے سامنے ادا کرتے ہیں اور اُس کی خوشنودی کیلئے ادا ہوتی ہے۔
(۵)شخصیت سازی اور کامیابی کے حصول کیلئے منعقد ہونے والے تربیتی اجلاس میں اکثر موٹیویشنل اسپیکرس کامیابی ’ کسی بھی قیمت پر‘ کے گُر بتاتے رہتے ہیں۔ مثلاً (الف) کوئی یہ بیان کرے گا کہ فلاں آدمی ایک پیٹرول پمپ پر کام کرتا تھا اور چند سال بعد اُس نے ایک پٹرولیم کمپنی قائم کی اور آج وہ اس ملک کا سب سے بڑا صنعتکار ہے: (وہ کبھی یہ نہیں بتاتے کہ پیٹرول پمپ پر ہی اُسے معلوم ہوا کہ پیٹرول میں کیروسین وغیرہ کی ملاوٹ کرکے حرام طریقے سے اپنی دولت میں خوب خوب اضافہ کیا جا سکتا ہے) (ب) موٹیویشنل اسپیکرس کبھی یہ مثال دیتے ہیں کہ ایک آدمی ممبئی کی ایک بندرگاہ پر پکوڑے وغیرہ بیچتا تھا، آج وہ دوبندرگاہوں کا مالک ہے۔ (طلبہ خوب خوب تالیاں پیٹتے ہیں اور تصوّر کرنا شروع کرتے ہیں وہ بھی اس طرح ارب پتی بن جائیں گے، وہ ترغیبی مقررین یہ بات چھپاتے ہیں کہ اُس پکوڑے بیچنے والے کو معلوم ہوتا گیا کہ اُس بندر گاہ کے کسی گیٹ سے مال اسمگلنگ کیا جاسکتا ہے اورپھر وہ اسمگلر بن کر بندرگاہوں کا مالک بن گیا)۔ اس قسم کی جھٹ پٹ کامیابی کی بیسوں مثالیں اپنی زنبیل میں وہ لے کر چلتے ہیں اور کسی بھی طریقے سے خوب خوب دولت، جائداد وغیرہ حاصل کرنے کے خواب نوجوانوں کو دِکھاتے رہتے ہیں۔ اب ذرا غور کیجئے ہمارے دین میں کامیابی کا پیمانہ کیا ہے؟ (الف) جو ایمان لائے (ب) نیک عمل کرے (ج) ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور (د) صبر کی تلقین کرے۔ موٹیویشنل مقررین کی نظر میں سب سے زیادہ کامیاب وہ ہیں جن کے پاس خوب دھن دولت ہے۔ زمین جائیداد ہے، ڈگریاں ہیں، رُتبہ ہے وغیرہ وغیرہ اور ہمارے دین نے کامیابی کا ایک ہی پیمانہ مقرر ہے کہ جو سب سے زیادہ متّقی ہے یا پرہیزگار ہے وہی کامیاب ہے۔ نوجوانو! قلبی سکون کا یہی فارمولہ آپ کو اس کائنات کی سب سے بڑی بیماری ڈپریشن سے بچائے گا۔
(۶) نوجوانو! آج بھی کچھ بدبخت بندے ایسے ہیں جو اللہ کے وجود پر یقین نہیں رکھتے، یا قرآن کو آفاقی کتاب نہیں مانتے، اِن لوگوں میں چند نام نہاد دانشور بھی شامل ہیں۔ اپنے کالج میں اپنی محفلوں میں اُن سے اُلجھنے کے بجائے ہم ایک سوچ اس ضمن میں آپ کو دینا چاہیں گے، اُسے ہمیشہ گانٹھ باندھ کر رکھ لیجئے کہ اگر کسی کو ہدایت ملے تو وہ قرآن کی پہلی سورۃ فاتحہ پڑھ کر ہی لرزجائے گا کہ یہ اللہ کا کلام ہے کہ اس سے بہتر دعاکوئی ہوہی نہیں سکتی البتہ جسے ہدایت نہ ملے وہ آخری سورۃ الناس تک پہنچے گا مگر شک و شبہ میں مبتلا رہے گا کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے یا نہیں۔ دوستو! معاملہ صرف ہدایت کا ہے اور آپ سبھوں کوہدایت والوں کے گروہ میں شامل ہونا ہے۔
روزے اور امتحان
اکثر رمضان میں طلبہ کو کالج اورپروفیشنل کورسیز کے امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے۔ کچھ طلبہ (اور اُن کے والدین) یہ کہتے رہتے ہیں کہ روزے کی حالت میں اِن امتحانات کی تیاری کیسے ممکن ہے؟ ہم اُن کی معلومات کیلئے عرض کرنا چاہیں گے کہ اسلام کے تمام بڑے معرکے مثلاً غزوہ بدر (رمضان ۲؍ہجری)، فتح مکّہ (رمضان ۸؍ہجری)، غزوہ تبوک (رمضان ۹؍ہجری)، معرکہ فلسطین (رمضان ۱۵؍ ہجری)، معرکہ اسپین(رمضان ۲۹؍ہجری) وغیرہ کم از کم ۱۱؍ جنگیں ایسی تھیں جو رمضان کے مہینے میں ہوئی تھیں۔ بے سروسامانی کے عالم میں تپتے ریگزار میں اپنی جان کی بازی لگانے والے ان معرکوں کے مقابلے پڑھائی کا معرکہ کتنا دشوار ہے؟ اگر روزوں میں جنگیں لڑی جاسکتی ہیں تو بھلا زندگی کی یا امتحان کی جنگ کیوں نہیں ؟ لہٰذا روزہ اور جد وجہد حیات میں کوئی ٹکرائو نہیں، اسلئے روزے کی حالت میں بھی بھرپور یکسوئی سے پڑھائی ہوسکتی ہے۔ نوجوانو!پڑھائی کی مشقّت آپ کو کسی ایک امتحان میں کامیاب کرسکتی ہے البتہ روزے کی مشقّت آپ کو زندگی کے ہر امتحان میں کامیابی دِلاسکتی ہے!