Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

’ ریل‘ کا چکر ’رئیل لائف‘ سے تہذیب و شائستگی ختم کر رہا ہے

Updated: March 02, 2025, 2:48 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

ریل بنانے اور دیکھنے کی لت اب ایک ایسا مسئلہ بن گیا ہے جو انسانی اخلاقیات اور سماجی اقدار کو تباہ کررہا ہے، اسلئے ماہرین نجات کا راستہ دیکھ رہے ہیں۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

اکیسویں صدی کے آغاز سے قبل ہی اس موضوع پر غور و فکر کا عمل شروع ہو چکا تھا کہ ٹیکنالوجی نے انسانی زندگی کو جس نہج پر ڈال دیا ہے اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ ٹیکنالوجی پر انحصار کا وسیع ہوتا دائرہ انسانی معاشرہ کو کن سہولیات سے بہرہ ور کرے گا یااس کے سبب کون سے ایسے نئے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں جو انسانی اخلاقیات اور اقدار حیات کو متاثر کریں گے؟ یہ اور اس طرح کے دیگر کئی سوالوں کے جواب ماہرین اپنے اپنے طور پر دیتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ایک طبقہ انسانی زندگی میں ٹیکنالوجی کی بڑھتی مداخلت کو تہذیب و تمدن کیلئے سنگین خطرہ قرار دے رہا ہے تودوسرا گروہ ٹیکنالوجی کے تمام مظاہر کی جی کھول کر تعریف اور ان کے ممکنہ مضر اثرات کی پوری طرح تردید کرتا ہے۔ اس طرح صرف تعریف و تنقیص کی نظر ہی سے اس پہلو کا جائزہ لینا معقول و مناسب نہیں ہے۔ اس امر میں فکری اعتدال ہی کسی بہتر نتیجے پر پہنچا سکتا ہے۔ یہ اعتدال فکر و عمل ہر دو سطح پر ہونا چاہئے۔ یہ اعتدال ہی ٹیکنالوجی کے مضر یا مفید اثرات کا معروضی تجزیہ کرنے کا سلیقہ عطا کر سکتا ہے اور ساتھ ہی ٹیکنالوجی اساس آلات کے استعمال میں متوازن رویہ برقرار رکھ سکتا ہے۔ 
عہد حاضرمیں ٹیکنالوجی پر انسانی زندگی کے انحصار کا معاملہ اس قدر دراز ہو گیا ہے کہ اب کھانے پینے، سونے جاگنے اور اٹھنے بیٹھنے کا ہر عمل اس سے وابستہ ہوگیا ہے۔ ان امور میں بعض اوقات انسان حد اعتدال سے آگے بڑھ جاتا ہے اور اس کا یہ رویہ زندگی میں تکنیکی آلات کے سبب پیدا ہونے والی بے راہ روی کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس بے راہ روی کا مشاہدہ سوشل میڈیا پر بہ آسانی کیا جا سکتا ہے۔ اس پلیٹ فارم کا استعمال جن مثبت و کار آمد مقاصد کیلئے ہونا چاہئے اس پر توجہ ذرا کم ہے اور اب اس کے توسط سے ایسے مواد کی تشہیر کا رجحان شدت اختیار کر چکا ہے جو انسانی اخلاقیات کو منفی طور پر متاثر کرتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ترسیل و ابلاغ کے عمل میں جو سہولت پیدا ہوئی ہے اس کے سبب سیاسی اور سماجی بیداری کا دائرہ وسیع ہوا ہے لیکن اس بیداری کے ہمراہ جو مخرب اخلاق طور طریقے سماج میں رواج پا رہے ہیں وہ تہذیبی اقدار کیلئے مسئلہ بنتے جا رہے ہیں۔ 
 سوشیل میڈیا صارفین کی خاصی تعداد ریل بنانے اور دیکھنے میں اس قدر ملوث ہو چکی ہے کہ انھیں اس کا بھی خیال نہیں رہا کہ اس کے مضر اثرات کن کن صورتوں میں ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر اثرا نداز ہو سکتے ہیں۔ ابتدا میں ریل بنانا ایک شوق تھا لیکن یہ شوق اب لت بن چکا ہے۔ اس لت کے سبب عالمی سطح پر انسانوں کا ایک ایسا گروہ تیار ہو چکاہے جو شہرت اور دولت کی ہوس میں ان حدود و قیود سے تجاوز کو بھی غلط نہیں سمجھتا جن کی پیروی سماج میں صالح اقدار کی بقا کیلئے ضروری ہے۔ سوشل میڈیا صارفین کے درمیان ’ریل کلچر‘ کی مقبولیت کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا اتباع کرنے والوں میں ملک و معاشرہ، مذہب و ملت اور عمر و جنس کا کوئی امتیاز نہیں نظر آتا۔ اس کلچر سے وابستگی کے بعد بیشتر سوشیل میڈیا صارفین ایک ہی انداز اور مزاج کے حامل نظر آنے لگتے ہیں۔ ریل بنانے اور دیکھنے کی لت اب ایک ایسا مسئلہ بن گیا ہے جو انسانی اخلاقیات اور سماجی اقدار کو مضرت رساں عناصر سے آلودہ کر رہا ہے۔ سماجی امورکے ماہرین اب اس مسئلے سے نجات حاصل کرنے کی تدابیر پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں ۔ 
سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم پر ریل بنانے والوں کو دو زمروں میں رکھا جا سکتا ہے۔ ایک گروہ ایسے لوگوں کا ہے جو ناظرین کو تفریح فراہم کر نے کیلئے تخلیقی سطح پر محنت کرتے ہیں اور ایسا مواد تیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جو انسانی اخلاقیات، سماجی اقدار اور مذہبی تصورات کو فکری آلودگی سے محفوظ رکھے۔ اس نوعیت کی ریل بنانے والوں کے مقابلے ان لوگوں کی تعداد میں اضافہ روز افزوں ہے جو ان حدو د و قیود کی مطلق پروا نہیں کرتے۔ خود کو تمام اخلاقی حدود سے بالاتر سمجھنے والا یہ طبقہ معاشرہ کو کئی سطحوں پر نقصان پہنچا رہا ہے۔ اس طبقہ میں بچے، بڑے بزرگ، مرد اور عورت سبھی شامل ہیں۔ ناظرین کو تفریح طبع کا سامان فراہم کرنے کی خاطر بعض والدین اپنے بچوں سے ایسی بیہودہ حرکتیں کرواتے ہیں جو ایک مہذب سماج میں معیوب سمجھی جاتی ہیں۔ ریل بنانے کی غرض سے کی جانے والی ایسی حرکتوں کی میعاد بھلے ہی مختصر یا عارضی ہو لیکن اس کا اثر کم عمر بچوں پر دائمی ہوتا ہے۔ کم عمر بچوں میں ادب و اخلاقیات کی عدم پاسداری اور اشتعال اور تشدد کا بڑھتا رجحان انہی حرکتوں کا زائیدہ ہے جو بنام تفریح ان سے کروائی جاتی ہیں۔ 
کم عمر بچوں کے علاوہ پختہ عمر افراد بھی ریل بنانے کے جنوں میں اپنے مرتبہ اور وقار کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ جن لوگوں کو سرپرست اور رہنما کا کردار ادا کر نا چاہئے وہ ریل بنانے کی دھن میں اس قدر مگن ہو چکے ہیں کہ بنام تفریح مخرب اخلاق مواد کی تشہیر ان کیلئے کوئی معیوب عمل نہیں ہے۔ جن رشتوں کے ساتھ توقیر و تحریم کا تصور ناگزیر ہے ان رشتوں کو بھی ریل بنانے کی خاطر پامال کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ اس لت نے ان لوگوں کو بھی نہیں بخشا ہے جو ’منہ میں دانت نہیں ، پیٹ میں آنت نہیں ‘ کے مرحلے پر پہنچ چکے ہیں اور جن سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے تجربات سے نئی نسل کو ایسا فیض پہنچائیں گے جو زندگی کے پیچیدہ امور میں ان کی دست گیری کرے گا لیکن اب صورتحال اس قدر مخدوش ہو چکی ہے کہ بزرگ افراد کو اپنی اس ذمہ داری کی مطلق پروا نہیں ۔ اس طبقہ کے سبھی افراد اگر چہ اس لت میں مبتلا نہ ہوں لیکن اس حقیقت کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ اکثریت نے سوشل میڈیا پر وقت گزاری کو وتیرہ بنا لیا ہے۔ وقت گزاری کی یہ علت دراصل تضیع اوقات کے مترادف ہے جو انھیں مختلف قسم کے پیچیدہ جذباتی اور نفسیاتی مسائل سے دوچار کرتی ہے۔ 
 بچوں اور بزرگوں کے علاوہ خواتین بھی اس لت سے بری نہیں ہیں۔ سوشل میڈیا پر مقبولیت حاصل کرنے کی للک میں وہ شرم و حیا کو بالائے طاق رکھ کر ایسا مواد تیار کرتی ہیں جو شرافت اور پاکیزگی کے تصور کو مجروح کرتا ہے۔ تعجب تو اس بات پر ہے کہ ان کے اہل خانہ کیوں کر ایسی حرکتوں کو گوارہ کر لیتے ہیں ؟ اس طرز کے مواد کو بنام تفریح سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے والی خواتین، اظہار خیال کی آزادی اور ’ناری شکتی‘ کے عنوان سے ایسی حرکتوں کا جواز پیش کرتی ہیں جو انسانی اخلاقیات کی رو سے معیوب ہیں۔ اس طرح بیہودہ ریل بنانے والوں کے پیروکار اور ناظرین کی تعداد میں اضافہ ان کیلئے یافت کا ذریعہ تو بن سکتا ہے لیکن اس کے عوض میں ان کی نجی اور سماجی زندگی جن مسائل سے دوچار ہوتی ہے وہ وسیع پیمانے پر ان کی شخصیت کو متاثر کرتے ہیں۔ 
انسانی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی گھریلو اور سماجی ذمہ داریوں کو معیاری انداز میں پورا کرنے کے ساتھ ہی بعض ایسے امور اور عوامل سے بھی استفادہ کرے جو اس کی تفریح طبع کے اسباب مہیا کر یں ۔ یہ اسباب اس کیلئے فرحت و انبساط اور سکون و طمانیت کا باعث ہوتے ہیں لیکن جب یہ اسباب تہذیب و شائستگی کی حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں تو فرحت و انبساط اور سکون و طمانیت کے بجائے الجھن و اضطراب اور افسردگی کی کیفیت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ انسانی اخلاقیات کو مجروح کرنے والے مواد سے تفریح حاصل کرنے کا رجحان ایسا ہی ہے جیسے موسم سرما میں جسم کی حرارت برقرار رکھنے کیلئے اپنے مال و اسباب میں آگ لگا کر ہاتھ سینکا جائے۔ ریل کی شکل میں شستہ و شائستہ مواد فراہم کرنے کیلئے جس تخلیقی صلاحیت کی ضرورت ہے، ان ریل سازوں میں اس کا عموماً فقدان نظر آتا ہے۔ ایسی صورت میں ریل بنانے والے جس طرز کے مواد کی تشہیر کرتے ہیں وہ نہ صرف انسانی رشتوں کی حرمت پامال کرتے ہیں بلکہ وسیع تناظر میں اس کے سبب پورا سماج ایسے مسائل میں مبتلا ہو جاتا ہے جو صالح اقدار کیلئے سنگین خطرہ بن جاتے ہیں۔ اس خطرہ سے نجات حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ بنام تفریح سطحی اور بیہودہ مواد کی تشہیر کے رجحان سے اجتناب کیا جائے اور ریل سازی کے عمل میں ایسی تخلیقی صلاحیت کا مظاہرہ کیا جائے جو انسانی اخلاقیات اور سماجی اقدار کیلئے نقصاندہ نہ ہو۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK