فساد، ماب لنچنگ، گرفتاریاں اور بلڈوزر کے بعد اَب سروے۔ حکومت کسی کی بھی رہی ہو، مختلف طریقوں سے فرقہ پرستوں کے نشانے پر ہمیشہ مسلمان ہی رہے ہیں۔
EPAPER
Updated: December 17, 2024, 3:35 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai
فساد، ماب لنچنگ، گرفتاریاں اور بلڈوزر کے بعد اَب سروے۔ حکومت کسی کی بھی رہی ہو، مختلف طریقوں سے فرقہ پرستوں کے نشانے پر ہمیشہ مسلمان ہی رہے ہیں۔
گزشتہ د و تین ہفتوں میں سنبھل کی جامع مسجد، بدایوں کی شمسی شاہی مسجد، راجستھان میں خواجہ اجمیریؒ کی درگاہ اور ’ڈھائی دن کا جھوپڑا‘ کے علاوہ جونپورکی عطاء اللہ مسجد (جسے اٹالہ مسجد بھی کہا جاتا ہے) پر فرقہ پرستوں نے مندر ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے سروے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ سروے کچھ اور نہیں، مسلمانوں کو ہراساں کرنے کا محض ایک حربہ ہے۔ یکے بعد دیگرے یہ سب کچھ اتنی تیزی اور اتنے تواتر کے ساتھ ہورہا ہے کہ مسلمانوں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں مل رہا ہے۔ ایک مسجد کے بارے میں وہ کچھ غور کرتے ہیں اور قانونی کارروائی سے متعلق سوچتے ہیں کہ دوسری مسجد پر دعویٰ ٹھونک دیا جاتا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ اِس وقت ملک میں کم از کم۱۲؍ مساجد اور درگاہوں کے سروے کا مطالبہ کرنے والی درخواستیں مختلف عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ ایسی مساجد اور درگاہیں بھی ہیں جہاں فی الحال سروے کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے لیکن وہ بھی فرقہ پرستوں کے نشانے پر ہیں۔ ان میں مدھیہ پردیش کی کمال مولیٰ مسجد، مہاراشٹر کی حاجی ملنگ درگاہ اور ایرنڈول کی جامع مسجد کے نام قابل ذکر ہیں۔ ۲۰۱۱ء میں تشکیل دی گئی’ہندو سینا‘ نامی ایک شدت پسند تنظیم ہے جو ملک کی مختلف مساجد کے سروے کے مطالبے کی درخواستیں دائر کررہی ہے ایسا لگتا ہے کہ اس تنظیم کا مقصد ہی یہی ہے۔ اس تنظیم کا سربراہ وشنو گپتا نامی ایک شرپسند ہے جو پہلے آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم بجرنگ دل سے وابستہ تھا۔
یہ آر ایس ایس کا ایک آزمودہ کھیل ہے۔ مسلمانوں کو کس طرح قانونی تنازعات میں الجھا کررکھاجائے اور ان کی توانائی کو ضائع کیا جائے؟ آر ایس ایس کو بہت اچھی طرح سے معلوم ہے۔ یہ ایک طرح کی کرونولوجی ہے، جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ فرقہ وارانہ فساد، ماب لنچنگ، سخت دفعات کے تحت مسلم نوجوانوں کی گرفتاری اور بلڈوزر کارروائیوں کے بعد اب سروے کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ ملک میں حکومت کسی بھی جماعت کی رہی ہو، مختلف طریقوں سے فرقہ پرستوں کے نشانے پرہمیشہ مسلمان ہی رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ ہدف وہی مسلمان ہیں، بس تدبیر نئی ہے۔ ہر معاملے کی ابتدا مسلمانوں کواُکسانے اور ورغلانے اور اس کا اختتام مسلمانوں کے املاک کی لوٹ مار اور گرفتاریوں پر ہوتی ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ اس کھیل میں عدالتیں بھی آر ایس ایس کے ساتھ تعاون کرتی نظر آتی ہیں۔ فساد کے الزام میں عمر خالد اور شرجیل امام کی گرفتاری ہو یا محض چند گھنٹوں میں سنبھل جامع مسجد کیلئے سروے کا اجازت نامہ جاری کرنا ہو، یا پھر بابری مسجد کو متنازع بنانا، اس کی شہادت کے ذمہ داران کو رہاکرنا اور بابری مسجد کی ملکیت کا عجیب و غریب فیصلہ کرنا ہو یا پھر ملک کے مختلف حصوں میں بلڈوزر کارروائیوں پر ناانصافی کا دور دورہ رہا ہو، بیشتر معاملات میں عدلیہ کی جانبداری محسوس کی جاسکتی ہے۔
ایک دور تھا جب ملک بھر میں یکے بعد دیگرے فساد برپا ہوتے تھے۔ ان فسادات کا ہدف مسلمان ہی ہوتے تھے۔ اس کے بعد ماب لنچنگ کا دور آیا۔ دادری کے محمد اخلاق سے الور کے جنید خان تک ایک طویل فہرست ہے۔ بین الاقوامی سطح پر جب اس کے خلاف آوازیں بلند ہونے لگیں تو مسلمانوں کو ہد ف بنانے کا طریقہ تبدیل کردیا گیا۔ حکومتی سطح پر بلڈوزر کارروائیاں ہونے لگیں۔ ان کارروائیوں پر انسانی حقوق کی تنظیموں سے لے کر اقوا م متحدہ تک نے ناراضگی کااظہار کیاتو مساجد اور درگاہوں کے سروے کا نیا طریقہ تلاش کرلیا گیا ہے۔
حالات یقیناً مسلمانوں کیلئے اچھے نہیں ہیں لیکن مایوس کن بھی نہیں ہیں۔ لوک سبھا انتخابات کے دوران۶۴؍کروڑ رائے دہندگان میں سے تمام تر کوششوں اور ہر ممکن حربہ استعمال کرنے کے باوجود فرقہ پرستی کی سیاست کو محض۲۳؍ کروڑ ۵۹؍ لاکھ ووٹ ہی مل سکے۔ یہ صورتحال ہر دور میں رہی ہے۔ اُس وقت جب ملک تقسیم ہوا تھا، تب بھی مسلمانوں کا قافیہ تنگ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اُس دور میں ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر سے لے کر سردار پٹیل تک نے جنہیں اکثریت نواز سمجھاجاتا ہے، اس طرز عمل پر اعتراض کیا تھا اورآج جبکہ ملک کے سیاسی حالات بالکل بدل گئے ہیں دُشینت دوے، پرشانت بھوشن اور ہندی کے مشہور مصنف رام شرن جوشی جیسے لوگ ہمارا درد محسوس کرتے ہیں۔ ۴؍ نومبر ۱۹۴۹ء کو ڈاکٹر امبیڈکر نے کہا تھا کہ ’’یہ اکثریتی طبقے کا فرض ہے کہ وہ اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کرے۔ کسی بھی ملک میں اقلیتوں کاکمزور ہونا، اکثریتی طبقے کے رویے پر منحصر ہے۔ ‘‘اسی طرح ۲۵؍ مئی ۱۹۴۹ء کو اپنی ایک تقریر میں سردار پٹیل نے کہا تھا کہ ’’ہم، جو اکثریت میں ہیں، اقلیتوں کےتعلق سے سوچنا چا ہئے کہ ان کے جذبات کیا ہیں ؟ اس بات پر بھی ہمیں غورکرنا چاہئے کہ ان کی جگہ اگرہم ہوتے اور ہمارے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا تو ہم کیسا محسوس کرتے؟‘‘
کچھ اسی طرح گزشتہ دنوں معروف صحافی کرن تھاپر کے ساتھ ایک انٹرویو میں سپریم کورٹ کے وکیل دُشینت دوے نے اپنے درد کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے رندھی ہوئی آواز میں کہا کہ’’یہ لوگ پانچ ہزار سال پرانے ہندوستان کو کیا بنانا چاہتے ہیں ؟مجھے فخر ہے کہ میں ایک ہندو ہوں اور ایک برہمن ہوں لیکن، میری ثقافت، میری تہذیب تمام ثقافتوں اور تمام تہذیبوں کو قبول کرنےوالی اور سب کے ساتھ چلنے والی ہے۔ ایسے جھگڑوں سے ملک ترقی نہیں کرے گا۔ ‘‘خواجہ اجمیری ؒ کی درگاہ اور ’ڈھائی دن کے جھوپڑے‘ کو نشانہ بنایا گیا تو رام شرن جوشی بھی اپنے کرب کو چھپا نہیں سکے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’اس تنازع نے مجھے بھی ہلا کر رکھ دیا۔ مجھے یاد ہے، میں نے۱۹۷۰ءمیں دونوں جگہوں کا دورہ کیا تھا اور اُس وقت کے معروف میگزین ’دِن مان‘ کی کور اسٹوری لکھی تھی۔ وہ کافی مقبول ہوئی تھی۔ وہ درگاہ کے عرس کا وقت تھا۔ تمام برادریوں کے مردوں، عورتوں اور بچوں کا اجتماع تھا۔ وہ سب مل جل کر آگے بڑھ رہے تھے۔ ان کے درمیان کسی قسم کا کوئی تناؤ نہیں تھا۔ ‘‘
دراصل یہی ہمارا ہندوستان ہے اور اس کی یہی خوبی اسے دنیا کے تمام ملکوں میں ممتاز کرتی ہے۔ اس خوبی کو یاد کرنے والے کل بھی تھے، آج بھی ہیں اور کل بھی رہیں گے۔ ہمیں انہیں پہچاننے اور انہیں اپنی طاقت بنانے کی ضرورت ہے۔