Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

ساورکر کا جھوٹ بے نقاب کرکے شوری نے راہل کا کام آسان کردیا

Updated: March 09, 2025, 2:40 PM IST | Pankaj Shrivastava | Mumbai

آر ایس ایس خیمے کے صحافی سمجھے جانے والے اور اٹل بہاری واجپئی کی حکومت میں مرکزی وزیر رہ چکے ارون شوری نے اپنی نئی کتاب کے ذریعے ساورکر کے حامیوں کو آئینہ دکھایا ہے اور حقائق و شواہد کی مدد سے ایسی کئی کہانیوں کا پردہ فاش کیا ہے جس کی مدد سے انہیں ’ویر‘ بتانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔

Arun Shourie and Savarkar. Photo: INN.
ارون شوری اور ساورکر۔ تصویر: آئی این این۔

ونائک دامودر ساورکر کی’بہادری‘ پر سوال اٹھانے والے راہل گاندھی نہ صرف بی جے پی کے نشانے پر ہیں بلکہ انہیں اس معاملے پر کئی قانونی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ لیکن آر ایس ایس خیمے کے صحافی سمجھے جانے والے اور اٹل بہاری واجپئی کی حکومت میں مرکزی وزیر رہ چکے ارون شوری نے اپنی نئی کتاب کے ذریعے ساورکر کے حامیوں کو آئینہ دکھایا ہے۔ ارون شوری کی اس کتاب کا نام ہے’دی نیو آئیکن ساورکر اینڈ دی فیکٹس‘۔ اس کتاب میں انہوں نے ساورکر کی’حب الوطنی اور جرأت‘ کے بارے میں پھیلائی گئی تمام کہانیوں کی چھان بین کی ہے اور انھیں ’جھوٹا اور من گھڑت‘ پایا ہے۔ کتاب کے سامنے آنے کے بعد ساورکر کو ’بھارت رتن‘ دلانے کی مہم چلانے والے آر ایس ایس اور بی جے پی کے نظریاتی علمبردارششدر ہیں۔ دراصل راہل کی طرح شوری کو’غیر ملکی ایجنٹ‘ کہنے کے خطرے سے وہ بخوبی واقف ہیں۔ 
دلچسپ بات یہ ہے کہ ارون شوری نے ایک تیز دماغ اور باریک بینی سے کام کرنے والے صحافی کی طرح ساورکر کی تحریروں اور اس دور کی مختلف دستاویزات کے ذریعے اپنی کہی ہوئی ہر بات کو ثابت کیا ہے جو کہ ناقابل تردید ہیں۔ انڈمان جیل جانے سے پہلے، ساورکر یقینی طور پر ایک انقلابی کردار میں تھے تاہم، یہ کردار براہ راست’ایکشن‘ میں شامل ہونا نہیں تھا بلکہ کسی کو پیادے کے طور پر استعمال کرنا تھا، لیکن ایک بارجیل جانے کے بعد ساورکر نے جس طرح سے گڑگڑاتے ہوئے انگریزوں سے معافی مانگی اور رہا ہوکرقومی تحریک کے خلاف کام کرنے بالخصوص ہندو مسلم کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کیلئے کام کرنے کا وعدہ کیا، یہ ان کے تمام سابقہ کاموں پر پانی پھیر دینے والا تھا۔ 
اس کتاب میں، شوری نے ذات پات کے نظام، چھوا چھوت یا گائے کی پوجا جیسے عقائد کی ساورکر کی منطقی مخالفت پر روشنی ڈالی ہے (گائے کی پوجا کے بارے میں ساورکر کے خیالات سنگھ کی شاکھا سے تربیت یافتہ کسی بھی فرد کیلئے ناقابل برداشت ہو سکتے ہیں ) لیکن اصل مسئلہ ان کے سیاسی اصول ہیں، جن کی قبولیت کیلئے ساورکر کو ’ویر‘ ثابت کرنا ضروری تھا۔ شوری کی کتاب ’ساورکری ویرتا‘کی تمام کہانیوں کی چھان بین کرتی ہے اور انہیں فرضی ثابت کرتی ہے۔ ساورکر نے ’چترگپت‘ کے فرضی نام سے خود ایک کتاب لکھی اور ساورکر کو’ویر‘ کا خطاب دیا تھا۔ ذاتی تشہیر کی ایسی کوئی کوشش شاید ہی کسی نے کی ہو۔ اس کتاب کی ریلیز کے بعد ان کے حامیوں نے انہیں ’ویر ساورکر‘ کہنے کیلئے عوامی مہم شروع کی۔ اس کیلئے کئی کہانیاں گھڑ لی گئیں۔ جن سنگھ کے اُس وقت کے لیڈر اٹل بہاری واجپائی جو تقریریں کرنے میں ماہر تھے، عوامی جلسوں میں ’ویر‘ ساورکر کے سمندر کے بیچ میں جہاز سے چھلانگ لگا کر فرار ہونے کی کہانی تفصیل سے سنایا کرتے تھے۔ لیکن ارون شوری نے ثابت کیا ہے کہ بحیرہ روم کے بیچوں بیچ جہاز سے چھلانگ لگانے اور فرار ہونے کی کہانی بھی من گھڑت اور جھوٹی ہے۔ ارون شوری نے ثابت کیا ہے کہ جہاز اس وقت سمندر کے بیچوں بیچ نہیں تھا بلکہ ایندھن کیلئے فرانس کی مارسیلی بندرگاہ پر لنگر انداز تھا اور وہ کھڑکی سے فرار ہو گئے تھے۔ ساورکر نے ساحل تک پہنچنے کیلئے کئی کلومیٹر تیرنے کے بجائے بمشکل ۱۰؍ سے ۱۵؍ فٹ اُتھلے پانی کو عبور کیا تھا۔ اور دلچسپ بات تو یہ ہے کہ انہیں فوراًپکڑبھی لیا گیا تھا۔ 
۱۹۵۲ء میں ساورکر نے پونے میں ایک لیکچر کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ سبھاش چندر بوس کا۱۹۴۱ء میں کلکتہ میں اپنے گھر سے فرار ہونا اور آزاد ہند فوج کی تمام سرگرمیاں بوس کی ان کے ساتھ ہونے والی گفتگو کا نتیجہ تھیں، لیکن ارون شوری نے اس دعوے کو مدلل انداز میں من گھڑت اور جھوٹ قرار دیا ہے۔ خیال رہے کہ سبھاش چندر بوس نے خود ہی ایک مرتبہ ساورکر سے فاصلے کی بات کہی ہے۔ ان کے مطابق اس وقت ساورکر اور جناح میں کوئی فرق نہیں تھا۔ ساورکر نے۱۹۱۱ء اور۱۹۲۰ء کے درمیان انڈمان کی سیلولر جیل سے برطانوی حکومت کو لکھے گئے خطوط کا ایک سلسلہ بھی پیش کیا ہے، جو کسی بھی محب وطن کو شرمندہ کر سکتے ہیں۔ وہ بار بار’خود کوسلطنت کیلئے کارآمد ثابت کریں گے‘ کا وعدہ کرتے ہیں ۔ 
ساورکر’اکھنڈ ہندوستان‘ کا نعرہ لگاتے تھے لیکن آزادی کے بعد وہ تقریباً۱۹؍ سال زندہ رہے لیکن اس سمت میں کوئی پہل نہیں کی۔ ان کی ساری زندگی ہندوؤں اور مسلمانوں کو دو الگ الگ اور دشمن قومیں ثابت کرنے میں گزری۔ نظریہ پاکستان پیش ہونے سے بہت پہلے وہ دو قومی نظریہ پیش کرچکے تھے۔ جناح نے اس کیلئے ان کا شکریہ بھی ادا کیا تھا اور انگریز تو ہمیشہ ہی سے ان کے شکر گزار رہے۔ 
 ارون شوری نےاس سلسلے میں ساورکر کے کچھ اہم مضامین اور ان کے بیانات کو سامنے رکھا ہے جنہیں اکثر چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ انہوں نے یاد دلایا ہے کہ’سکس گلوریس اپروچس آف انڈین ہسٹری‘میں ساورکر نے ہٹلر اور جاپانی جنرل توجو کی تعریف کی ہے کیونکہ وہ واحد بیرونی لوگ تھے جنہوں نے ہندوستان کی مدد کی۔ ۱۹۶۳ء میں شائع ہونے والی اس کتاب میں ساورکر نے ’معذور بچوں کو ختم کرنے کے منصوبے کیلئے ساورکر کی تعریف‘ کا بھی حوالہ دیا ہے۔ ساورکر ہندوستان کیلئے جمہوری نظام کو نا مناسب قرار دیتے ہیں جہاں کے لوگ’جاہل‘ہیں۔ وہ `ایک آدمی کی ‘حکمرانی‘ کو ترجیح دیتے ہیں۔ 
یہ کتاب ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب راہل گاندھی تمام جوکھم اٹھاتے ہوئےساورکر کے اردگرد تیار کئے گئے ’ہالے‘ کو ختم کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ آر ایس ایس، جو قومی تحریک آزادی سے دور رہی ہے، ساورکر کو اپنے کیمپ کے ’آزادی کے جنگجو‘ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ 
ناتھو رام گوڈسے کے گرو رہے ساورکر کی تصویر کو پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال میں آویزاں کرنے کی حماقت تو اٹل بہاری واجپائی کے دور ہی میں کی جاچکی ہے۔ راہل گاندھی نے حال ہی میں پونے کی خصوصی عدالت میں ساورکر سے متعلق اپنے خلاف جاری مقدمے میں کیس کی نوعیت کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ’سمری ٹرائل‘ کو’سمن ٹرائل‘ میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کرنے کیلئے درخواست میں زور دیا ہے کہ ’’ یہ مقدمہ حقائق اور قانون دونوں کے پیچیدہ سوالات کو جنم دیتا ہے جس کی تفصیلی جانچ پڑتال کی ضرورت ہے لہٰذا شواہد کا ایک بڑا حصہ تاریخی نوعیت کا ہوگا، جس کیلئے اکیڈمک جانچ پڑتال کی ضرورت ہوگی۔ ‘‘
۲۰۲۳ء میں ساورکر کے ایک رشتہ دار’ساتیاکی اے ساورکر‘ نے راہل گاندھی کے ایک تبصرے پر اُن کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا ہے۔ انہوں نے راہل گاندھی کو زیادہ سے زیادہ سزا اور ان سے ہرجانے کی ادائیگی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس پر بی جے پی کیمپ کافی خوش تھا لیکن راہل گاندھی جس طرح سے اس معاملے کو اکیڈمک تحقیقات کی طرف لے جا رہے ہیں، اس سے ان کیلئے کافی پریشانی پیدا ہونے والی ہے۔ خاص طور پر جب ان کے’اپنے‘ ارون شوری نے ساورکر کے نام پر جاری فریب دہی کو بے نقاب کرنے کیلئے ایک کتاب ہی لکھ دی ہے۔ ویسے، یہ بھی سچائی ہے کہ ساورکر کے معافی مانگنے کا انکشاف کسی بائیں بازو کے مورخ نے نہیں بلکہ دائیں بازو کے مورخ آر سی مجمدار نے کیاہے۔ ۱۹۷۵ء میں حکومت ہند کے پبلیکیشنز ڈویژن سے شائع ہونےوالی ان کی کتاب’پینل سیٹل مینٹس ان دی انڈمانس‘ میں ساورکر کے شرمناک معافی نامے درج ہیں۔ ۱۹۱۳ء میں بھیجے گئے ایک معافی نامے کااختتام کرتے ہوئے ساورکر نے جو لکھا ہے وہ کسی بھی محب وطن کو شرمندہ کردےگا۔ ساورکر لکھتے ہیں کہ:
’’آخر میں، حضور، میں آپ کو پھر سے یاد دلانا چاہتا ہوں کہ آپ برائے مہربانی میری۱۹۱۱ء میں بھیجی گئی معافی کی درخواست پر نظر ثانی کریں اور اسے حکومت ہند کو بھیجنے کی سفارش کریں۔ 
ہندوستانی سیاست میں حالیہ پیش رفت اور حکومت کی سب کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسیوں نے ایک بار پھر آئینی راستہ کھول دیا ہے۔ اب کوئی بھی جو ہندوستان اور انسانیت کی بھلائی کا خواہاں ہے وہ ان کانٹے دار راستوں پر آنکھیں بند کرکے نہیں چلے گا جیسا کہ۰۷۔ ۱۹۰۶ءکی مایوسی اور جوش کی فضا نے ہمیں امن اور ترقی کی راہ سے بھٹکا دیا تھا۔ ایسے میں اگر حکومت اپنی بے پناہ مہربانی اور انسانیت کے ساتھ مجھے رہا کرتی ہے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں آئینی ترقی کا سخت ترین حامی رہوں گا اور برطانوی حکومت کا وفادار رہوں گا، جو ترقی کی پہلی شرط ہے۔ 
جب تک ہم قید میں ہیں، تب تک عزت مآب کی سیکڑوں ہزاروں وفادار رعایا کے گھروں میں حقیقی خوشی اور مسرت نہیں آسکتی کیونکہ خون کے رشتے سے بڑا کوئی رشتہ نہیں۔ اگر ہمیں رہا کردیا جاتا ہے تو لوگ خوشی اور تشکر کے ساتھ حکومت کی حمایت میں نعرے لگائیں گے جو سزا دینےاور انتقام لینے سے بہتر معاف کرنا اور اصلاح کرنا جانتی ہے۔ 
اس سے بڑھ کر یہ کہ میرا آئینی راستہ اختیار کرنا ہندوستان میں اور ہندوستان سے باہر ان تمام گمراہ نوجوانوں کو صحیح راستے پر لے آئے گا، جو کبھی مجھے اپنا رہنما سمجھتے تھے۔ حکومت ہند جس حیثیت سے چاہے میں خدمت کرنے کیلئے تیار ہوں کیونکہ جس طرح میری یہ تبدیلی ضمیر کی پکار ہے، اسی طرح میرا مستقبل کا طرز عمل بھی ہوگا۔ مجھے جیل میں رکھنے سے جو فائدہ آپ کو ملے گا وہ اس فائدے کے مقابلے میں کچھ نہیں جو آپ مجھے جیل سے رہا کر کے حاصل کریں گے۔ جوطاقتور ہے، وہی مہربان ہو سکتا ہے اور ہونہار بیٹا حکومت کے دروازوں کے سوا اور کہاں کا رخ کر سکتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ جناب آپ میری درخواستوں پر غور فرمائیں گے۔ ‘‘
جن وجوہات سے آر ایس ایس کیمپ انہیں ’ویر‘ قرار دینے کی کوشش کرتاہے، اپنی عرضی میں ساورکر اُن وجوہات سے خود ہی توبہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور خود کو سدھارنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ انگریزوں نے انہیں رہا کرکے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت پھیلانے کیلئے استعمال کیا۔ آزادی کے بعد آر ایس ایس بھی اسی راستے پر چلتے ہوئے اقتدار کی چوٹی تک پہنچا۔ ملک لگاتاراس جرم کی سزابھگت رہا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK