Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

اقتدار کے زعم میں کچھ لیڈران عوام کو بھکاری سمجھنے لگے ہیں

Updated: March 09, 2025, 2:02 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

مدھیہ پردیش کے وزیر پرہلاد پٹیل نے یہ کہہ کر کہ’عوام کو حکومت سے بھیک مانگنے کی عادت پڑ گئی ہے‘، ملک کےتمام شہریوں کا مذاق اُڑایا ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

مدھیہ پردیش کی ریاستی کابینہ میں شامل وزیر پرہلاد پٹیل نے عوام کے متعلق گزشتہ دنوں جو بیان دیا وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ اقتدار کا نشہ جب سر پرسوار ہو جاتا ہے تو عوام کو حقیر اور ذلیل سمجھنا سیاستدانوں کا شیوہ ہو جاتا ہے۔ یہ وہی سیاستداں ہوتے ہیں جو الیکشن کے دوران عوام کے گن گانے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھتے اور الیکشن جیتنے کے بعد ان کا رویہ اس قدر تبدیل ہو جاتا ہے کہ عوام کو غلام اور خود کو آقا سمجھنے لگتے ہیں۔ سیاستدانوں کا یہ رویہ جمہوریت کے اس تصور کو مجروح کرتا ہے جو آزاد ہندوستان کی شناخت کا نمایاں حوالہ ہے۔ سیاستدانوں کا یہ رویہ ان شخصیات کے عزم و عمل کو بھی غیر اہم بنا دیتا ہے جنھوں نے انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے اور ملک میں جمہوری نظام کو رائج کرنے کی جد وجہدمیں اپنی جان و مال کی قربانی دی۔ ان مجاہدین کی قربانی کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ عوام کو زندگی کے تمام شعبوں میں وہ عزت اور وقار حاصل ہو جو اُن کی عزت نفس کو پامال ہونے سے محفوظ رکھے تاکہ وہ زندگی میں کسی بھی سطح پر احساس کمتری میں نہ مبتلا ہوں۔ اس مقصد کا تحفظ ہی جمہوری قدروں کو تقویت کرے گا اور اگر ارباب اقتدار کا رویہ اس کے منافی ہو تو بلا تردد یہ کہا جا سکتا ہے کہ حکمراں طبقہ کا چہرہ تو بدل گیا ہے لیکن ان کا کردار ابھی اس معیار کا حامل نہیں بن سکا ہے جو جمہوری نظام کے تقاضوں اور ضابطوں کی پیروی پر پختہ یقین رکھتا ہو۔ 
مدھیہ پردیش کے وزیر پرہلاد پٹیل، جنھوں نے عوام کو بھکاری کہنے سے گریز نہیں کیا، اب اپنے دفاع میں عوام کی عزت نفس کا حوالہ دے رہے ہیں ۔ انھوں نے کہا تھا کہ’ ’عوام کو حکومت سے بھیک مانگنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ ‘‘ جب ان کے اس بیان پر اپوزیشن نے ہنگامہ کیا تو اب وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے بیان کا مقصد دراصل عوام کو پروقار زندگی جینے کی تحریک عطا کرنا تھا۔ یہ انتہائی لچر اور ناموزوں تاویل ہے۔ اس پر یقین کرنا بالکل ویسا ہے جیسے کسی شخص کو بلند و بالا عمارت سے دھکا دے کر یہ کہا جائے کہ اس کا مقصد اس شخص کی بہادری اور جرأت کو روبہ عمل لانے کی تحریک عطا کرنا ہے۔ ویسے اگردیکھاجائے تو ارباب اقتدار کا عوام کے تئیں رویہ بھی بیشتر اسی طرز کا ہوتا ہے۔ انتخابات کے دوران سیاستداں انھیں خواب و خیال کی جس بلندی پر پہنچا دیتے ہیں، الیکشن جیتنے اورکابینہ میں کوئی قلمدان مل جانے کے بعد وہی سیاستداں عوام کو مسائل کی پتھریلی زمین پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اس سفر کے دوران کبھی کبھار مصنوعی ہمدردی کا اظہاران کی جانب سے ہوتا ہے لیکن جب موقع ملتا ہے تو وہ عوام کی تذلیل اور تضحیک کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ 
عوام کے وقار کو تحفظ فراہم کرنے پر ہی جمہوری نظام کی بقا کا دار و مدارہے۔ ارباب اقتدار کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جن عوام کے ووٹوں سے وہ ایوان میں پہنچنے کے اہل ہوتے ہیں، ان کیلئے زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کی راہ ہموار کرنا ان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ ملک کا آئین بھی عوامی نمائندوں کیلئے اس ذمہ داری کو واجب قرار دیتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر عوام ان سیاستدانوں کو اپنے مسائل سے آگاہ کرتے ہیں اور مسائل کے تصفیہ کیلئے ان سے مدد مانگتے ہیں تو انھیں بھکاری کہنا صریح طور پر آئینی ضابطوں کو غیر اہم سمجھنے کے مترادف ہے۔ عوام کے ووٹ سے ایوان میں پہنچنے والے لیڈر الیکشن کے دوران عوام سے یہ وعدہ بھی کرتے ہیں کہ کامیاب ہونے کے بعد وہ ان کی پریشانیاں دور کریں گے اور ان کیلئے ’اچھے دن‘ لانے کی ہر ممکنہ کوشش کریں گے۔ یہ لیڈر جب حزب اقتدار کا جزو بن جاتے ہیں تو انھیں وہی عوام بھکاری نظر آنے لگتے ہیں جن سے ووٹ مانگنے کی خاطرمختلفطرح کے حیلے حوالے کرتے تھے۔ ریاستی اور مرکزی ایوانوں میں عوام کی نمائندگی کرنے والے یہ سیاستداں اقتدار کے زعم میں اس قدر مبتلاہو جاتے ہیں کہ انھیں یہ ابھی احساس نہیں ہوتاکہ ان کا سیاسی منصب انہی عوام کی بدولت ہے جنھیں اب وہ بھکاری سمجھ رہے ہیں۔ 
عوام کو بھکاری سمجھنے والے سیاستدانوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر عوام ان سے کسی مسئلے میں مدد کے خواہاں ہوتے ہیں تو یہ بھیک مانگنا نہیں ہے بلکہ یہ اس سیاسی رابطہ کا ناگزیر تقاضا ہے جو انھیں عوامی نمائندہ کے طور پر مختلف قسم کی سہولیات سے فائدہ اٹھانے کا اہل بناتا ہے۔ اس ضمن میں اس بنیادی حقیقت کو بھی مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ حکومت کے معاشی منصوبوں اور قومی خزانہ کی مالیت میں اضافہ کا اہم وسیلہ عوام کے ذریعہ ادا کیا جانے والا ٹیکس ہے۔ عوام ٹیکس اسی لیے ادا کرتے ہیں کہ حکومت یہ رقم ان کے معیار زندگی کو بہتر بنانے والے مختلف منصوبوں پر خرچ کرے گی۔ اقتدار، قومی خزانہ کا امین ہوتا ہے اور اس امانت داری کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ عوام کی فلاح و بہتری کیلئے اس کے استعمال کو یقینی بنایا جائے۔ اس تناظر میں دیکھیں تو مانگنے والا کردار سیاستدانوں کا ہوتا ہے نہ کہ عوام کا۔ انتخابات کے دوران یہ سیاستداں عوام سے ووٹ مانگتے ہیں اور حکومت سازی کے بعد ملک و معاشرہ کی ترقی و خوشحالی کے نام پر مختلف قسم کے ٹیکس وصول کر قومی خزانہ کو مستحکم بناتے ہیں۔ اس رقم سے عوام کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے اسباب مہیا کرنا ان کی آئینی ذمہ داری ہے لیکن فسطائی عناصر پر اقتدار کا نشہ اس قدر حاوی ہے کہ وہ خود تو عوام کے ٹیکس کے دم پر پرشکوہ زندگی بسر کرتے ہیں اور جب عوام کسی مسئلے میں مدد کے طالب ہوتے ہیں تو انھیں بھکاری کہہ کر ان کی تذلیل کرتے ہیں۔ 
اقتدار کے زعم میں عوام کی تذلیل کرنے والے لیڈروں کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ اگرکسی مسئلے میں عوام کا ان سے مدد مانگنا ان کیلئے اس قدر ناگوار ہے تو الیکشن کے دوران وہ عوام سے ایسے وعدے کیوں کرتے ہیں کہ جن سے یہ آس پیدا ہو کہ ان کے جیتنے کے بعد عوام کے حالات میں بہتری آئے گی ؟اس حوالے سے حقائق کا تجزیہ یہ ثابت کرتا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران ملک میں جس طرز سیاست نے مقبولیت حاصل کی ہے اس میں عوام سے بڑے بڑے وعدے کرنااور پھران وعدوں کو ’انتخابی جملہ‘ کہہ کربالائے طاق رکھ دینا ان کی پسندیدہ حکمت عملی رہی ہے۔ یہ حکمت عملی اسلئے کامیاب ہے کہ ان نیتاؤں نے عوام کو سماجی سطح پر اتنے خانوں میں تقسیم کر دیا ہے کہ عوامی بہبود اور ترقی کے معاملے میں بھی وہ متحد نہیں ہو پا رہے۔ ارباب اقتدار عوام کو اس سماجی تفریق میں الجھا کر بڑی چالاکی سے خود کو نہ صرف ہر طرح کی جواب دہی سے بچا لیتے ہیں بلکہ عوام کو محکوم اور غلام سمجھ کر ان کی تذلیل بھی کرتے ہیں۔ 
، کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ 
سوال یہ بھی ہے کہ بھکاری کہہ کر عوام کو عزت نفس کی ترغیب دینے کا یہ کون سا انوکھا انداز ہے ؟اور پھر یہ کہ عوام کیلئے ایسی غیرشائستہ زبان کس سیاق میں استعمال کی گئی ہے؟ وزیر موصوف کا مکمل بیان کہیں سے ان کے اس دعوے کو صحیح نہیں ثابت کرتاکہ ان کا مقصد عوام کو عزت نفس کی ترغیب دینا تھا۔ عوام کا ان سے جو رابطہ ہے اس میں عوام کی ضرورتوں اور مسائل کے تصفیہ کی تدبیر کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ عوام اگر ان سے یہ مطالبہ کرتے ہیں تو یہ کہنا کہ’ ’حکومت سے بھیک مانگنا ان کی عادت ہو گئی ہے‘‘ قطعی درست نہیں ہے۔ ارباب اقتدار کا یہ نخوت زدہ رویہ جمہوری نظام میں عوام کی بے توقیری کو نمایاں کرتا ہے۔ اس نظام کو عوام مرکوز بنائے رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ عوام فرقہ ورانہ سیاست کے دام سے باہر نکل کر سماجی اور معاشی فلاح و ترقی کے معاملے میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں ۔ یہ یکجائی ہی جمہوریت میں ان کی مرکزی حیثیت کو بحال اور اقتدار کو جمہوری اقدار کی پیروی پر آمادہ کرے گی۔ 
سیاسی لیڈروں کا تحکمانہ انداز کسی ایک سیاستداں یا کسی ایک ریاست سے ہی مخصوص نہیں ہے۔ اس انداز کا اظہار کبھی زبان کے ذریعہ اور کبھی افعال کے ذریعہ ان لیڈروں کی جانب سے ہوتا رہتا ہے جو خود کو عوام کا آقا اور حاکم سمجھتے ہیں۔ ان لیڈروں کا یہ مظاہرہ صرف عوامی سطح پر ہی نہیں ہوتا بلکہ مرکز اور ریاستی ایوانوں میں بھی غیر شائستہ زبان کا استعمال بڑی دیدہ دلیری سے کیا جارہا ہے۔ نیتاؤں کی اس روش سے نہ صرف سیاسی پراگندگی کو بڑھاوا ملتا ہے بلکہ عوام کے تئیں ان کے احساسات اور رویہ میں بھی جمہوری قدروں کی عدم پاسداری کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ مدھیہ پردیش کا معاملہ بھی اسی کا ایک مظہر ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK