Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

جنوبی ہند کے اندیشوں پر توجہ کی ضرورت

Updated: March 23, 2025, 3:16 PM IST | Asim Jalal | Mumbai

پارلیمانی حلقوں  کی مجوزہ حد بندی میں   من مانی ملک کےوفاقی ڈھانچے کیلئے بھی نقصاندہ ہوگی۔

Tamil Nadu Chief Ministers MK Stalin and P Vijayan. Photo: INN.
تمل ناڈو کے وزیراعلیٰ ایم کے اسٹالن اور پی وجین۔ تصویر: آئی این این۔

 پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے افتتاح کے وقت ہی یہ اندیشہ ہوا تھا کہ مودی حکومت پارلیمانی سیٹوں  کی نئی حد بندی کا ارادہ رکھتی ہے۔ نئی عمارت میں   ۸۸۸؍ نشستوں نے اس جانب واضح اشارہ کردیاتھا۔ لوک سبھا کی سیٹوں  کی نئی حد بندی سیاسی طور پر بی جےپی کے مفاد میں بھی ہے کیونکہ اس صورت میں  نشستوں  میں  اضافہ ہندی بیلٹ میں  ہی متوقع ہے جہاں  اس کی پکڑ مضبوط ہے اورا س طرح  مرکز میں  حکومت سازی کیلئے جنوبی ہند کی ریاستوں  کی ’’محتاجی‘‘ ختم ہوسکتی ہے۔ اس کو دوسرے نظریہ سے دیکھیں تو مرکز میں  حکومت سازی کیلئے جنوبی ہند کی ریاستوں  کی اہمیت نہ کے برابر رہ جائے گی اور یہی جنوبی ہند کی فکرمندی کا سبب بھی ہے۔ 
بی جےپی جو اپنی پوری طاقت جھونک دینے کے باوجود اب تک جنوبی ہند میں اُس طرح پیٹھ نہیں  بنا سکی جیسی پیٹھ اس نے شمالی ہند (یوپی، بہار، مدھیہ پردیش اور راجستھان وغیرہ) میں  بنا لی ہے، کیلئے نئی حد بندی کے ذریعہجنوب کو بے اثر کردینا زیادہ بہتر متبادل ہے۔ یہی وجہ ہےکہ مودی حکومت نئی حد بندی پر آمادہ نظر آرہی ہے۔   جنوب کی ریاستوں  میں   نہ صرف واضح فکر مندی پائی جارہی ہے بلکہ وہ اس معاملے میں  متحد ہوتی بھی نظر آرہی ہیں۔ سنیچر کو چنئی میں  تمل ناڈو کے وزیراعلیٰ ایم کے اسٹالن کی تحریک پر ہونے والی میٹنگ اس کا ثبوت ہے۔ اس میٹنگ میں  بی آر ایس، شرومنی اکالی دل اور بیجو جنتادل جیسی پارٹیوں  کی بھی شرکت اس بات کا اشاریہ ہے کہ جنوبی ہند ہی نہیں  حکومت کو اس معاملے میں  شمال کی کئی ریاستیں  سے بھی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کی وجہ بھی ہے، نئی حد بندی سے صرف جنوبی ہند کی ریاستی ہی متاثر نہیں ہوں گی، پنجاب، ہریانہ، ہماچل پردیش اور جموں  کشمیر بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں  رہ پائیں گے۔ انہیں  یہ نقصان اس لئے اٹھانا پڑے گا کہ انہوں   نے آبادی پر کنٹرول کے قومی منصوبے پرشمالی ہند کی ریاستوں  کے مقابلے میں زیادہ بہتر عمل درآمد کیا ہے۔ ایک طرف جہاں  آندھرا پردیش کی آبادی کی مجموعی شرح نمو ۱ء۷؍ فیصد اور تمل ناڈو اور کیرالا میں   ۱ء۸؍ فیصد سے بھی کم ہے وہیں   بہار میں یہ ۳؍ فیصد، یوپی میں ۲ء۳۵؍فیصد اور راجستھان نیز مدھیہ پردیش میں  ۲؍فیصد ہے۔ آبادی میں  اس غیر متوازن اضافہ کی وجہ سے ہی پارلیمانی حلقوں  کی نئی حد بندی کا سلسلہ ۱۹۷۳ءکی حد بندی کے بعد۱۹۷۶ء میں   ۲۰۰۰ء تک کیلئے اور ۲۰۰۲ء میں واجپئی سرکار کے ذریعہ ۲۰۲۶ء تک موقوف کردیا گیاتھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ آبادی پر کنٹرول کے معاملے میں  جوریاستیں پیچھے رہ گئی ہیں وہ خلاء کو پُر کرلیں۔ 
سوال یہ ہے کہ کیا یہ خلاء پُر کر لیاگیا؟اگر نہیں تو پھر جنوبی ہند کی ریاستوں کی جو دلیل اُس وقت قابل قبول تھی کہ انہیں آبادی پر قابو پانے سے متعلق پالیسی پراچھی کارکردگی کی سزا نہیں ملنی چاہئے، وہ آج کیوں نظر انداز کی جارہی ہے؟
آگے بڑھنے سے پہلے نئی حد بندی کے منظر نامہ کو ’دی وائر ‘میں  چھپے معروف صحافی پی رمن کے پیش کردہ اعدادوشمار کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں  کہ نئی حد بندی کی دو صورتیں  ہوسکتی ہیں، اوّل یہ کہ لوک سبھا کی موجودہ نشستوں  کی تعداد کو بڑھائے بغیر آبادی کے لحاظ سے پارلیمانی حلقوں  کی تشکیل نو ہو۔ 
دوم نشستوں  میں  اضافہ کیا جائے۔ نشستوں  میں  اضافہ کئے بغیر آبادی کے لحاظ سے لوک سبھا کیلئے نئے حلقے بنائے جانے کی صورت میں  بہار، مدھیہ پردیش، راجستھان اور اتر پردیش کو   ۳۰؍ سیٹوں  کا فائدہ ہوگا جبکہ آندھرا کی ۸، کرناٹک کی ۲، پنجاب، اتراکھنڈ اورہماچل کی ایک ایک سیٹ کم ہوگی۔ سب سے زیادہ فائدہ یوپی (۱۱؍سیٹیں ) اور بہار(۱۰؍ سیٹ؟) کو ہوگا۔ کیرالا جس نے آبادی پر کنٹرول کے معاملے میں  سب سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، پارلیمنٹ میں اس سیٹیں  گھٹ کر ۱۲؍ رہ جائیں گی جو فی الوقت ۲۰؍  ہیں۔ امیت شاہ نے جنوبی ہند کے اندیشوں  کو دور کرنے کیلئے یہ وعدہ کیا ہے کہ کسی کی سیٹیں  کم نہیں   ہوں گی۔ یہ اس صورت میں  ہوگا جب پارلیمنٹ کی سیٹیں  بڑھا دی جائیں۔ 
اس صورت میں   پی رمن کے پیش کردہ اعدادوشمار کے مطابق اگر پارلیمنٹ کی سیٹیں  بڑھا کر ۸۴۸؍ کردی جائیں اور آبادی کے لحاظ ملک بھر میں   اتنے ہی پارلیمانی حلقے بنائے جائیں تو یو پی کی نشستیں   ۸۰؍ سے بڑھ کر ۱۴۳؍ ہوجائیں گی، بہار کی ۴۰؍ سے ۷۹، راجستھان کی ۲۵؍ سے ۵۰؍ اور مدھیہ پردیش کی ۲۹؍ سے ۵۲؍ہوجائیں گی۔ یعنی امیت شاہ کے مطابق سیٹوں  کی تعداد بھلے ہی نہ گھٹے مگر پارلیمنٹ میں   جنوبی ہند کی نمائندگی اور سیٹوں  کا تناسب ضرور گھٹ جائےگا۔ ان اندیشوں  کو جنوب کے لیڈر بخوبی محسوس کررہے ہیں اس لئے اسٹالن کی قیادت میں متحد بھی ہونے لگے ہیں۔ مودی اور امیت شاہ کی جوڑی کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ہر فیصلہ نوٹ بندی، آرٹیکل ۳۷۰؍ کی منسوخی اور طلاق ثلاثہ کے خلاف قانونی سازی کی طرح تھوپا نہیں  جاسکتا۔ پارلیمانی حد بندی کے معاملے میں  اگر جنوبی ریاستوں  کو اعتماد میں  نہ لیا گیا اوران کے اندیشوں  کو رفع نہ کیاگیا تو یہ ملک کے وفاقی ڈھانچے ہی نہیں  سلامیت کیلئے بھی نقصاندہ ہوسکتاہے کیوں  کہ جمہوریت میں  ہر فیصلہ لاٹھی کے زور پر نافذ نہیں  کیا جاسکتا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK