اردو کسی مخصوص مذہب کی زبان نہیں ہے بلکہ خالص ہندوستانی ہے.. باوجود اس کے اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اُردو کو صرف اور صرف مسلمانوں کی زبان سمجھ کر ہی نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ یا یوں کہیں کہ ملک میں اردو کے بہانے مسلمانوں کو نشانہ بنائے جانے کی روایت رہی ہے۔
سپریم کورٹ کی ذمہ داری صرف فیصلے سنانا نہیں ہے بلکہ یہ دیکھنا بھی ہے کہ ان کا نفاذ ہورہا ہے کہ نہیں۔ تصویر:آئی این این۔
گزشتہ دنوں اُردو سائن بورڈ سے متعلق ایک معاملے کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نےجو تاریخ ساز فیصلہ سنایا، اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ یہ ایک دور رس فیصلہ ہے جس کی بازگشت برسوں نہیں بلکہ دہائیوں تک سنائی دے گی۔ آج کی تاریخ میں اس فیصلے کو ہندوستانی مسلمانوں کے زخموں پرایک بہترین مرہم قرار دیا جاسکتا ہے۔ حالانکہ عدالت نے مختلف دلائل و شواہد سے اس کا رشتہ ہند آریائی زبان سے جوڑتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ اردو کسی مخصوص مذہب کی زبان نہیں ہے بلکہ خالص ہندوستانی ہے.. باوجود اس کے اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اُردو کو صرف اور صرف مسلمانوں کی زبان سمجھ کر ہی نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ یا یوں کہیں کہ ملک میں اردو کے بہانے مسلمانوں کو نشانہ بنائے جانے کی روایت رہی ہے۔ اردو کو تختۂ مشق بنانے کا سلسلہ ملک کی آزادی کے بعد ہی سے جاری ہے لیکن گزشتہ ۱۰؍ برسوں میں اس میں شدت آگئی ہے۔ ایسے میں پاتور میونسپل کونسل کی عمارت پر لگے سائن بورڈسے متعلق سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے نے نہ صرف قانون و عدالت کے تئیں مسلمانوں کے اعتماد کو مزید مستحکم کیا ہے بلکہ ان کی اشک سوئی بھی کی ہے۔ اسلئےاس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس کی بھرپور ستائش کی جانی چاہئے۔ اسی طرح پاتور میونسپل کونسل کے اُن ذمہ داران کی جدوجہد اور ان کی کوششوں کو بھی سلام کیا جانا چاہئے جنہوں نےکسی بھی مرحلے پر شکست قبول نہیں کی، نامساعد حالات کے باوجود حق کی لڑائی جاری رکھی اور انصاف کے حصول کی اپنی ضد کو انجام تک پہنچایا۔ پاتور میونسپل کونسل کے رکن سید برہان اوران کے ساتھیوں کی اس کی جدوجہد میں ہم تمام لوگوں کیلئے ایک سبق ہے کہ اگر کسی مرحلے پر ہمیں اپنے راستےمسدود ہوتے نظر آئیں تو ہمیں اپنی جدوجہد ترک نہیں کرنی چاہئے بلکہ متبادل راستےکی تلاش جاری رکھتے ہوئےاس بات پر یقین رکھنا چاہئے کہ کوشش کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو بلا شبہ مسلمانوں نے اپنے زخموں پر ایک مرہم کی طرح محسوس کیا ہے.... لیکن آج کی تاریخ میں مسلمانوں کیلئے مرہم سے زیادہ راستے میں بچھے اُن زہریلے کانٹوں کا ہٹناضروری ہے جن سے وہ بار بار زخمی ہوتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے مذکورہ فیصلے نے مسلمانوں کو جو مسرت بخشی ہے، وہ ناقابل بیان ہے... لیکن افسوس کے ساتھ یہ بات کہنی پڑرہی ہے کہ فیصلہ تاریخ ساز ہونے کے باوجود اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اب اُرد و کے نام پر مسلمانوں کو ہراساں نہیں کیا جائے گا، اردو کو غیر ملکی نہیں ٹھہرایا جائے گا اور اُردو کے بہانے اردو والوں کو لعن طعن نہیں کیا جائے گا۔ فیصلہ سپریم کورٹ کا ہے، اس کے باوجود یقین کے ساتھ یہ بات نہیں کہی جاسکتی کہ آئندہ برسوں میں اگر کسی نے اس فیصلے کی خلاف ورزی کی تو اسے توہین عدالت کا مرتکب ٹھہرایا جاسکے گا۔
ان سطور کومایوسی یا منفی سوچ پرمحمول نہیں کیا جانا چاہئے بلکہ اس درد کو سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہئے جس کی ٹھوس وجوہات ہیں۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب عدالتی فیصلے پر مسلمانوں نے اظہار مسرت کیا ہے اور قانون کےتئیں اپنےاعتماد کا اظہار کیا ہے۔ حالیہ برسوں میں ایسے کئی معاملات سامنے آئے ہیں جب عدالت کے فیصلوں کو مسلمانوں نےاسی طرح مرہم جانا اور سرشاری کا مظاہرہ کیا لیکن افسوس کہ اس مرہم سے افاقہ ہونے کے بجائے، ان کے زخموں میں اضافہ ہونے لگا۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ مسلمانوں کے زخموں پر مرہم دیکھ کر کانٹوں (شرپسندوں ) کی سرکشی بڑھ جاتی ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کیلئے مرہم سے زیادہ اُن کانٹوں پرپابندی ضروری ہے جو انہیں بار بار زخمی کرتے ہیں۔ ہجومی تشدد کی بات ہو یاپھر بلڈوزر جسٹس کے نام پرمسلمانوں کے گھروں اور ان کی عبادت گاہوں کی انہدامی کارروائی ہو، بڑے پیمانے پر مسلمانوں کی گرفتاریاں ہوں یا پھر ان کے خلاف نفرت انگیز تقاریر( ہیٹ اسپیچ) کی بات ہو یا پھر اس طرح کے دوسرے معاملات، وقفے وقفے سے سپریم کورٹ اورملک کے مختلف ہائی کورٹس نے بہترین فیصلے سنائے ہیں ... لیکن ہم نے اُن فیصلوں کا حشر دیکھا ہے اور اس پر عدالتوں کی بے بسی کا بھی مشاہدہ کیا ہے۔ دراصل یہی واقعات ہماری تشویش کا باعث ہیں۔
ہجومی تشدد:
۲۸؍ ستمبر۲۰۱۵ء کو اترپردیش کے دادری میں محمد اخلاق نامی ایک شخص کو پیٹ پیٹ کر ماردیا گیا تھا۔ ان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ ان کے گھر میں گائے کا گوشت ملا تھا۔ ہندوستان کی نئی تاریخ کا یہ پہلا واقعہ تھا۔ اس کے بعد ہجومی تشدد کا ایک سلسلہ سا چل پڑا جو راجستھان میں اَلور کے پہلو خان اور رکبر خان سے ہوتے ہوئے ہریانہ کے جنید خان اورنوح کے ناصر خان تک پورے ملک میں پھیل گیا۔
سپریم کورٹ نے اس روِش پر سخت تبصرہ کرتے ہوئے اسے آئین اور قانون کی حکمرانی کے خلاف بتایا۔ ۱۷؍ جولائی ۲۰۱۸ء کو چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی والی بنچ نے ہجومی تشدد کو’قانون کی حکمرانی پر حملہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ’’ہجومی تشدد اور بھیڑ کی حکمرانی کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ ‘‘ اس کے ساتھ ہی عدالت نے مرکز اور ریاستی حکومتوں کو ہدایت بھی دی تھی کہ وہ ہجومی تشدد کے تدارک کیلئے ٹھوس اقدامات کریں۔ اس میں ہر ضلع میں ایس پی رینک کے افسر کو نوڈل آفیسر مقرر کرنا، حساس علاقوں کی نشاندہی کرنا اور متاثرین کیلئے معاوضے جیسی ہدایتیں بھی شامل تھیں ..... لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کی اس ہدایت کا کیا حشر ہوا۔ ملک میں آج بھی ہجومی تشدد کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ ملاحظہ کریں فیصلہ آنے کے بعد کے چند واقعات۔
۷؍ جون ۲۰۲۴ء کوچھتیس گڑھ میں صدام قریشی، چاند میاں خان اور گڈو خان کو گائے کی اسمگلنگ کے الزام میں ہجوم نے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا۔
۱۸؍جون ۲۰۲۴ء کو علی گڑھ میں ۳۵؍ سالہ اورنگ زیب عرف فرید کو چوری کے شبہ میں ہجوم نے مار ڈالا۔
۳۰؍ جون ۲۰۲۴ء کومراد آباد میں ۲۵؍ سالہ ڈاکٹر استخار احمد کو ان کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر ہجوم نے شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔
یکم جولائی ۲۰۲۴ء کو گجرات میں ایک مسلم نوجوان کو ہجوم سے بچانے کی کوشش میں ایک دوسرے نوجوان کو ہجوم نے مار ڈالا۔
اس طرح کے واقعات کی ایک طویل فہرست ہے لیکن کسی معاملے میں کسی خاطی کو سزا ہوئی، نہ ہی متاثرین کو معاوضہ دیا گیا۔
بلڈوزر کارروائیاں :
اترپردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر بلڈوزر کارروائیاں کی گئیں۔ اس کی وجہ سے انہیں ’بلڈوزر بابا‘ بھی کہا جانے لگا۔ پھر تو مدھیہ پردیش، راجستھان، آسام اور چھتیس گڑھ جیسی بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں بلڈوزر کارروائیوں کے معاملے میں آگے بڑھنے اور ’بلڈزور ماما‘ اور ’بلڈوزر چاچا‘ بننے کی ایک ہوڑ سی لگ گئی۔ اس پر بھی سپریم کورٹ نے سخت فیصلہ سنایا۔ ۶؍ نومبر۲۰۲۴ء کو سپریم کورٹ نے ’بلڈوزر جسٹس‘ کو آئینی اصولوں کے منافی قرار دیتے ہوئے اس پر سخت تنقید کی اور ملک بھر میں ایسی کارروائیوں کیلئے جامع رہنما اصول جاری کئے۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچڈ کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ ’بلڈوزر جسٹس‘کسی مہذب قانونی نظام میں ناقابل قبول ہے اور یہ ریاست کی طاقت کا غلط استعمال ہے.....
لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس فیصلے کا بھی کیا انجام ہوا۔ مختلف بہانوں سے بی جے پی کی حکمرانی والی تمام ریاستوں مسلمانوں کے گھروں اور ان کی عبادت گاہوں کے خلاف دھڑلے سے بلڈوزرکارروائیاں جاری ہیں۔
تازہ معاملہ ناگپور کا ہے جہاں ۱۷؍ مارچ ۲۰۲۵ء کو ہونے والے فرقہ وارانہ فساد میں ملزم بنائے گئے فہیم خان کے گھر کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کارپوریشن نے منہدم کر دیا۔ معاملہ بامبے ہائی کورٹ میں گیا تو ناگپورمیونسپل کارپوریشن نے یہ کہہ کر ’چونکا‘ دیا کہ اسے سپریم کورٹ کے فیصلے کا علم ہی نہیں تھا۔
اسی طرح ۱۶؍ اپریل ۲۰۲۵ء کو ہریانہ کے فرید آباد ضلع میں میونسپل انتظامیہ نے عدالت میں معاملہ زیر التواء ہونے کے باوجود دھاندلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ۵۰؍ سال قدیم مسجد پر بلڈوزر چلادیا۔ انتظامیہ نے انہدامی کارروائی کیلئے ’غیر قانونی تعمیرات‘ کا جواز پیش کیا ہے۔
اس طرح کے واقعات کی بھی فہرست بھی بہت طویل ہے جس میں ہم عدالتی احکامات کی دھجیاں اُڑتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔
بے جاگرفتاریاں :
سپریم کورٹ نےبے جا گرفتاریوں بالخصوص’یو اے پی اے‘ کے تحت ہونےوالی گرفتاریوں اور ضمانت کے معاملات پرکئی اہم فیصلے سنائے ہیں، جن میں آئینی حقوق کے تحفظ پر زور دیا گیا ہے۔ ۱۳؍ اگست ۲۰۲۴ءکو سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ’ ’ضمانت قاعدہ ہے اور جیل استثنیٰ‘‘ کا اصول یو اے پی اے جیسے خصوصی قوانین پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ یہ فیصلہ اُس وقت آیا تھا جب ایک پولیس کانسٹیبل کو ’یو اے پی اے‘ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے باوجودعمر خالد، شرجیل امام اور گلفشاں فاطمہ جیسے کئی مسلم نوجوان ہیں جوپانچ سال سےزائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ضمانت کے انتظار میں سلاخوں کےپیچھے ہیں۔ ان پر سپریم کورٹ کے ہی ’ضمانت قاعدہ ہے اورجیل استثنیٰ‘ کا اصول نافذ نہیں ہوپارہا ہے۔ ڈاکٹرکفیل خان اور صدیق کپن کو بھی ضمانت دینے میں عدالت کو کئی سال لگ گئے۔
نفرت انگیز تقاریر:
گزشتہ ۱۰؍ برسوں میں ملک میں نفرت انگیز تقاریر کا ایک سیلاب سا آیا ہوا ہے۔ ۲۱؍ اکتوبر ۲۰۲۲ء کو جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس رشی کیش رائے پر مشتمل سپریم کورٹ کے بنچ نے اس پرقابو پانے کیلئے پولیس کو ہدایت دیتے ہوئے کہا تھا کہ جہاں کہیں بھی ’ہیٹ اسپیچ‘ کا معاملہ سامنے آئے، اسے کسی شکایت کاانتظار کئے بغیراز خود کارروائی کرنی چاہئے۔ عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر افسران نے اس حکم پر عمل نہیں کیاتو ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے گی۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں ہمارے آس پاس آئے دن نفرت انگیز تقاریرہورہی ہیں مگر کسی کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہے۔ گزشتہ دنوں رام نومی کے جلوسوں میں کیسے کیسے نعرے لگے، اس سے پورا سوشل میڈیا بھر ا پڑا ہے مگر افسوس کہ پولیس والوں کو ’خبر‘ نہیں ہوپارہی ہے، اسلئے کہیں بھی ازخود کارروائی نہیں ہورہی ہے۔
عدالت نے مسلمانوں کے خلاف تعصب کے معاملے میں بھی کئی احکامات جاری کئے ہیں، بالخصوص اُس معاملے میں جس کے تحت کسی بھی کالونی میں مسلمانوں کو مکان دینے سے منع کردیا جاتا ہے یا کسی فرم میں مسلم نوجوان کو ملازمت دینے سے انکار کیا جاتا ہے.... لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔
یہ ہیں وہ چند معاملات اور واقعات... جن کی وجہ سے اُردو کے حوالے سے سپریم کورٹ کے شاندار فیصلے کے باوجود دل کو بہت زیادہ اطمینان نہیں ہورہا ہے۔ سپریم کورٹ کی اہمیت اور اس کا احترام بہت ہے....لیکن کیا اس کی ذمہ داری صرف فیصلے سنانا ہے؟ یہ دیکھنا نہیں ہے کہ ان کا نفاذ ہورہا ہے کہ نہیں ؟ ایسےمیں کیا ہمیں بہت زیادہ خوش ہونے کی ضرورت ہے؟