مذہبی منافرت کے نشے میں چورفرقہ پرستوں نے اردو کو دیش نکالا دینے کا نعرہ تک بلند کیا۔ جب وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے تو اُردو کو مٹانے کی مختلف تدبیریں اپنانے لگے۔
EPAPER
Updated: April 20, 2025, 1:00 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai
مذہبی منافرت کے نشے میں چورفرقہ پرستوں نے اردو کو دیش نکالا دینے کا نعرہ تک بلند کیا۔ جب وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے تو اُردو کو مٹانے کی مختلف تدبیریں اپنانے لگے۔
تقسیم ہند کے بعد اُردو پر ایسے تیر چلائے گئے کہ اگر یہ سخت جاں نہیں ہوتی تو اپنی موت آپ مر جاتی۔ اگرچہ کسی بھی زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا لیکن سازشوں کی بنا پر ہندی کو ہندوؤں اور اردو کو مسلمانوں کی زبان میں تقسیم کردیا گیا۔ مذہبی منافرت کے نشے میں چورفرقہ پرستوں نے اردو کو دیش نکالا دینے کا نعرہ تک بلند کیا۔ جب وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے تو اُردو کو مٹانے کی مختلف تدبیریں اپنانے لگے۔ اس کی ایک تازہ مثال اکولہ ضلع کے پاتور شہر کی میونسپل کونسل کے نام کی تختی سے اردو رسم الخط کو ہٹانے کیلئے مقامی کونسلر کا سپریم کورٹ تک پہنچ جانا ہے، لیکن عدالت عظمیٰ نے اردو کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے فرقہ پرستوں کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ رسید کر دیا۔ آیئے دیکھتے ہیں اس موضوع پر غیر اردو اخبارات نے کیا کچھ لکھا ہے۔
زبان علاقے کی ہوتی ہے مذہب کی نہیں
مراٹھی اخبار’لوک ستہ‘ اپنے۱۷؍ اپریل کے اداریہ میں لکھتا ہے کہ ’’سپریم کورٹ سے ہمیں کیا کیا سننے کو ملے گا، اس کا اندازہ لگانا بھی اب دشوار ہورہا ہےکیونکہ ہمارے اطراف جاہلوں کی تعداد روزبہ روز بڑھتی جارہی ہے۔ درحقیقت قانون کی تشریح، آئین کا دفاع اور قانونی عمل کی پاسداری ہی سپریم کورٹ کی اصل ذمہ داری ہے۔ تاہم حال کے کچھ فیصلوں سے محسوس ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کو اپنا دائرہ کار مزید وسیع کرنا پڑرہا ہے۔ جب سماج اور سیاست کو مذہبی خوراک مل جائے تو احمقوں کے پاؤں زمین پر نہیں رہتے ہیں۔ ایسے میں سپریم کورٹ کو پوری ذمہ داری سے اپنا فرض نبھانا پڑتا ہے۔ تازہ معاملہ پاتور شہر سے تعلق رکھتا ہے۔ یہاں کسی شہری کو یہ گوارا نہیں ہوا کہ میونسپل کونسل کا بورڈ اُردو میں بھی درج ہو۔ مذکورہ شہری نے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی اور وہاں مسترد ہونے کے بعد معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا۔ سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ اردو بورڈ لگانے میں کوئی حرج نہیں ہےلیکن فیصلہ سناتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے سماج، مذہب اور زبان کے حوالے سے کچھ ضروری اور بنیادی رہنمائی بھی کی۔ اس فیصلے کا پرتپاک خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ ایسا کرتے ہوئے زبان کو مذہب سے جوڑنے والے احمقوں کی خبر لینا بھی ضروری ہے۔ نووارد مذہب کے ٹھیکیدار سمجھتے ہیں کہ اردو مسلمانوں کی اور ہندی ہندوؤں کی زبان ہے۔ تب یہ سوال اٹھتا ہے کہ دراصل ہندی کون سے ہندوؤں کی زبان ہے؟ تمل ناڈو کے؟ بنگال کے؟کیرالا کے؟آسام کے؟ادیشہ کے؟ کیاان ریاستوں کے شہری ہندو نہیں ہیں ؟اگر ہیں تو کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی زبان ہندی ہے؟اگر مان بھی لیا جائے کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے تو ایک نکتہ باقی رہ جاتا ہے کہ کیا بنگالی مسلمان یا کیرالا کا مسلمان اردو زبان میں اپنے روزمرہ کے حساب کتاب کو لکھتے ہیں یا ملیالم یا بنگالی میں ؟ بنگلہ دیش مسلم اکثریتی ملک ہے پھر کیا اس ملک کی زبان اردو ہے؟اس ملک کے قومی شاعر نذرالاسلام قاضی نے بنگالی میں لکھا یا اردو میں ؟تو انہیں مسلمان سمجھا جائے یا نہیں ؟ اس طرح کے دیگر عمومی سوالات کے جواب ایک اسکول کا طالب علم بھی دے سکتا ہے۔ زبان علاقے کی ہوتی ہے مذہب کی نہیں۔ اتنی معمولی سی بات بھی فرقہ پرستوں کو معلوم نہیں ہے۔ اگر زبان کو کسی دوسرے مذہب کے ساتھ جوڑا جائے تو زبانوں کی آمیزش کا کیا ہوگا؟ چاول سے جس طرح کنکر الگ کرتے ہیں اسی طرح دیگر زبانوں کے الفاظ کو الگ نکالنا پڑے گا۔ پھر ’ پیشوے‘ کا کیا جائے اور یہ کہ’شاہ‘ رہیں گے یا جائیں گے؟‘‘
زبان مذہب نہیں بلکہ ایک تہذیب کا نام ہے
انگریزی اخبار’ دی ٹائمز آف انڈیا‘ نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ ’’منگل کو سپریم کورٹ نے ایک خشک قانونی کیس کو بھرپور تہذیبی اور ثقافتی سبق کے طور پر پیش کیا۔ کیس تھا کہ کیا بلدیہ کی عمارت کے مراٹھی سائن بورڈ کے نیچے اُردو رسم الخط میں ترجمہ شدہ نام لکھا جائے؟ کیا ایسا کرنا ’مراٹھی’ راج بھاشا‘کی خلاف ورزی ہوگی۔ بامبے ہائی کورٹ کی طرح سپریم کورٹ کو بھی اُردو لکھنے میں قباحت محسوس نہیں ہوئی۔ اس سے بڑھ کر سپریم کورٹ نے کہا کہ آئین کے شیڈول ۸؍ کے تحت مراٹھی اور اردو کو یکساں حیثیت حاصل ہے۔ اس نے یاد دلایا کہ یوپی، اے پی، جموں کشمیر، جھارکھنڈ، بہار، بنگال، تلنگانہ اور دہلی میں اردو دیگر سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے۔ اردو کو `’غدار‘ اور’دشمن‘کی زبان بولنے والوں نے باقاعدہ ایک مہم چھیڑ رکھی ہے۔ یہ تعصب پسندی کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ اردو اتنی ہی ہندوستانی ہے جتنی سنسکرت ہے۔ اردو واقعی ایک جامع زبان ہےجس کا تہذیبی اور ثقافتی کلچر بہت شاندار ہے۔ سپریم کورٹ کا حالیہ تبصرہ بڑا معنی خیز ہے۔ زبان مذہب نہیں بلکہ زبان ایک تہذیب کا نام ہے۔ ہمیں اپنی سبھی زبانوں کا احترام کرنا چا ہئے۔ ’وہ یار ہے جو خوشبو کی طرح، وہ جس کی زباں اردو کی طرح‘نفرت کرنے والے چاہے جتنی نفرت کریں تاہم منی رتنم کی فلم ’دل سے‘ کا ڈانس اور گانا سبھی کیلئے کشش رکھتا ہے۔ بہت سے لوگ جو اردو کو نستعلیق میں نہیں لکھ سکتے وہ دیو ناگری، رومن اور گرومکھی میں لکھتے ہیں۔ دہلی کا سالانہ جشن ریختہ فیسٹول اردو کے چاہنے والے نوجوانوں سے بھرا رہتا ہے۔ ‘‘
اردو کی اپنی نزاکت ہے، اس کی اپنی دلکشی ہے
ہندی اخبار’لوک مت سماچار‘ اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ ’’پتہ نہیں لوگوں کے پاس اتنا وقت کہاں سے آتا ہے؟ یا وہ مذہبی شدت پسندی میں اتنے غرق ہوجاتے ہیں کہ زبان کو بھی تعصب کا نشانہ بنانے سے دریغ نہیں کرتے۔ اکولہ ضلع کے پاتور میونسپل کونسل کی عمارت کے سائن بورڈ پر اُردو رسم الخط کے خلاف ایک عرضی داخل کی گئی تھی۔ جب یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو دو ججوں کے بنچ نے درخواست کو مسترد کردیا اور کہا کہ کوئی بھی زبان مذہبی طبقے کو ناپنے کا پیمانہ نہیں ہوسکتی اور اردو کوئی غیر ملکی زبان نہیں ہےبلکہ اس کا جنم اسی مٹی سے ہوا ہے۔ عدالت کا تبصرہ سولہ آنے سچ ہے۔ اگر ہم اردو کی تاریخ کو سمجھنے کی کوشش کریں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اردو اور ہندی الگ الگ نہیں ہے۔ دونوں کی پرورش یہیں ہوئی ہے۔ تحریری رسم الخط کو ایک طرف رکھیں تو دونوں زبانیں لسانیات کے نقطہ نظر سے بہت قریب نظر آتی ہیں۔ دونوں کے قواعد میں بھی بڑی مماثلت ہے۔ ۱۳؍ ویں صدی سے ۱۹؍ ویں صدی تک اردو’ہندوی‘ کے نام سے جانی جاتی تھی۔ ۱۷۵۱ء میں امروہہ میں پیدا ہونے والے شاعر غلام ہمدانی مصحفی نے پہلی بار اردو کا لفظ ۱۷۷۰ء میں استعمال کیا تھاتاہم وہ اپنی شاعری میں ہندوی الفاظ بھی استعمال کررہے تھے۔ تاریخی دستاویزات کے مطابق ۱۸؍ ویں صدی کے اخیر میں اردو کو زبان معلی یعنی اعلیٰ طبقے کی زبان کہا جانے لگا۔ مغل حکمرانوں کے دور حکومت میں پہلے فارسی کا بول بالا تھا لیکن رفتہ رفتہ اردو نے اپنے قدم جمانا شروع کردیئے، اسلئے یہ تاثر قائم ہونے لگا کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہےجبکہ حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ شاہجہاں کے زمانے میں فارسی کے ماہر پنڈت چندر بھان نے اردو میں بہت سی تخلیقات لکھیں۔ بعد کے زمانے میں بھی بہت سے شاعر ایسے ہوئے جو ہندو تھے لیکن انہوں اردو میں خوب لکھا۔ مثال کے طور پر فراق گورکھپوری، گلزار دہلوی، کرشن بہاری نور، کرشن چندر اورپنڈت دیا شنکر نسیم کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ اردو کی اپنی نزاکت ہے، اس کی اپنی دلکشی ہے۔ کسی بھی زبان کو مذہب سے جوڑا نہیں جاسکتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہندوستان میں ایسا ہوا۔ اردو کو مسلمانوں کی زبان کے طور پر فروغ دیا گیا اور ہندی کو ہندوؤں کی زبان کہا جانے لگا۔ ‘‘